تقریر پہ تقریر


انسان اپنی عادت اور مزاج میں رہن رکھ دیا گیا ہے۔ واقعات پہ زاویہ نظر کیا ہوتا ہے، کس بات کا کیا ردعمل دیتے ہیں، یا پھر کسی بھی موقع پہ کوئی بات کس انداز میں کہنی ہے یہ سب انسان کے انفرادی مزاج اور عادت کا حصہ ہوتا ہے۔ لوگ دوسروں کے ساتھ ان کے مزاج کے مطابق ہی تعلق رکھتے ہیں۔ شخصیت کا مزاج ایک رات میں نہیں بنتا۔ یہ چند ہفتوں کی محنت کا ثمر بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ کسی بھی شخص کے ذہنی ارتقا، فکری استحکام، نظریاتی وابستگی کا شاخسانہ ہوتا ہے۔

کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی سیاسی گروہ کا حصہ ہو، کسی مذہبی فکر کا حامل، کسی معاشرتی نظریے سے وابستہ یا لاکھوں بسنے والوں خاندانوں میں میں کسی ایک خاندان کا کوئی فرد۔ سب کے سب اپنے مزاج کے ہاتھوں گروی رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ مزاج دراصل انسان کا شریر بن جاتا ہے وہ شریر جو نظر تو نہیں آتا لیکن انسان کو بہر صورت اسی غیر مرئی شریر میں رہتے ہوئے فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔

جس طرح ہر انسان اپنا مزاج رکھتا ہے ایسے ہی سیاسی میدان میں موجود سب راہنما بھی اپنے مزاج کی چاردیواری میں قید ہیں۔ سیاستدان بھی اپنے مزاج کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور اس کی سیاسی دانش و حکمت عملی اس کے مزاج کے ہی تابع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پہ بھٹو صاحب بلا کے خطیب تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی ذوالفقار علی بھٹو سے بہتر کوئی ”خطیب“ یا مقرر گزرا ہو۔ بھٹو صاحب اپنے سننے والوں پہ سحر طاری کر دیا کرتے تھے۔

اگر آپ کو میری بات پہ ذرہ برابر بھی شک ہو تو یوٹیوب پہ جا کر بھٹو صاحب کی کوئی پرانی تقریر سن لیں۔ بھٹو صاحب نے 15 دسمبر 1971 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بطور وزیر خارجہ خطاب کرتے ہوئے اپنے روایتی جذباتی انداز میں کہا کہ ”کل میرے گیارہ سالہ بیٹے کا کراچی سے فون آیا تھا اور اس نے کہا سرینڈر کرنے کی دستاویزات کے ساتھ واپس مت آنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو ہم تمہیں پاکستان میں نہیں دیکھنا چاہیں گے۔“

اس کے بعد بھٹو صاحب نے سلامتی کونسل کے لیے دو الفاظ استعمال کیے کہ ”سلامتی کونسل ناکام ہوئی ہے“Miserably and shamefully “ اب ان دونوں الفاظ کا مطلب قارئین خود سے دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے کتنے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ بھٹو صاحب کی پوری تقریر ان کی روایتی جذباتیت اور انداز بیان کے ساتھ تاریخ میں امر ہو گئی اور اس پہ مستزاد بھٹو صاحب کو تقریر کے اختتام پہ ایجنڈا کی کاپی کو پھاڑتا دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں ہو گئی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ تقریر کرنے سے بھٹو صاحب تاریخ میں امر ہوگئے۔ لیکن سولہ دسمبر کو پاکستان دو لخت ہوگیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں عمران خان نے جو تقریر کی اس کی بازگشت تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ خان صاحب کی تقریر ایک مکمل پیکج تھا۔ قطع نظر اس بات سے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی محض ایک ”ڈیبٹنگ کلب“ بن چکا ہے لیکن پھر بھی اقوام عالم تک اپنی بات پہچانے کے لیے شاید ہی اس سے بہتر کوئی فورم دستیاب ہو۔ خان صاحب نے بحثیت مجموعی مسلمانوں کا مقدمہ لڑا۔ توہین رسالت جیسے نازک معاملے پہ دنیا کو اپنا پیغام دیا۔

اسلامو فوبیا پہ مغرب کو ایجوکیٹ کرنے کی اپنی سعی کی اور آخر میں کشمیریوں کی آواز بن گئے۔ خان صاحب نے بالکل اپنے مزاج سے ہم آہنگ تقریر کی۔ ان حالات میں خان صاحب اس سے بہتر تقریر نہیں کر سکتے تھے اور شاید یہی تقریر کوئی دوسرا سیاسی لیڈر کرتا تو وہ اتنی پر اثر نہ ہوتی۔ خان صاحب نے تقریر ختم کی تالیاں بجیں، واہ واہ کی صدائیں بلند ہوئیں، تعریفوں کے پل تعمیر ہونے شروع ہوئے، منقبتیں لکھی گئی، سوشل میڈیا پہ سیاسی مخالفین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوا۔ خان صاحب یقیناً اپنی دانست میں یہ تیسرا ورلڈ کپ جیت گئے ہیں۔

اب جب خان صاحب جب ملک میں واپس قدم رکھیں گے تو ملک کے حالات میں ذرہ برابر تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہو گی۔ خان صاحب کو یہاں بشمول کشمیر کی صورتحال انہی چیلنجز کا سامنا ہوگا جن کو وہ چھوڑ کر گئے۔ خان صاحب نے کشمیر سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا فرض کفایہ تو ادا کر دیا ہے لیکن پاکستان کے عوام ابھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی فرائض اور ذمہ داریوں سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔

تقریریں مخالفین کے سینے پہ مونگ دل سکتی ہیں۔ اقوام عالم کو سخت پیغام پہنچا سکتیں ہیں۔ اور ایسی تقریر کی لفاظی اور لہجہ تاریخ میں تو امر کر سکتا ہے لیکن دنیا لفظوں کے بعد عملوں پہ بھی نظر رکھتی ہے۔ اب معاشی مسابقت کا دور ہے۔ اگر ہم دنیا میں مضبوط معاشی ملک کے طور پہ ابھریں تو شاید اقوام عالم ہماری تقریروں سے پہلے ہی ہماری باتوں کو سنجیدگی سے لیں۔ ورنہ یہ تقریریں محض ہم ایسے جذباتی لوگوں کی وقتی ذہنی آسودگی کے لیے کارگر نسخہ ہوتا ہے جیسے ہپناٹائز کرنے کے لیے بھی تو چار شبد ہی بولنے پڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).