میں ڈاکٹر خالد سہیل سے کیسے متعارف ہوا؟


زندگی بہت ہی پر اسرار چیز کا نام ہے۔ شعوری بلوغت تک پہنچتے پہنچتے بہت سے عجیب و غریب واقعات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں اور گزرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس مصروف زندگی میں ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ہم کچھ دیر ٹھہر کر اپنے خیالات کے تانے بانے سے ان رونما ہونے والے واقعات کی کوئی مبہم سی تصویر ہی بنالیں یا ان پر اسرار گوشوں میں سے زندگی کا کوئی نیا گوشہ دریافت کرلیں۔

امریکی مصنفہ ہیلن کیلر نے صحیح ہی تو کہا تھا کہ “seeing see little” کہ دیکھنے والی آنکھیں زندگی میں بہت تھوڑا دیکھتی ہیں۔ ہم سب کے پلیٹ فارم کی بدولت میری زندگی کے گوشے میں ایک ایسا انسان داخل ہوا جس نے میرے پہلے سے قائم شدہ تصورات اور خیالات میں اتھل پتھل پیدا کردی اور میر ے تصورات کی دنیا میں بونچال پیدا کردیا۔ اس انسان کے ایک ہی جملے نے میرے خیالات کی عمارت کو دھڑام سے نیچے گرادیا۔ وہ جملہ یہ تھا

 “There are as many truths as human beings and as many realities as pairs of eyes in this world.”

انسانیت کو دانائی بانٹنے والے اس انسان کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے۔ اس انسان کی شخصیت کا پورا نروان حاصل کرنے کے لیے میں نے سائبرکی دنیا کو کھنگالا تو پتہ چلا کہ یہ درویش تو سات سمند ر پار کینڈا میں آباد ہے۔ یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی اور اسی مایوسی میں سے ایک امید کی کرن بھی پیدا ہوئی۔ اس امید کے سرے کا نام ڈاکٹر بلند اقبال ہے، یہ بھی کینڈا میں آباد ہیں۔ امید کی اس شکل کا نام ڈاکٹر بلند اقبال کے پروگرامز Passwordکے نام جو ان دنوں رائل ٹی وی پر میزبانی کرتے تھے۔ ان پروگرامز میں ان کی اکثر مہمان شخصیت ڈاکٹر خالد سہیل ہوا کرتے تھے۔

میں نے Password کے تقریبا تمام پروگرامز سے استفادہ کیا اور ڈاکٹر خالد سہیل کی شخصیت کا بغور جائزہ لیا۔ اس جانچ پرکھ کا دوسرا سرا “In Search of Wisdom” کے ٹی وی پروگرامز سے جڑتا ہے۔ اس پروگرام کی میزبانی ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر بلند اقبال مل کر رہے تھے۔کینیڈا ون ٹی وی پر چلنے والے اس پروگرام کی بدولت ڈاکٹرخالد سہیل سے مزید آشنائی ہوئی آگاہی اور شناسائی کا یہ سفر ایک ادبی محبت کا روپ دھار گیا اور اس محبت کا دو بدو جنم ڈاکٹر خالد سہیل کی پیاری بہن عنبرین کوثر کے گھر پر ہوا۔

ڈاکٹر خالد سہیل اور میں آنے سامنے تھے اور بیچ کی فاصلاتی دیوار کا کوئی نام ونشان نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب میرے لیے کینیڈا سے کچھ کتابیں لائے، ان کتابوں میں ایک اہم کتاب درویشوں کا ڈیرا تھی جو کہ ڈاکٹر خالد سہیل اور رابعہ الربا ء کے ادبی خوابوں کی ایک مکمل دستاویز تھی۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے کینڈا میں فیملی آف دی ہارٹ کے نام سے ایک درویشوں کا ڈیرہ قائم کیا ہوا ہے۔

ڈاکٹر صاحب ایک ایسے انسان ہیں جو زندگی کو بہت ہی وسیع زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اسی وسعت پسندی کی وجہ سے وہ رنگ ، نسل ، قبیلہ اور مذہب سے اوپر اٹھ کر سوچتے ہیں اور اپنی تحریروں میں نسل انسانی سے مخاطب ہوتے ہیں۔ چونکہ آ پ ایک تھریپسٹ ہیں اور اسی آرٹ اور فن کے ذریعے سے انسانوں کے دکھوں کا مداوا اور مسیحائی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایک سائیکاٹرسٹ ہونے کے ناطے سے لوگوں میں چھپی ان کی خفیہ صلاحیت کا سراغ لگاتے ہیں اور ان کو ان کی شخصیت کا نروان دے کر زندگیوں میں امید کا چراغ روشن کردیتے ہیں۔

جبکہ ڈاکٹرصاحب کی بدولت میں پاکستان میں بہت بڑے بڑے ادبی لوگوں سے متعارف ہوا، جن میں سر فہرست ہم سب کی قابل ٹیم کے روح رواں جناب وجاہت مسعود اور جناب عدنان کاکڑ خاں اور دیگر بے شمار لکھنے والوں سے متعارف ہوا۔ دوسری طرف رابعہ الرباء، نوشی ملک اور بانو بی ، ہادیہ یوسف سے متعارف ہوا۔

یہ سب لوگ میرے ادبی محسن ہیں جن کی تحریک کی بدولت میں نے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔ اب ہم نے پاکستان میں بھی ایک درویشوں کا ڈیرا قائم کرلیا ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اسی طرح جگمگاتے رہیے اور ہمیں اپنی ادبی تحریروں سے منور کرتے رہیے۔ آپ کے ایک خوبصورت جملے پر میں اختتام کرنا چاہوں گا۔

“Human minds are like a parachutes, they work only when they are open.”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).