مراد علی شاہ کی گرفتاری کے اثرات؟


مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ مراد علی شاہ کی گرفتاری سے کیا حاصل ہو جائے گا۔ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو ریفرنس فائل کرے۔ کیا مراد علی شاہ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے سب کچھ ہورہاہے؟ پہلے ہی سوالات ہیں کہ احتساب یکطرفہ ہورہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان بھی اپنے تحفظات کا اظہا ر کر چکے ہیں۔

حال ہی میں پنجاب کے سابق وزیر سبطین خان کی ضمانت کا فیصلہ بھی بہت اہم ہے۔ سبطین خان کی ضمانت کا فیصلہ ایسے تمام مقدمات میں اہم ہو گا جن میں انکوائری ایک دفعہ بند کر کے دوبارہ شروع کی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ایک دفعہ انکوائری بند کرنے کے بعد دوبارہ شروع کرنے پر ایک قسم کی قد غن لگا دی ہے۔ اب نیب کو بند انکوائریاں دوبارہ کھولنے سے پہلے کئی دفعہ سوچنا ہوگا۔

بہر حال مراد علی شاہ سندھ کے منتخب وزیر اعلیٰ ہیں۔ کوئی انکوائری انھیں وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے کافی نہیں۔ اگر ان کو حراست میں لے بھی لیا جاتا ہے تب بھی وہ وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے قانون اور آئین کے تحت کسی کی بھی گرفتاری اس کو کسی بھی عہدہ کے لیے نا اہل نہیں کرتی ہے۔

ایسی صورت میں جب پیپلزپارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ مراد علی شاہ حراست میں بھی وزیر اعلیٰ ہوں گے، وہ کوئی غیر قانونی اور غیر آئینی بات نہیں کر رہی ہے۔ ملک کا آئین و قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر نیب کو آئین و قانون کے مطابق منتخب وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کا حق ہے تو دوسرے فریق کو بھی آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے تمام حق استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس میں حرج ہی کیا ہے۔ فریقین کو آئین کے اندر رہ کر کھیلنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے تو اس کا اطلاق بھی فریقین پر ہونا چاہیے۔ صرف ایک فریق کو اخلاقیات کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

آجکل جس طرح کا ماحول بن رہا ہے یہ بالکل ویسا ہی ماحول ہے جیسا آئین کے آرٹیکل 56 2Bکے بارے میں بن گیا تھا۔ پاکستان کے آئین کے تحت اس آرٹیکل کے تحت صدر پاکستان کے پاس پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار حاصل تھا۔ لیکن ملک کے صدور نے اس اختیار کو بار بار اس بے دردی سے استعمال کیا کہ اس اختیار کے خلاف ایک رائے عامہ بن گئی۔

مختلف صدور کی جانب سے بار بار پارلیمنٹ توڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ کو بھی اختیار کے خلاف فیصلے دینے پڑے۔ بعد میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہو گئیں کہ اس اختیار کی موجود گی میں پاکستان میں جمہوریت نہیں چل سکتی، اس طرح یہ اختیار ختم ہو گیا۔ حالانکہ دنیا کے کئی ممالک اور جمہوریت میں یہ اختیار موجود ہے۔ لیکن پاکستان میں اس اختیار کے استحصال نے اس کو ختم کر دیا۔

اسی طرح اس وقت ملک میں ایک ماحول بن رہا ہے۔ ایک رائے بن رہی ہے کہ ملک اور نیب اکٹھے نہیں چل سکتے۔ موجودہ حکومت جو نیب کی سب سے بڑی وکیل تھی ، وہ بھی نیب کے پر کاٹنے پر تیار ہو گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس ماحول میں مراد علی شاہ کی گرفتاری نظام احتساب کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں ہو سکتی۔ ان کی گرفتاری نظام احتساب کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کرے گی۔ اس سے پہلے کراچی کے مئیر وسیم اختر کو بھی گرفتار کیا گیا اور ایم کیو ایم نے ضد کی تھی کہ وسیم اختر جیل سے بھی مئیر ہوںگے۔ تب جیل میں مئیر کا دفتر بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ جیل میں مئیر رہے۔

آپ اندازہ کریں کہ اگر مراد علی شاہ کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ حراست میں وزارت اعلیٰ چلانے پر مصر رہے تو کیا ہوگا؟ نظام کے دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ اس سے ملک کی کیا خدمت ہو گی؟ ایک رائے یہ ہے کہ پی پی پی سے سندھ چھیننے کے لیے مرا د علی شاہ کی گرفتاری ناگزیر ہے، تب ہی وہاں تبدیلی ممکن ہو سکے گی۔

ایسے میں یہ خبریں بھی تو سامنے آ رہی ہیں کہ ابھی تک پی پی پی میں سرنگ لگانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ بہرحال ہم نے سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتما د میں جو تماشا دیکھا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن پھر بھی ابھی تک سندھ پی پی پی میں در اڑیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ آصف زرداری، فریال تالپو ر ٔگرفتار ہیں۔ آغا سراج درانی گرفتار ہیں۔

خورشید شاہ گرفتار ہیں۔ باقی سب کے سر پر گرفتاری کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ پنجاب میں تو دو بیوروکریٹس کی گرفتاری کے بعد ساری بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن سندھ میں تو ہر بیوروکریٹ نیب کے ریڈار پر ہے تب بھی وہاں کے بیوروکریٹ ابھی تک پی پی پی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ فاروڈ بلاک کیوں نہیں بن رہے۔ پنجاب میں بھی ن لیگ کے جن چند ارکان نے اپنی پارٹی پالیسی سے انحراف کر تے ہوئے چند ماہ قبل عمران خان سے ملاقات کی تھی، وہ بھی واپس ن لیگ میں جا چکے ہیں۔ متعدد گرفتاریوں کے باوجود سیاسی لوگ ابھی تک ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پی پی پی کے لوگ بھی اتنی گرفتاریوں کے باوجود پی پی پی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یہ پاکستان میں ایک نیا سیاسی کلچر ہے۔ جس کی پہلے مثال نہیں ملتی ہے۔ کیا توڑنے والوں کا زور کم ہو گیا یا لوگ اس زور کے عادی ہو گئے ہیں۔ بہر حال مراد علی شاہ کی گرفتاری نہ تو نظام احتساب کے لیے کوئی خوش آیند ہو گی اور نہ ہی اس سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہو گا۔

میں مراد علی شاہ کو کلین چٹ دینے کی بات نہیں کر رہا۔ لیکن میری رائے میں ان کی گرفتاری کے بغیر بھی ان کا احتساب ممکن ہے۔ ویسے بھی نیب کو اب گرفتاری کے بغیر احتساب کو آگے بڑھانے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اتنی گرفتاریوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

بشکریہ: ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).