اسلاموفوبیا اور عمران خان


اس بات میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے شدت پسندانہ رویے سلمان رشدی کی کتاب کے وقت پہلی بار سامنے آئے۔ پھر انوسینس آف مسلمز اور کارٹونوں پر بھی ایسا کچھ ہی ہوا۔ لیکن ایسا کچھ ہونا تو کب کا بند ہو چکا ہے۔ اب نہ کوئی رشدی شیطانی آیات لکھتا ہے اور نہ کوئی ڈینش کارٹونسٹ رسول اللہ کے کارٹون بنانے کی جسارت کرتا ہے۔ مسلمان اپنا بلاسفیمی لا کافی حد تک مغرب پر لاگو کروا چکے ہیں۔

اور آپ کا یہ کہنا بھی جزوری طور پر سچ ہے کہ اسلامو فوبیا گیارہ ستمبر کے بعد پیدا ہوا۔ لیکن مقامی آبادی میں مسلمانوں کے خلاف لاوا تو کافی عرصہ سے پک رہا تھا۔ جو اب باہر آنا شروع ہو گیا ہے اوراب مسلمانوں کے خلاف نفرت کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

آپ اتنا تو جانتے ہوں گے کہ مغرب میں صرف مسلمان آبادکار ہی موجود نہیں ہیں؟ وہ رنگ برنگی مخلوق خدا اور عقاید کے ماننے والے لوگ موجود ہیں۔ وہاں مقامی اکثریتی عیسائی آبادی کے علاوہ یہودی، ہندو، سکھ، بدھ، زرتشتی اور مسلمان آباد ہیں۔ لیکن مقامی آبادی کو گلہ صرف مسلمانوں سے ہے۔ اور اسی وجہ سے وہاں ہندو فوبیا، سکھ فوبیا یا بدھ فوبیا جیسے اصطلاحات وضع نہیں ہوئیں۔

کیا اتفاق ہے کہ داعش، القاعدہ، بوکو حرام، الشباب جیسی کتنی تنظیمیں ہیں جو اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے دہشت گردانہ کارروائیوں کی مرتکب ہوتی ہیں۔ برطانیہ، بلجیئم، نیدرلینڈز، فرانس، سپین جیسے ممالک میں دہشت گردی کے جو بھی واقعات ہوئے ہیں، اُن میں ہمارے لوگ ہی ملوث نکلے، اور دہشت گردی کی کارروائی کرتے وقت اکثر نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ مغرب میں شریعت کے نفاذ کے لیے جو تحریکیں سرگرم ہیں، ہم نے کبھی اُن کی مذمت نہیں کی۔

ہم شریعہ زون قائم کرنے کی خواہش یا کوششوں پر خاموش رہتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم برطانیہ جیسے ممالک میں شرعی عدالتیں ہونے کے خلاف نہیں بولتے کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ اے مغرب میں بسنے والو مسلمانو، انہیں ختم کر کے مقامی قوانین کو عزت دو۔ اور مختلف مغربی ممالک میں یہ جو نو گو ایریا بنے ہیں، انہیں کس نے بنایا ہے۔

مغربی ممالک کے لوگ اندھے نہیں ہیں۔ انہیں سب کچھ نظر آ رہا ہے کہ بھوکے ننگے ملکوں سے آئے یہ پناہ گزین اُن کے معاشروں کو کس طرح تبدیل یا تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ زور دے کر مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کے خلاف قوانین بنائے تو پہلے تو شاید ایسا ممکن نہ ہو کیونکہ کسی بھی ملک کی سیاسی جماعت اپنے باشندوں کی خواہشات کے خلاف نہیں جا سکتی اور اگر ایسا کچھ ہو بھی جائے تو ان کی خلاف ورزی کے بہت سے راستے موجود ہیں۔

آپ نے ترکی کے صدر رجب ایردوان کا فقرہ دہراتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک ہے، اور یہ انتہا پسند اور معتدل اسلام کی اصطلاحات گمراہ کن ہیں۔ کاش آپ جان سکتے کہ ہمارے ملک کی کئی مساجد کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ یہ مسجد فلاں مسلک والوں کی ہے، ان کے علاوہ دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا داخلہ منع ہے۔ کیا آپ کچھ ایسا کر سکتے ہیں کہ ایسے نوٹسز ختم ہو جائیں، ایک سنی مسلک کی مسجد کا امام شیعہ ہو جائے، اور شیعہ مسلک کی کسی بھی مسجد میں سنی امام بننے کا اہل قرار پائے۔ کیا امام کعبہ کی مسند کسی شیعہ کو مل سکتی ہے یا یہ صرف وہابیوں کے لیے مخصوص ہے؟

اکثر دکانوں کے باہر نوٹس چسپاں ہوتا کہ یہاں شیعوں یا احمدیوں کا داخلہ منع ہے، پہلے اسلام قبول کریں اور پھر دکان میں داخل ہوں۔ اس طرح کے نوٹس بھی دیکھے ہیں کہ اس عمارت میں کسی بھی غیر مسلم کو مکان بیچنے یا کرایہ پر دینے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ہمارا ملک ہی ہے جہاں ہر چند روز بعد سندھ سے خبر آ جاتی ہے کہ ایک خوبصورت ہندو لڑکی اغوا ہو گئی، اُس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے اغوا کنندہ سے شای کر لی ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ مغرب کو اسلامو فوبیا کے خاتمے کا درس دینے کی بجائے آپ اپنے ملک میں ان برائیوں کو دور کریں۔

ہم تو پھر غیر ہیں جنہیں مغربی ممالک نے گلے لگایا ہے لیکن یہ ہندو، یہ عیسائی، یہ احمدی وغیرہ تو اسی دھرتی کے بیٹے ہیں جن کے اسلاف صدیوں سے اسی دھرتی پر رہتے آ رہے ہیں۔ کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ پاسپورٹ پر مذہب کا اندراج نہ ہو۔ اب تو سنا ہے کہ سی ایس ایس کے امتحان کے لیے بھی لوگوں کو احمدی نہ ہونے کا اقرار نامہ دینا ہوتا ہے ( یہ ایک دوست سے سنا ہے، لہذا یقین سے نہیں کہہ سکتا) ۔

سنا ہے آپ ترکی اورملائشیا کے تعاون سے ایک چینل شروع کرنے جا رہے ہیں جومغرب کو اسلام کی سچی تصویر دکھائے گا۔ آپ سے اپنے ملک کی حالت چھپی ہوئی نہیں ہے اور یقین مانیں کہ ترکی کا حال بھی اتنا برا ہو چکا ہے کہ اگلے الیکشن کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اس کا ایردوان کی بجائے استنبول کا میئر امام اوعلو جیتے گا۔ باقی رہ گیا ملائشیا جو معاشی طور پر ایک درمیانے درجے کا ملک ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اپ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے سربراہان سے درخواست کرتے کہ وہ اس چینل کو فنڈ کریں۔ آپ نے اُ ن کے ڈرائیور کی خدمات انجام دی ہیں، آپ کا اُن پر کچھ تو حق بنتا ہے۔

میں تقریباً نصف صدی سے ناروے میں مقیم ہوں، اس اسلامو فوب ملک کی حالت آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ یہاں جو بھی تین سال رہ لے، وہ بلدیاتی انتخاب میں نہ صرف ووٹ ڈال سکتا ہے، بلکہ بطور امیدوار بھی کسی جماعت کی طرف سے کھڑا ہو سکتا ہے، اور اگر سات سال بعد وہ نارویجن شہریت لے چکا ہو تو وہ پارلیمنٹ کے انتخاب میں بطور ووٹر اور بطور امیدوار حصہ لے سکتا ہے۔ یہاں کئی پاکستانی نژاد مسلمان پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3