اسرائیلی سیکیورٹی انڈسٹری کی لیبارٹریوں میں نوجوان نسل پر ہتھیاروں کی مبینہ آزمائش


اسرائیل کے عام انتخابات چھ ماہ کی مدت کے دوران دوبارہ ہوئے لیکن حسب توقع ان میں حصہ لینے والی 40 سے زائد سیاسی جماعتوں میں سے کوئی جماعت بھی حتمی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی انتہائی قدامت پسند جماعت ’لیکوڈ‘ پارٹی کا ان کے حریف سابق آرمی چیف بینی گینز کی جماعت ’بلیو اینڈ وائٹ‘ پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ بینی گینٹز کو نیتن یاہو کے مقابل معمولی برتری حاصل ہے۔ نیتن یاہو نے بینی گینٹز کو اتحادی حکومت بنانے کی دعوت دی تھی جس کو بینی گینٹز نے رد کردیا۔

نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ دو /دو برس کے لئے وزرات اعظمیٰ کا اقتدار کے دورانیہ تقسیم کرلیں۔ 120 کے ایوان کے لئے سادہ اکثریت کے لئے کسی بھی جماعت کو 61 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ سابق وزیر دفاع اویگدور لیبرمین کی جماعت یسرپل بیتینو پارٹی نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ اویگدار لیبر میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی جماعت بنانے اور وزیر اعظم بننے کے خواہاں ہیں لیکن نیتن یاہو اور بینی گینٹز قومی حکومت بنانے کے حامی نظر نہیں آرہے۔

دونوں ہی چاہتے ہیں کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیں۔ اسرائیل کے موجودہ انتخابات اس حوالے سے اہم قرار دیے جارہے تھے کہ اسرائیل وزیر اعظم نے مقبوضہ غرب اردن سرحدی علاقے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عرب ممالک و ترکی نے اسرائیلی وزیراعظم کے اعلان کی شدید مذمت کی تھی، جب کہ فلسطین کے سفارت کار سائب ایریکٹ نے کہا تھا کہ اس طرح کا اقدام ’جنگی جرم‘ تصور کیا جائے گا اور امن کے مواقع بالکل ختم ہوجائیں گے۔

غرب اردن کی حیثیت کا فیصلہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کی تہہ تک جاتا ہے۔ اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140 آبادیاں قائم کی ہیں جنھیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیل اس سے متفق نہیں ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے وادی اردن شمال میں بحیرہ گلیلی سے بحیرہ مردار تک پھیلی ہوئی ہے۔ وادی اردن کی لمبائی 120 کلومیٹر اور چوڑائی 15 کلو میٹر ہے، مجموعی رقبہ 16 لاکھ دونم ہے جو مغربی کنارے کا 30 فیصد ہے، جبکہ فلسطینی آبادی 65 ہزار اور یہودی آباد کار 11 ہزار ہیں۔

اسرائیل میں 1977 سے حکومت سازی کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت کو دیگر سیاسی جماعتوں کا سہارا لینا پڑتاہے۔ اس بار بھی کسی بھی جماعت کے لئے اکیلے حکومت بنانا ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل میں یہودی آبادکاری کے حوالے سے انتخابی مہم چلائی جاتی ہے اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے لے کر قدامت پسند جماعت تک ووٹ کے لئے فلسطینیوں پر جبر اور تسلط برقرار رکھنے کے ایشو پر اپنی انتخابی مہم لڑتے ہیں۔ امریکی صدر، وزیراعظم نیتن یاہو کے وادی اردن کی اسرائیل میں شمولیت کے فیصلے پر حمایت کا اعلان کرچکے تھے۔

دوسری جانب آبادکاری و فلسطینوں پر جبر کے حوالے سے سابق چیف آرمی اسٹاف بینی گینٹز کو سخت گیر شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل میں انتخابی عمل ہو یا کوئی بھی دن، ایسا نہیں گزرتا جب فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجی بربریت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ایسے ہی واقعات میں انتخابات کے اگلے روز ایک اندوہناک واقعہ میں نایفہ محمد کعابنہ وحدان نامی خاتون کو اسرائیلی فوجیوں نے بیت المقدس کو مغربی کنارے سے الگ کرنے والی قلندیا کی فوجی چیک پوسٹ کے قریب فائرنگ کرکے شہید کردیا۔

فائرنگ کے بعد اسرائیلی فوج کے کارندے وہیں دندناتے رہے تاکہ کوئی مدد کو نہ آسکے اور زیادہ سے زیادہ سے خون بہہ جائے۔ فلسطینی صحافی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ انہوں نے اپنے طور پر وزارت صحت سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہونے والی خاتون قلندیا کے پناہ گزین کیمپ سے تعلق رکھتی تھی۔

اسرائیلی انتخابات کے حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض المالکی کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ مالکی کا کہناتھا کہ ”سب سے پہلے ہم، اسرائیل میں انتخابات کے جمہوری نتائج کا احترام کرتے ہیں۔ اسرائیل میں کون حکومت تشکیل دے سکے گا، ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، مگر نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے کے لئے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔“

قبل ازین فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ کا کہنا تھا کہ ”ان کی حکومت انتخابات کے نتائج پر اس وقت تک اعتماد نہیں کرتی جب تک کہ اسرائیل مغربی کنارے میں قبضہ ختم کرنے میں تیار نہیں ہوتا۔“ دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر قبضوں کے علاوہ فلسطینیوں پر بدترین تشدد بھی کیا جارہا ہے۔ صرف ستمبر کے دوسرے ہفتے میں مزاحمتی کارروائیوں کے 69 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ اسرائیلی فوج کے تشدد سے 75 فلسطینی شہری زخمی ہوئے۔

یہاں تک کہ اسرائیلی جیلوں میں اسیر فلسطینی بھی جیلروں کی مجرمانہ غفلت کے سبب بیماریوں کے باعث جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ قابض اسرائیلی حکام کے محاصروں کی وجہ سے غزہ کے اسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کے لئے ضروری ا الات کی کمی کے وجہ سے بھی فلسطینیوں کو علاج معالجے کی شدید تکالیف کا سامنا ہے۔ ایک ایسا واقعہ پانچ برس کی عائشہ لولو نامی معصوم بچی کے ساتھ پیش آیا تھا جب علاج کے لئے یروشلم جانے کے لئے مریض کے علاوہ کسی بھی خاندان کے فرد کو اجازت نہیں دی گئی۔

مغربی کنارے سے تعلق رکھنے ایک اجنبی نے رضا کارانہ طور پر عائشہ کو بیت حانون راہدری سے اسپتال منتقل کیا جہاں دماغ سے سرجری کے ذریعے ٹیومر کو الگ کیا گیا۔ عائشہ کومے میں چلی گئی اور جب ہوش میں آئی تو اپنے والدین کا پوچھ کر رونا شروع کردیا جو اس وقت پاس نہ تھے کیونکہ اسرائیلی حکومت نے انہیں پرمٹ نہیں دیا تھا۔ عائشہ لولو کو غزہ کی پٹی میں بغیر مناسب سفری سہولت کے واپس بھیج دیا گیا تھا جہاں غزہ کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی اور غفلت کے سبب معصوم بچی کی جان چلی گئی۔

عالمی برداری کی مجرمانہ خاموشی اور امریکی ملی بھگت کے سبب مقبوضہ مغربی کنارے کی وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کے توسیع پسندانہ عزائم سب پر عیاں ہیں۔ اسرائیل میں جس طرح مسلم نسل کشی کی جا رہی ہے اس پر عالمی برداری کا خاموش رہنا اور فلسطین کے مسئلے کو حل نہ کرنا، مسلم امہ کی نا اتفاقی کا المیہ بھی ہے۔ اسرائیل میں انتخابی مہم کے دوران وادی اردن اور شمالی بحیرہ مردار پر اسرائیلی خودمختاری کے نفاذ کی مہم چلائی گئی۔

گو کہ اسرائیلی حکومت کے عزائم واضح ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے وادی میں غیر قانونی آبادی کاری کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کی درخواست پر اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس جدہ میں منعقد ہوا۔ جس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے اعلان پر لائحہ عمل و غور وفکر کیا گیا جبکہ عرب لیگ نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ لیکن فلسطینی عوام پر مسلسل جبر کو ابھی روکا نہیں جاسکا۔

صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینی بچوں پر مہلک ہتھیار وں کے استعمال کیے جانے کا انکشاف بھی سامنے آچکا ہے۔ پروفیسر نادیرا شالہوب کیوورکین نے کولمبیا یونیورسٹی میں دیے گئے ایک لیکچر میں کہا تھاکہ ”اسرائیل فلسطینی بچوں پر ہتھیاروں کی آزمائش کرتا ہے۔“ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ”فلسطینی مقامات اسرائیلی سیکیورٹی انڈسٹری کی لیبارٹریاں ہیں۔“ جامعہ عبرانی یروشلم کی سوشل ورک کی پروفیسر نے چند بچوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج خاص طور پر نوجوان نسل کو ہتھیاروں کی اس مبینہ آزمائش کا نشانہ بناتی ہے۔

”آرمی یہ جائزہ لیتی ہے کہ ہمارے خلاف کون سے بم استعمال کریں، ہمیں رائفل، گیس بم یا اسٹنگ بم سے مارا جائے، ہمارے اوپر پلاسٹک کے بیگز رکھے جائیں یا کپڑے رکھے جائیں۔“ اسرائیلی فوج کے خلاف نئے الزامات سے قبل اکثر میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج قتل کیے جانے والے فلسطینی بچوں کے اعضا کا کاروبار کرتی ہے۔ بیلجیئم کی اے سی او ڈی ٹریڈ یونین کے ثقافتی سیکریٹری اور فلاسفی آف سائنس کے اسکالر رابرٹ واندر بیکین نے اگست 2018 میں کہا تھا کہ ”غزہ پٹی پر موجود آبادی بھوک سے مررہی ہے، انہیں زہر دیا جاریا ہے، بچوں کو ان کے اعضا کے لیے اغوا اور قتل کیا جارہا ہے۔“

اس سے قبل نومبر 2015 میں اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کرکے ان کے اعضا نکال لیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو لکھے گئے خط میں ریاض منصور نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل کیے گئے فلسطینیوں کی لاشیں، کورنیا اور دیگر اعضا کے بغیر واپس کی جاتی تھیں۔ خیال رہے کہ نیویارک ٹائمز نے اگست 2014 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2000 سے اسرائیل انسانی اعضا کی غیرقانونی اسمگلنگ میں ”غیرمعمولی کردار“ ادا کررہا ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے اعضا کی چوری سے متعلق سب سے پہلے سویڈن کے معروف اخبار ایفٹون بلیڈیٹ نے 2009 میں رپورٹ کیا تھا۔ خیال رہے کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان اور ان کے وکلا کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔

فسطینی قوم کی نسل کشی اور اسرائیلی قابض افواج کی بربریت کے آئے روز اندوہناک واقعات سے مسلم امہ کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ آج جو کچھ فلسطین میں ہورہا ہے، مسلم اکثریتی ممالک کی کمزوری کے سبب اب کشمیر میں بھارت بھی یہی کچھ کررہا ہے جب کہ روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس پر تو خود اقوام متحدہ انہیں دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دے چکی ہے۔ آسام میں 20 لاکھ مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے نسل کشی کا سامنا ہے۔

افغانستان میں نہتے عوام پر بمباریوں سے ہزاروں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ اگر امت مسلمہ اپنے فروعی مفادات کو بالائے طاق نہیں رکھتی تو ظلم و جبر کا یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا بلکہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلے جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم صرف رسمی بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ فلسطین، شام، یمن، کشمیر، برما اور افغانستان میں مسلم امہ کو درپیش مصائب کا سدباب کرے۔ ملت اسلامیہ جس طرح فروعی اختلافات میں ڈوبی ہوئی ہے اس سے مسلم دشمن عناصر بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان کے مالی وسائل سے اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔ جو مسلم امہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).