اسلاموفوبیا اور عمران خان


خان صاحب، آپ نے جنرل اسمبلی میں بہت اچھی اورمتاثر کُن تقریر کی۔ گو اس تقریر میں کچھ بھی نیا نہیں تھا، یہ وہی سب باتیں ہیں جو آپ اردو میں اکثر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انگریزی زبان میں، اور پرچیوں کے بنڈل کے بغیر ایسی فی البدیہ اورجوشیلی تقریر کرنا واقعی آپ کا ہی کام ہے۔ شاید 1960 ء کی بات ہے کہ اسی جنرل اسمبلی میں کیوبا کے مرحوم صدر فیڈل کاسترو نے ساڑھے چار گھنٹے سے زیادہ طویل ایک تقریر کی تھی اور اُس میں انہوں نے سرمایہ داری نظام کے پرخچے اڑا دیے تھے، لیکن سرمایہ داری نظام وہیں کا وہیں موجود ہے، البتہ فیڈل کاسترو نہیں رہے۔

فیڈل کے علاوہ وینزویلا کے مرحوم صدر ہیوگو شاویز بھی جنرل اسمبلی کی اپنی تقریر میں امریکہ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا چکے ہیں، لیبیا کے مرحوم صدر معمر قذافی اور الفتح کے مرحوم چیئرمین بھی اپنے جوہر خطابت دکھا چکے ہیں۔ لیکن دنیا کا نظام ویسے کا ویسا ہی رہا ہے لیکن یہ عظیم ہستیاں باقی نہیں رہیں۔ انہی کی مانند آپ کی تقریر چند دن کی واہ واہ کے بعد تاریخ کے صفحات میں کھو جائے گی۔

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولی بول کر سب اڑ جائیں گی

سوال یہ نہیں ہے کہ کیا اس تقریر سے مسئلہ کشمیر حال ہو جائے گا، بلکہ یہ ہے کہ آپ کی تقریر سے کیا وہ سب یا کچھ مسائل حل ہو جائیں گے جن کے حل کے لیے لوگوں نے آپ کو چنا گیا تھا؟ اور اگر ان مسائل کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو کیا آپ کی اس جذباتی تقریر کے نتیجے میں اقوام متحدہ ایسے اقدامات اٹھائے گی جس سے کشمیر ہمیں مل جائے؟ کیا دنیا کو ایک اعشاریہ دو ارب کی منڈی کا طعنہ دے کر آپ اخلاقیات سکھا پائیں گے؟

وہ بھی تو آپ کو جواب میں کہہ سکتے ہی کہ جو ملک مشرقی ترکستان میں ایعور مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے، شعائر اسلام کی ادائیگی سے روک رہا ہے۔ لوگوں کو کیمپوں میں بند کر رہا ہے، اُس ملک کے مسلمانوں کی حمایت میں ایک بھی لفظ کہنے کی بجائے ہم کیوں اس سے ہمالیہ سے اونچی، شہد سے میٹھی اور سممندر سے گہری دوستی قائم رکھے ہوئے ہیں؟ کیا وجہ ہے ہمارا سارا درد کشمیری مسلمانوں تک محدود ہے اور ہمارے اخلاقی پیمانے ایعور مسلمانوں کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں؟

آپ ایک سابقہ کرکٹر ہیں، اور اپنے ماضی کو بھول کر حال میں جینا نہیں چاہتے۔ آپ کی پوری سوچ کرکٹ کے میدان میں گھومتی ہے، آپ اصطلاحات بھی کرکٹ کی استعمال کرتے ہیں۔ اور ملک کو بھی ایک کرکٹ میچ کی طرح سمجھتے ہیں۔ موسمی پرندوں کی آپ کی جماعت میں آمد کو آپ وکٹ اڑانا کہتے ہیں۔ لیکن اتنی وکٹیں آڑ کر آپ کے دامن میں آ چکی ہیں، لیکن وہ پاکستانِ موعود دور دور تک دکھائی نہیں دیتا جس کے چاہ میں عشاق کے قافلے نکلے تھے۔ ہم کتنا عرصہ اس بات سے دل بہلائیں کہ

لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔

آپ اکثر اس بات کا حوالہ دیتے ہیں کہ آپ نے مغرب میں بہت زیادہ وقت گزارا ہے اور آپ مغربی معاشرے کی ساخت، سوچ، رویوں اور اقدار سے جیسے واقف ہیں، ویسا کوئی اور نہیں ہے۔ آپ مغرب کو جانتے ہیں اور مغرب آپ کو جانتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گو کرکٹ پاکستان میں عبادت کا درجہ رکھتا ہے لیکن باقی دنیا کے بہت سے ممالک اس سے نا آشنا ہیں۔ پورے یورپ میں سوائے برطانیہ کے کہیں کرکٹ کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اتنے بڑے برّ اعظم ایشیا میں پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے کوئی کرکٹ نہیں کھیلتا، گو اب پاکستان میں عشرے موجود رہنے کی وجہ سے پناہ گزینوں کے بچے بھی کرکٹ سیکھ کر اس کی بنیاد افغانستان میں رکھ چکے ہیں۔

اوشنیا کے دو ممالک نیوزی لینڈ اور اسٹریلیا، اور افریقہ میں سوائے جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے کرکٹ کی اہمیت نہیں ہے بلکہ کرکٹ کی بجائے فٹ بال اں کے ہاں مقبول کھیل ہے۔ برآعظم شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں ویسٹ انڈیز ایسا ملک ہے جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے، گو ویسٹ انڈیز کو نقشے پر ڈھونڈنے کے لیے جغرافیے کا علم بہت ضروری ہے۔

کرکٹ کے حوالے سے آپ کے ماضی کو انہی صرف ممالک کے لوگ جانتے ہیں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ مغرب میں آپ کا کا تمام وقت برطانیہ میں گزرا، آپ کا مغربی معاشرے کا علم صرف اپنی گرل فرینڈز اور کاؤنٹی کے کھلاڑیوں کے ساتھ تبادلہ خیالات تک محدود ہے اور انہی سے آپ نے مغربی معاشروں کی ساخت اور انداز فکر و کار کے متعلق علم اور تمام راز حاصل کیے ہیں۔ لیکن اس بات کا کیا کریں کہ مغربی معاشرے کاؤنٹی سے بہت بڑے ہیں۔

جب شوکت خانم ہسپتال زیر تعمیر تھا تو آپ عطیات اکٹھے کرنے کے لیے دو بار ناروے کے دارالحکومت اوسلو آئے۔ آیک بار آپ لوک گائیکہ ریشماں کو ساتھ لے کر آئے اور دوسری بار نصرت فتح علی خان آپ کے ساتھ تھے۔ جب آپ نصرت فتح علی خان کے ساتھ ناروے آئے تو اوسلو اور ناروے کی سب سے مقبول اخبار وے گے کے درمیانی دو صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون چھپا تھا۔ وہ مضمون آپ کے متعلق نہیں تھا بلکہ نصرت فتح علی خان کے متعلق تھا۔ جس میں لکھا ہوا تھا کہ نصرت فتح علی خان پاکستان میں ایک کینسر ہسپتال بنانے جا رہے ہیں، جس میں ان کا ساتھ پاکستان کے ایک سپورٹس سٹاردے رہے ہیں۔ جی ہاں، یہ ٹائپنگ کی غلطی نہیں ہے، اخبار میں یہی لکھا تھا۔ انہیں آپ کا نام تک کا پتہ نہیں تھا۔ آپ مغربی معاشرے کو جاننے کا دعویٰ شوق سے کریں لیکن مغربی معاشرہ آپ کو نہیں جانتا تھا۔

آپ نے ریاست مدینہ کا بہت ذکر کیا، یہ ایک حساس موضوع ہے، لہذا اُس پر بات نہیں کروں گا۔ لیکن اسی مدینہ کی ریاست کا دوسرا رخ آپ نے مغربی ممالک میں اسلامو فیا کی لعنت ٹھہرائی ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ مغرب میں اسلامو فوبیا کی لعنت ختم ہو جائے جو ایک نہایت نیک خواہش ہے کہ مجھ جیسے لوگوں کی اگلی نسل کی زندگی بہترگزرے گی۔ لیکن کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ کسی بھی برائی کو ختم کرنے کے لیے اُس کی وجوہات جاننا اور انہیں ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اور جب تک وہ وجوہات ختم نہ ہوں، برائی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ جیے ڈینگی کے خاتمے کے لیے ایک ایک مچھر کو مارنے کی بجائے اُس تالاب کو خشک کرنا ضروری ہوتا ہے جہاں ڈینگی مچھر پیدا ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3