ہم، ہم نہیں بن سکے


ابھی تک حیات اپنی وسوسوں، اندیشوں اور خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ کسی پل چین نہیں سکون نہیں اور اطمینان نہیں۔ وجہ اس کی شاید یہی ہے کہ ہم، ہم نہیں بن سکے۔ شروع دن سے دوسروں کے دست نگر ہو کر رہ گئے۔ جینے کے لیے امدادیں اور خیراتیں مانگنے لگے۔ معاشی، سماجی اور سیاسی میدان میں خود کفالت حاصل نہ کر سکے۔ آزاد پالیسیاں بھی نہ بنا پائے۔

سوچا، ہو سکتا ہے یہ سب عارضی ہو مگر برسوں بیت چکنے کے بعد بھی حالتِ اضطراب ختم نہ ہو سکی۔ یہ کیفیت بر قرار رہی بلکہ اس میں وقفے وقفے سے اضافہ ہوتا گیا۔ خود مختاری ایک خواب بن گیا۔ ہمارے حکمرانوں نے مگر رولا یہی ڈالا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے جار ہے ہیں۔ انہیں کسی سے ڈکٹیشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں مگر ہوا اس کے بر عکس ڈکٹیشنیں لی جاتی رہیں۔ ڈکٹیشنیں ایسی کہ جن سے خود مختاری ٹوٹ پھوٹ جائے، پالیسیاں اور منصوبے بکھر بکھر جائیں۔

اب جب بہتّر برس کے بعد ایک نئی طرز کی حکومت وجود میں آئی ہے تو امید کا دیا روشن دکھائی دیا ہے مگر پہلے برس کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہے۔ ہو گی بھی نہیں کیونکہ پہلا برس منصوبہ بندی اور اس پر عمل در آمد کرانے کے لیے ہوتا ہے۔ ہر حکومت ایک برس مسائل کو سمجھنے میں گزارتی ہے بعد ازاں کچھ ہوتا ہے لہٰذا اس موجودہ حکومت کو بھی ایسا ہی کرنا پڑا ہے۔ مگر انداز گزشتہ حکومتوں ہی کی طرح کا ہے۔

روایتی طرز عمل واضح ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کا رونا بھی روایتی ہے اور قرضہ مانگنا بھی روایتی ہے، ٹیکسوں کا اجراء بھی پرانے طریقے کے عین مطابق ہے جس سے لگتا ہے کہ حالات بدلنے میں پچاس سو برس درکار ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ یہ حکومت مسائل کم کرنے میں کامیاب ہو جاتی مگر اسے آئی ایم ایف کے نئے احکامات نے پریشان کر دیا۔ اس نے ایسی ایسی شرائط سامنے رکھ دیں کہ جن پر عمل کرنا ضروری تھا لہٰذا اب ان کی بناء پر وہ مسائل جو حل ہونا تھے یا ان میں کمی واقع ہونا تھی وہ نہیں ہو پا رہے بلکہ ان میں گمبھیر تا آ گئی ہے۔

اُدھر کشمیر مسئلے نے صورت حال مزید خراب کر دی ہے۔ حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کشمیریوں کی حمایت عملی طور پر کرے تو عالمی برادری عالمی مالیاتی اداروں کا غضب ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے کہ وہ قرضہ دینا بند کر سکتے ہیں۔ اگلی اقساط پر پابندی لگ سکتی ہے مگر انہیں یہ خیال نہیں کہ بھارت بلوچستان میں کیا کرتا رہا ہے اب بھی اس نے وہاں حالات خراب کرنے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی کو ٹاسک دے رکھا ہے۔ جو کوئی نہ کوئی حرکت کرتی رہتی ہے۔ مگر عالمی برادری خاموش ہے۔ کلبھوشن کو رہا کرانے کی خواہش مند بتائی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہو گا قانون فیصلہ کرے گا کہ کیا ہونا ہے کیا نہیں ہونا۔ عرض کرنے کا مطلب حکومت کے پاس وسائل بہت کم ہیں اور اسے آگے بھی بڑھنا ہے۔

تبدیلی کا وعدہ بھی پورا کرنا ہے مگر بات وہی کہ میلہ دیکھنا ہے۔ دھیلہ پاس نہیں لہٰذا حکومت بیچ شکنجے میں آ چکی ہے۔ اور ہماری حزب اختلاف کو موقع مل گیا ہے ہاہا کار مچانے کا۔ میں اپنا سوال پھر دہراتا ہوں کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو کیا پڑی تھی بھاری قرض لینے کی؟ اس کے بغیر بھی تو حالت ہماری یہی ہونا تھی۔ پھر اسد عمر کو محروم وزارت کرنے میں بھی کیوں جلد بازی کی گئی انہیں رہنے دیا جاتا تو وہ ( ان کے مطابق) کوئی نہ کوئی سبیل نکال لیتے۔ مگر ”دوستی“ آڑے آ گئی۔ قرضہ آن سامنے کھڑا ہوا۔ آئی ایم ایف کا بھیانک چہرہ ایک نئے روپ میں سامنے آ گیا جس نے جو کہا حکومت نے مان لیا۔ اس میں قصور وار کون ہمیں نہیں معلوم عوام خود بڑے سیانے ہیں سمجھ سکتے ہیں قیاس کر سکتے ہیں۔

بہر حال جاوید خیالوی کے مطابق جب تک ہم خود کو نہیں پہچانتے آزادی و خود مختاری کا عمل مکمل نہیں ہو گا۔ پھر یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ جناب عالی آئیں ہمسایوں کے مابین تنازعات کو حل کروائیں اور وہ جو فیصلہ کریں گے منظور ہو گا۔ یہ بھی نہیں ہو گا کہ خالی خولی باتوں سے اپنے بد خواہوں کو مرعوب کریں گے۔ دندان شکن جواب دیں گے اور ایسا دیں گے کہ ان کی سات پشتیں یاد رکھیں گی مائیں نام لے کر اپنے بچوں کو ڈرائیں گی۔

بڑی حد تک جاوید خیالوی میرا دوست درست کہتا ہے۔ ہومیو ڈاکٹر غلام یٰسین نے بھی ایک مقامی ہوٹل میں کالم نگاروں سے اپنے پیشے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایسا ہی کچھ کہا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں تو کوئی ایسی وجہ نہیں کہ ہم اپنے پاؤں پر نہ کھڑے ہو سکیں۔ انہوں نے یہ مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ علاج بالمثل کو نظر انداز کر کے علاج بالضد کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، جو ہم سے ڈھیروں پیسا لے کر اپنے موجدوں کو بھیجتا ہے یعنی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو دوا سازی میں کثیر سرمایہ کاری کرتی ہیں اور پھر بے حد و حساب دولت غریب عوام سے وصول کر اپنے ملکوں میں بھجواتی ہیں۔

علاج پھر بھی ادھورا رہتا ہے۔ شفاتب بھی نہیں ملتی۔ وہ سرطان سے متعلق بتا رہے تھے کہ ان کے پاس ایسے ایسے مریض آتے ہیں جو ہسپتالوں سے جواب لے چکے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں گھر جانے کی ہدایت کر دی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اب وہ علاج نہیں کر سکتے۔ مگر انہوں نے ایسے مریضوں کو چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پھر دیکھا گیا کہ وہ شفایاب ہوئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں بس بتایا کہ وہ خون کے سرطان میں مبتلا ہو گیا تھا اس کے سُرخ خلیے قریباً ختم ہو گئے تھے اور متعلقہ ہسپتالوں نے فارغ کر دیا تھا۔ انہوں نے اس کا علاج شروع کیا تو بہت جلد مثبت نتیجہ بر آمد ہونے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ ٹھیک ہو گیا اب وہ معمول کی زندگی بسر کر رہا ہے۔

اس طرح اوکاڑہ کی فاطمہ تھی وہ بھی تندرست ہو چکی ہے۔ درجنوں ایسے کیسز ہیں جنہیں وہ دیکھ رہے ہیں مگر افسوس بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج بالمثل کے لیے کوئی جگہ نہیں جبکہ ہمارے موسموں اور کلچر کے اعتبار سے اس کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر مرض کی دوا اس میں موجود ہے بغیر کسی پیچیدگی کے اس سے شفایاب ہوا جا سکتا ہے۔ یوں کھربوں کے فنڈز اور ادویات پر اٹھنے والے اخراجات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

کیسا ہے یہ سب مگر ہمیں وہی کچھ کرنا ہے جو مغربی ممالک اور ان کے ذیلی غلام اداروں نے کہنا ہے۔ پچھلے دنوں ایک درد مند شہری نے قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے ایک تجویز پیش کی کہ اس پر عمل کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وطن عزیز قرضوں کے جھنجٹ سے آزاد ہو سکتا ہے مگر کوئی نہیں سُنتا۔ شاید ہمارے حکمرانوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ مغربی ملکوں کی خوشنودی کے سلسلے کو جاری رکھیں گے تاکہ ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ اب جب صدر ٹرمپ سے ہمارے وزیر اعظم جا کر انگریزی میں کہتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کو کرفیو سے چھٹکارا دلائیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت مجبور ہو جاتا کہ کرفیو اٹھائے۔

حرف آخر یہ کہ ہمارے ہاں باتیں ہی رہ گئی ہیں عمل نام کی کوئی چیز بچی نہیں حکمرانوں کا عوام سے تعلق بادشاہوں جیسا ہے جو ان کے جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں مگر عوام ( رعایا ) کی مجال نہیں کہ وہ چوں چرا کریں، کرتے ہیں تو دھرلیے جاتے ہیں۔ ان پر ٹھڈوں اور مکوں کی بارش کر دی جاتی ہے۔ جس سے وہ ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔ اور ہمارے وزیر اعظم اسے تعمیر و ترقی سے تعبیر کرتے ہیں کب کٹے کہ یہ سیاہ رات کب ہو گا اجالا کچھ معلوم نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).