لفظوں کے بازی گر اردو شاعر ڈاکٹر منیب الرحمٰن سے گفتگو


مجھے ڈیٹرائیٹ میں منعقد ہونے والی شعری نشستوں میں شرکت کا بارہا موقع ملا۔ جہاں اکثر دادِ تحسین اور واہ واہ کے شور و شین میں جب ایک شاعر کے نام کا بصد احترام اعلان کیا جاتا ہے تو ایک لمحہ کو ان کے استقبال میں خموشی طاری ہو جاتی ہے۔ اور تب ایک اکہرے جسم کا ایک شخص پروقار انداز سے مائیک کی جانب محوِ خرام ہوتا ہے۔ اور اپنی خوبصورت غنائیت اور ڈرامائی تاثر سے بھرپور آواز میں کلام کی ابتدا کرتا ہے۔ دفعتاً اس کی شاعری کا رعبِ حسن سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

لگتا ہے کہ بھرے مجمع کے سناٹے میں آغا حشر کا کوئی کردار نظمیہ مکالمہ ادا کر رہا ہے۔ مجھے اس وقت یہ باوقار بزرگ شاعر ایک پائیڈ پائیپر کی مانند نظر آتا ہے جو اپنی گہری اداسی کے سناٹوں سے ہم کلامی کے عالم میں تمام سامعینِ محفل کو اپنے ساتھ لیتا ہوا ماضی کے پاتال میں اتر جاتا ہے جہاں اس کی خوبصورت یادوں کی بازگشت سب کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ جی ہاں شاعری کے اس ساحر کا نام ہے پروفیسر منیب الرحمٰن، ملاحظہ فرمائیں۔

تم جو آؤ تو دھندلکے میں لپٹ کر آؤ

پھر وہی کیف سر شام لیے

جب لرزتے ہیں صداؤں کے سمٹتے سائے

اور آنکھیں خلش حسرت ناکام لیے

ہر گزرتے ہوئے لمحے کو تکا کرتی ہیں

خود فریبی سے ہم آغوش رہا کرتی ہیں

(بازدید)

میری بہت عرصے سے یہ خواہش تھی کہ منیب الرحمن صاحب سے تفصیلی گفتگو کا شرف حاصل ہو جائے جو کبھی ان کی مصروفیت کبھی خود اپنی کوتاہی کی وجہ سے پوری نہ ہو پا رہی تھی۔ بہرحال ایک شام اہن آربر مشی گن کے ایک سنسان محلے میں مقیم منیب الرحمن صاحب سے ملاقات کا موقع مل ہی گیا۔ ان کا گھر جہاں کے وہ واحد مکین تھے، بلاشبہ ایک علم دوست اور فن و ادب شناس کا مسکن دکھائی دیتا ہے۔ جہاں کی دیواروں پر خوبصورت فن پارے اور تمام ممکنہ جگہوں پر کتابوں کے ڈھیر تھے۔ منیب الرحمن صاحب گزشتہ کئی سال سے اپنی ماضی کی ان گنت یادوں اور خوبصورت شاعری کے سہارے اس مسکن کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی کم آمیزی کے باوجود ہمیں ان کی ماضی کی پرتیں اتارنے کا خاطر خواہ موقع مل گیا۔

منیب الرحمن صاحب، کچھ اپنے خاندان اور تعلیمی پس منظر کے متعلق بیان کیجیے۔ ”ہم نے ابتدا کی۔ انہوں نے ماضی میں جھانکتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ “ میری پیدائش آگرہ میں 18 جولائی 1924 کی ہے۔ آبائی وطن ڈبائی ضلع بلند شہر ہے جو علی گڑھ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ابتداء تعلیم الہ آباد کے اسکول میں ہوئی جو ایک رومن کیتھولک اسکول تھا۔ وہاں سے ڈیڑھ سال ہی تعلیم حاصل کی تو پھر والد کا تبادلہ آگرہ ہو گیا۔ جہاں شعیب محمدیہ اسکول سے آٹھویں جماعت پاس کی جب کہ والد کے ایک بار پھر تبادلے کے باعث دسویں جماعت اپنے قصبہ ڈبائی کے ہائی اسکول سے 1936 میں پاس کی۔ میرٹھ کالج سے انٹر کر کے علی گڑھ کالج چلے گئے جہاں 1938 سے 1943 کے دوران بی اے، ایم اے (تاریخ اور فارسی) کیا، پھراسکول آف اورئینٹل اسٹڈیز سے فارسی میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور یہ سال تھے 1950 کی ابتدائی دھائی کے۔ وہاں سے علی گڑھ آنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

غالباً اسی دوران آپ کی شادی بھی ہوئی تھی۔ ان کی گفتگو کے دوران ہم نے یاد دلایا۔ جی ہاں میری شادی 1952 میں ہوئی، میری اہلیہ سوئٹزر لینڈ کی تھیں۔ اور ان کا نام الزبتھ مور تھا۔

یہ ملاپ کیسے ہوا؟ ہم نے کریدا۔ اس زمانے میں میں اپنے کسی کام کے سلسلے میں پیرس گیا ہوا تھا۔ وہ وہاں نیوز ویک کے دفتر میں مترجم کا کام انجام دیتی تھیں۔ شادی کا فیصلہ میں نے ان سے ملاقات کے چار دن بعد ہی کر لیا تھا۔ الزبتھ نے شادی کی درخواست اس شرط پہ منظور کی کہ شادی والدین کی باہم رضامندی سے ایک آدھ ماہ بعد ہو۔ اس طرح 5 فروری 1952 میں لندن میں ایک مشہور صحافی دوست اقبال سنگھ کے گھر شادی کا فریضہ انجام پایا۔ ”ان کے چہرے پر ماضی کی خوش گوار یادوں کی چمک رقصاں تھی۔ مجھے عین اس لمحے ان کی نظم“ اظہار ”کی ابتدائی سطریں یاد آ گئیں۔

اب تیرے جسم سے

اب تیرے جسم سے اٹھتی ہوئی خوشبو کی لپٹ

میرے احساس پہ آویزاں ہے

گرم ہے کمرے کی خاموش فضا

تیرے عارض پہ پسینے کی نمی

ذہن میں لاتی ہے برسات کی پہلی راتیں

” اچھا تو امریکہ کب تشریف لائے؟ “ ہم نے گفتگو کا رخ موڑا۔ 1970 میں مشی گن کی اوکلینڈ یہ یونیورسٹی کے ماڈرن لینگویجز کے شعبہ میں بطور استاد تقرری ہوئی اور جب سے یہیں مقیم ہوں۔ ”انہوں نے عادتاً خاموشی اختیار کی تو ہمیں خیال آیا کہ ان کی مغربی معاشرہ کی پروان چڑھی اہلیہ کا مشرقی زندگی برتنے کا تجربہ پوچھیں تو انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی (جن کو انہوں نے شادی کے بعد زیبا کانام دیا تھا) کے متعلق بہت محبت سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ“ وہ اٹھارہ سال ہندوستان میں رہیں اور اس دوران انہوں نے بامحاورہ اردو زبان سیکھ لی تھی۔ وہ میرے ساتھ ہی علی گڑھ میں فرانسیسی اور جرمن زبان کی استاد مقرر ہو گئی تھیں۔ اس دوران ہمارے تین بچے آزاد، ثمینہ اور سالک پیدا ہوئے۔ بعد میں یعنی 1970 میں ہم سب امریکہ آ گئے۔

وطن چھوڑنے کا تجربہ کوئی آسان نہیں۔ منیب الرحمن کی شاعری میں ہجرت کے تجربات کا دکھ نمایاں ہے۔ خاص کر 1977 میں لکھی ہوئی نظم ”خانہِ متروک“ جو انہوں نے علی گڑھ میں عارضی قیام کے دوران لکھی۔

میں آیا ہوں اپنے یہاں مہماں بن کر

کچھ روز گزاروں گا چلا جاؤں گا

مٹ جائے گا غم دوری کا دھیرے دھیرے

کیا جانیے پھر لوٹ کے کب آؤں گا

ادبی زندگی کے متعلق انہوں نے بتایا۔ ”میری ادبی زندگی کا آغاز 1939 میں ہوا کہ جب“ ادبی دنیا ” (لاہور) میں اردو فسانے (انگریزی سے ترجمہ شدہ) شائع ہوئے۔ 1940 میں پہلی قابلِ ذکر نظم شائع ہوئی۔ “ شہابِ ثاقب ”کے نام سے جو شعری مجموعہ“ بازدید ”میں“ ستارہ ”کے نام سے شامل ہے۔

ہمارے خاندان میں والد صاحب کو ادب سے بہت شغف تھا اور گھر کی لائبریری میں اچھے خاصے رسائل آیا کرتے تھے۔ آج کل کا سا ماحول نہ تھا۔ اس زمانے میں ہر شریف خاندان کے لوگ چاہے وہ کسی بھی پیشہ سے تعلق رکھتے ہوں رسائل سے شغف رکھتے تھے۔ ہر گھر میں اقبال، غالب و حالی کے شعری مجموعے ہوتے تھے۔ یہی حال نثر کا تھا۔ رجب علی سرور، عبدالحلیم شرر، فسانہ عجائب جیسی کتابیں لوگ خرید کر پڑھا کرتے تھے۔ وہ جو ایک ماحول تھا اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کے پاس پڑھنے کی فرصت نہیں اور دلچسپی بھی کم ہو گئی ہے۔ ”انہوں نے تاسف سے کہا۔

آپ نے اب تک کیا کچھ لکھا ہے؟ میں نے سوال کیا۔

میں شاعری کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ بازدید، شہرِ گمنام، نقطہِ موہوم اور سڑکوں کے چراغ۔ کئی تحقیقی مضامین کے علاوہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام پربھی کام کیا ہے۔ جب تک میں آنکھیں کام کرتی رہیں میں لکھتا رہا۔ ”یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔

ہم میں سے اکثر اس بات سے آشنا ہوں گے کہ 1991 میں منیب الرحمن صاحب کو تدریس کے دوران، آنکھوں میں تکلیف ہوئی اور ہیمرج کے سبب ان کی ایک آنکھ کی بینائی زائل ہو گئی جبکہ 1998 میں دوسری آنکھ کی تکلیف کے بعد اس آنکھ کی بصارت بھی معدوم ہو گئی۔ گو ان تکالیف نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مجروح نہیں کیا تاھم کسی مدد کے بغیر پڑھنے لکھنے کا سلسلہ ضرور متاثر ہوا ہے۔ ان کا مجموعہ کلام ”نقطہ موہوم“ ان کی اسی کیفیت کا عکاس ہے۔

منیب الرحمن صاحب نے بتایا کہ ”میری شاعری پر ایلیٹ کے علاوہ غالب، میر، ن م راشد کا کافی اثر ہے۔ “ ادب زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے؟ کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ ”ادب کا سب سے اہم کردار تو یہی ہے کہ وہ زندگی کے اعلیٰ کردار سے روشناس کرواتا ہے۔ “ منیب الرحمن صاحب جو گزشتہ سینتیس سال سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ امریکہ میں اردو کے حوالے سے گویا ہوئے کہ ”اردو کو امریکہ میں رکھنے کے لئے والدین کو چاہیے کہ گھر پہ بچوں سے اردو میں گفتگو کریں۔ اگر مساجد قائم کرتے ہیں تو ہماری ایک شناخت خود ہماری زبان بھی تو ہے۔

اردو کی تعلیم کا ان یونیورسٹیوں میں کہ جہاں اردو کورسز ہیں، وہاں سے ہمارے بچوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اردو کی تعلیم کا اہتمام باقاعدہ پائیلٹ پروجیکٹ کے طور پر شروع کیا جائے اور ہفتہ میں تین دن پڑھایا جائے۔ محض سنڈے اسکول میں مذہب کے ساتھ نتھی کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ امریکہ کے اردو مشاعرے کسی حد تک اردو کی ترویج کا کام کر رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ بچوں کے لئے کوئی سنجیدہ کام ہو۔ ”انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ایک اہم نکتہ پر بھی روشنی ڈالی کہ“ ایک چیز جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہ کہ پرانے شعراء کے انتخابِ کلام کی سی ڈی بنائیں۔

اور اسی طرح نثر کی بھی سی ڈیز تیار ہوں۔ پڑھنے والے پروفیشنلز ہوں تاکہ ہر لفظ کی جداگانہ بخوبی ادائیگی ہو۔ ”ساتھ ہی انہوں نے اردو بریل کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ ہماری گفتگو اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔ اسی دوران ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ان کا چہرہ کھِل اٹھا تھا لیکن پھر ایک گہری اداسی ان کے لہجے میں طاری ہو گئی۔ انہوں نے بتایاکہ ان کا بیٹا خاصا بیمار ہے۔ بیٹے سے دوری اور اس کی بیماری کے باعث طاری بیچینی کو میں نے شدت سے محسوس کیا۔ غالباً اسی قسم کی کسی بے بسی کی کیفیت کو منیب الرحمٰن صاحب نے کبھی اس طرح رقم کیا تھا۔

شام کی مرجھائی مرجھائی مدہم سی روشنی میں

ْکھڑکیوں کے اس طرف وہ سال خوردہ چہرے

سامنے ٹی وی کو دھندلائی ہوئی آنکھوں سے تکتے

ہر بشر چھوٹی سی ایک دنیائے تنہا

بچے بڑھ کر اپنے اپنے راستوں پر جا چکے ہیں

دوری جا ڈھونڈتے ہیں

اور دل کے فاصلے بھی بڑھ جاتے ہیں

صرف ٹیلی فون ہی واحد تعلق رہ گیا ہے

نظم ”ٹیلی فون“

رات کے دھندلکے بڑھ چکے تھے۔ فضا میں نمی اتر رہی تھی اور میں نے منیب الرحمٰن صاحب سے انتہائی شکریہ کے ساتھ رخصت طلب کی۔

***    ***

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے مشی گن ریاست کے شہر ڈیٹرائیٹ میں پروفیسر منیب الرحمن کے نزدیک رہنے کی سعادت حاصل ہے۔ اب ان سے ذہنی قربت قائم ہوئے دو دھائی بیت چکی ہے۔ اس تمام عرصے میں ان کی عملیت اور رجائی اندازفکر نے مجھے ازحد متاثر کیا۔ میری ان سے یہ گفتگو اس کا اظہار ہے۔ ان کی زندگی کے 95 سال مکمل ہونے پر اس انٹرویو کو چھپوانے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں جو میری کتاب ”سب میرے لعل و گوہر“ میں شامل ہے۔ ۔ ۔ (مصنفہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).