اسلاموفوبیا اور عمران خان


پچھلی اور اس حکومت کے دوران نارویجن پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر پاکستان نژاد مسلمان ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت لیبر پارٹی کی وائس چیئر مین ایک پاکستان نژاد خاتون ہادیہ تاجک ہیں۔ جنہیں لیبر پارٹی کی شہزادی بھی کہا جاتا ہے، اور شاید مستقبل میں وہ ایک عیسائی ملک کی پہلی وزیر اعظم بھی بن سکتی ہیں۔ بشرطیکہ وہ اُس وقت چیئر مین بن چکی ہوں اور ان کی جماعت انتخاب جیت جائے۔ برطانیہ کے متعلق آپ بہتر جانتے ہیں۔ لارڈ نذیر یا سعیدہ وارثی سے تو آپ بخوبی واقف ہوں گے، جو گوجر خان سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور کی بیٹی ہے اور وزیر رہنے کے علاوہ کنزرویٹو پارٹی کی وائس چیئر مین بھی رہ چکی ہے۔ باقی معلومات آپ اپنی جماعت کے چوہدری سرور سے لے سکتے ہیں جو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔

اور ایک بات کرنا ضروری سمجھوں گا کہ گو مقامی معاشرے نے ہمیں اپنے ہاں پناہ دی، اپنی سیاسی جماعتوں کا حصہ بنایا، لیکن ہم نے سب سے پہلے مسلمان اور پھر باقی باتوں کو اہمیت دی۔ ہمارے اکثر مسلمان سیاست دانوں کی سیاست وہاں بھی مقامی معاشرے پر اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا الزام لگانے تک محدود ہے، جس کے نتیجے وہ اپنی جماعت کے لیے کئی بار شرمندگی کا باؑعث بنتے ہیں۔ بہت سال پہلے لیبر پارٹی کی حکومت تھی اور اس جماعت کے ایک بلدیاتی کونسلر نے اخبار میں بیان دیا تھا کہ اگر سلمان رشدی مجھے مل جائے تو میں اسے اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا اور اس بیان سے لیبر پاڑی میں کھلبلی مچ گئی۔ ہمارے یہ مسلمان سیاستدان اب اُن عورتوں کو واپس مغربی ممالک میں لانا چاہ رہے ہیں، جو مغرب میں پیدا ہوئیؐ وہیں پلی بڑھیں، لیکن انہوں نے اپنے لیے دعش کی خلافت کو بہتر جانا اور وہاں منتقل ہو گئیں اور اب کیمپوں میں بیٹھی ان کوششوں میں مصروف ہیں کہ انہیں دوبارہ ”دارالحرب“ میں جانے کا موقع مل سکے۔

آپ نے حرمت رسول کے حوالے سے بہت زور دے کر بات کی ہے کہ ہم آپ جیسے نہیں ہیں اور نہ ہی ہماری سوچیں اور رویئے آپ جیسے ہیں، جو کہ حقیقت ہے۔ لیکن آپ کیوں سوچ رہے ہیں کہ لوگ اپنی سوچیں اور رویئے آپ کی خاطر تبدیل کر لیں۔ ان ممالک کے نزدیک کوئی بھی نظریہ خواہ وہ مذہبی ہو، سیاسی ہو یا معاشرتی ہو وہ تنقید سے بالا نہیں ہے اور نہ ان نظریات کو پیش کرنے والے تنقید سے بالا ہیں۔ فرض کریں کہ کوئی حکومت اپنے شہریوں کے کسی موضوع پر اظہار پر قدغن لگائے گی تو ایک تو اس کی بہت مخالفت ہو گی، اور اگر پھر بھی کوئی ایسا قانون بنا تو سوشل میڈیا کے طوفان کو کون قابو کر سکتا ہے۔

اس مسئلے سے نپٹنے کا ایک ہی حل ہے جو انتہائی کارگر ثابت ہو سکتا ہے کہ ایسے ملعونوں کو نظر انداز کیا جائے۔ جب ان کی حرکات کو نظر انداز کیا جائے گا تو یہ آہستہ آہستہ ان حرکات کو ختم کر دیں گے۔ کیونکہ اگر آپ کے مخالف کو علم ہے کہ آپ کس بات پر چڑتے ہیں تو وہ اسے بار بار دوہرا کر مزہ لے گا، لیکن جب ہم چڑنا بند کر دیں گے تو وہ بھی اپنی دلچسپی کھو دے گا۔ جیسے کہ میں ”فارغ البال“، اگر میرا کوئی مخالف مجھے گنجا کہہ کر چڑائے اور میں اس کے نتیجے میں چڑوں تو اُس کے ہاتھ بہت اچھی تفریح لگ جائے گی، لیکن اگر میں اسے نظر انداز کر دوں تو وہ اپنی دلچسپی کھو کر اسے ختم کر دے گا۔ ہمارے دیہات کی ایک کہاوت ہے کہ کتے بھونکتے رہ جاتے ہیں اور راہگیر گزر جاتے ہیں۔ ہمیں یہی رویہ اختیار کرنا ہو گا، وگرنہ ہمارے پاس یہی ایک صورت بچی ہے کہ ہم اپنی دکانیں، اے ٹی ایم مشینیں، بنک وغیرہ جلا کر یا لوٹ کر حرمت رسول کا دفاع کرتے رہیں لیکن دنیا کو اس کی پرواہ نہیں ہو گی۔

آپ مغربی معاشرے کو بہت اچھی طرح جاننے کے دعوے دار ہیں، اور اس معاشرے سے آپ کی مراد یقیناً برطانیہ ہے۔ لہذا جس معاشرے کو آپ جانتے ہیں یا وہ معاشرہ آپ کو جانتا ہے انہی کی زبان کا ایک بہت مشہور مقولہ پیس کیے دیتا ہے۔

actions speak louder than words۔

لوگ تقریروں یا باتوں کی بجائے آپ کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ اور یورپ میں مسلمانوں نے جس طرح اودھم مچایا ہے، اُس سے یا تو آپ بے خبر ہے یا جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ لیکن ان معاشروں کے مقامی نہ اس سے لاعلم ہیں اور نہ ہی اسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ لہذا یہاں نہ آپ کچھ کر سکتے ہیں، نہ اوریا مقبول جان اور نہ مجاہد غزوہ ہند زاہد حامد۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان ”بندے دا پتر“ بننے کی کوشش کریں، اور اپنے اختیار کردہ معاشروں، ان کی قداراور ان ممالک سے نفرت کی بجائے انہیں اپنائیں، وگرنہ مستقبل کچھ اچھی خبر لانے والا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3