پیرپَٹھوؒ


برِصغیر ہندوپاک، بزرگانِ دین کی آماجگاہ رہا ہے۔ یہاں اسلام ہی نہیں، بلکہ دیگر کئی مذاہب کے بزرگان، صدیوں سے نیکی کے پیغام کو عام کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرتے رہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے پاس اپنے خطے میں جنم لینے والے یا باہر سے آکر یہاں وفات پانے اور مُستقل طور پر آرامی ہونے والے بُزگان کی تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات کی حد تک بھی (کم از کم) تاریخی ٹائم لائن تک موجُود نہیں ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان اولیاء میں سے ہمیں کئیّوں کے تو نام تک معلوم نہیں ہیں اور ہمیں سینکڑوں کی معلومات فقط نام کی حد تک ہی ہے۔

آج میں اپنی اس مُختصر نوشت میں سندھ کے ضلع ٹھٹہ میں آرامی، ایک معروف بُزرگِ دِین، پیرپَٹھوؒ‘ کا ذکر کرنے والا ہُوں، جن کا مزار، عظیم تاریخی شہرِ خموشاں ’مکلی‘ کے جنُوبی چھیڑے پر، ٹھٹہ شہر سے 12 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی پہاڑی پر واقع ہے۔ بہت سے لوگ، خاص طور پر نئی نسل، موجُودہ مکلی قبرستان کی حدود کو ہی کُل قبرستان سمجھتے ہیں جبکہ نیشنل ہائی وے کی دونوں جانب کئی مِیلوں پر پھیلا ہوا، صدیوں پُرانا یہ قبرستان اپنی بیشتر قبروں کے نشانات کھو بیٹھا ہے۔

بذاتِ خود قومی شاہراہ، مکلی قبرستان کے بیچ سے بنائی گئی ہے اور مکلی کی پہاڑی پر بنی ہوئی بیشتر تعمیرات، جن میں سرکاری دفاتر اور گھر شامل ہیں، اس قبرستان کی قبروں کے اوپر بنے ہوئے ہیں۔ 1940 ء کی دہائی کے دوران ٹھٹہ میں آنے والے زبردست سیلاب کے بعد مکلی پر کس قدر تیزی سے دفاتراور آبادی مُنتقل ہوئی، اس تاریخی المیے پر اس جیسی الگ سے کئی نگارشات تحریر ہوسکتی ہیں، مگر آج کا موضوع پِیر پَٹھوؒ ہے۔

’پِیرپَٹھوؒ‘ نامی بُزرگ، جن کا تاریخ نے (غالباً دیبل بندر کی نسبت سے ) ’پِیر پَٹھو دیولی‘ یا ’پِیر پَٹھو دیبلی‘ کے ناموں سے بھی ذکر کیا ہے، کا اصل نام، ”حسن بن راجپار بن لاکھو بن سخیرہ“ تھا۔ ان کو ’پیر آری‘ بھی پُکارا گیا۔ ان کا ’اُپلان‘ نامی قبیلے سے تعلق تھا اور ان کی کُنیّت ”ابو الخیر“ تھی، جبکہ لقب ”شاہ عالم“ تھا۔ ’تحفۃ الطاہرین‘ کے مطابق اُن کی ولادت 560 ہجری بمطابق 1164 ء میں ہوئی۔ پِیر پَٹھو کی والدہ ’سُلطانی بنتِ مُراد‘ ، حضرت شیخ بہاؤالدین مُلتانیؒ کی مُرید تھیں۔

پِیر پَٹھوؒ کے حوالے سے ’حدیقۃ الاولیاء‘ اور ’تحفۃ الکرام‘ جیسی اہم کتب میں خاصہ ذکر ملتا ہے۔ آپ اپنے دور کے عظیم اہل اللہ بُزرگ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس وقت جہاں اُن کا مقبرہ ہے، وہاں پر وہ ایک غار میں اللہ کی عبادت میں مشغُول رہتے تھے۔ وہ خِلوت پسند تھے اور لوگوں سے دُور رہتے تھے، روایت ہے کہ ایک روز حضرت شیخ بہاؤالدین مُلتانیؒ اور حضرت لال شہباز قلندرؒ نے اپنے سیروسفر کے دوران، اُس پہاڑی کے نزدیک تھوڑی دیر بیٹھ کر آرام کیا، جس کی غار میں پِیرپَٹھوؒ محوِعبادت تھے، جہاں پِیر پَٹھوؒ نے شیخ بہاؤالدینؒ سے ذکر کی تلقین لی اور حضرت لال شہباز قلندرؒکے بھی معتقد بنے۔

تاریخ کے مُطابق پِیر پَٹھوؒ، سوُمرو دورِ حکومت کے بزرگ ہیں۔ جب چنیسر، اپنے بھائی دودو سُومرو کے خلاف شکایت لگانے علاؤالدین خلجی کے پاس گیا، تواس موقع پر دودو نے پِیر پَٹھوؒسے مُلاقات کی۔ یہ 644 ہجری بمطابق 1246 ء کی بات بتائی جاتی ہے۔ پیرپَٹھوؒ کی وفات، 646 ہجری، بمطابق 1248 ء میں ہوئی۔ سماں خاندان کا قبرستان پہلے پِیر پَٹھو کے مزارکے احاطے میں تھا، جو بعد میں ساموئی منتقل ہوا (بعد میں وفات پانے والے سَما حکمران ساموئی میں سپردِ خاک کیے گئے۔)

تاریخ میں تذکرہ آتا ہے کہ 777 ہجری یعنی 1375 ء میں ٹھٹہ اور اس کے آس پاس تقریباً 400 بُزرگانِ دین کی درگاہیں تھیں، جن میں پِیر پَٹھو سرِفہرست تھے۔ اس درگاہ پر ہر سال ربیع الاوّل کی 12 تاریخ کو سالانہ میلہ لگتا ہے، جس میں اُن کے معتقدین دُور دُور سے حاضری کے لیے آتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی بڑی تعداد میں پِیر پَٹھو کے معتقدین ہیں۔ اُن کی نظر میں پِیر پَٹھوؒ، ’راجا گوپی چند‘ ہیں، جن کی وہ پُوجا کرتے ہیں۔

پِیر پَٹھو کا مزار سندھ میں سُومرا دورِ حکومت کی اسلامی تعمیرات کا ایک خوبصُورت نمونہ ہے۔ یہ مقبرہ آٹھ کونوں کی خوبصُورت تعمیر پر مُشتمل ہے۔ اس مزار کی تعمیر دراصل ایک پتھر کی چھتری پر مُشتمل ہے، جو پتھر کے ستونوں کے سہارے کھڑی ہے۔ ان ستُونوں پر گُلکاری اورانسانی ہاتھ کی ڈزائننگ کا عُمدہ کام قابلِ دید ہے۔ پِیر پَٹھو کے مزار والی پہاڑی پر پکی اینٹوں سے ایک مینار بھی بنا ہوا ہے، جس کی لمبائی اندازاً 100 فٹ ہے۔

اس مینار کے اندر کی جانب والی چھت، دُھواں آلُود دکھائی دیتی ہے، جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ مینار کسی دور میں ’لائٹ ہاؤس‘ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہوگا۔ یہ مینار اب بھی اچھی ساخت میں موجود ہے، جس کے حوالے سے ماہرینِ آثارِقدیمہ کا گمان ہے کہ یہ کلہوڑا دور سے قبل کی تعمیر ہے (یعنی اندازاً 300 سے 500 برس تک پُرانا گمان کیا جا سکتا ہے۔ ) پیر پٹھو کی پہاڑی کے نزدیک لوگوں نے اب اچھا خاصہ بڑا شہر تعمیر کر لیا ہے۔

اس مزار تک آنے کے لئے ایک راستہ اسٹیل مِل کامپلیکس سے ہوتا ہوا، ’غلام اللہ‘ نامی شہر سے گزرتا ہوا پِیر پَٹھوکی درگاہ تک پہنچتا ہے، جبکہ دُوسرا راستہ ٹھٹہ شہر کی قدیم ترین مسجد، ’دبگیرمسجد‘ کے پیچھے سے نکل کر ٹھٹہ سجاول روڈ کے عقب سے نکلتا ہوا یہاں تک پہنچتا ہے۔ اس مزار کے عین سامنے اونچائی کے مقام پر واقع ایک مسجد بھی اس مقام کا حصّہ ہے، جسے ’پِیر پَٹھو مسجد‘ یا ’محمّد بن قاسم کی مسجد‘ کہا جاتا ہے۔

اس مسجد میں کوئی بھی ایسی تحریر، عبارت، تختی یا کتبہ وغیرہ موجُود نہیں ہے، جس کو دیکھ کر اس کی قدامت کا اندازہ کیا جا سکے یا یہ بتایا جا سکے کہ اس مسجد کا قدیم ایّام میں نام کیا رہا تھا۔ دراصل تفصیل سے دیکھا جائے تو یہ ایک مسجد نہیں ہے، بلکہ یہاں ایک ہی احاطے کے اندر دو مساجد تعمیرشُدہ ہیں۔ اس احاطے کی پیمائش مشرق تا مغرب 180 فٹ، جبکہ جنُوب تا شمال 160 فٹ ہے۔ دونوں مساجد ایک دوسرے کے بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔

دُور سے یوں لگتا ہے، جیسے ایک ہی مسجد کے دو حصّے ہوں یا پھر ایک ہی دور کی دو مساجد ہوں، مگر بغور دیکھنے سے ان دونوں کی تعمیرات میں واضح فرق اور فاصلہ معلوم ہوتا ہے۔ دونوں مساجد کی طرزِ تعمیر خضریٰ مسجد سے مُشابہہ ہے۔ ان میں سے پُرانی مسجد شمال کی جانب ہے، جبکہ اُس سے ملحقہ دوسری مسجد جنوب میں واقع ہے۔ شمالی مسجد میں تین بیضوی دروازے ہیں۔ مرکزی دروازہ، باقی دو دروازوں سے بڑا ہے۔ اس مسجد کی راہداریاں جنوبی مسجد کے مُقابلے میں زیادہ تنگ ہیں۔ جنوبی مسجد میں تین گنبذ ہیں۔ اس مسجد میں نمازیوں کے لئے تعمیرشدہ ھُجرہ تین حصّوں میں بنا ہوا ہے۔ جس کا مرکزی حصّہ باقی دو حصّوں سے بڑا ہے۔

ضرُورت اس اَمر کی ہے کہ اس خطے کے بُزرگانِ دین اور اُن کی خانقاہوں کے حوالے سے ایک جامع ڈائریکٹری ترتیب دی جائے، جس میں اِن اولیاء کے ادوار کا تعیّن بھی کیا جائے اوراُن کے حوالے سے بنیادی معلومات محفُوظ کی جائیں۔ اِسی پراجیکٹ کے دُوسرے مرحلے کے تحت، ان مشاہیر کے علمی و دینی خدمات کو قلمبند کیا جائے اور ساتھ ساتھ ان کی درگاہوں اور خانقاہوں کی جائے وقوعہ اور اُن کی موجودہ صُورتحال کے حوالے سے بھی اِندراج ہونا چاہیے، تاکہ ہم اس خطّے کی تصوّف کی تاریخ مرتب کرنے کی ضمن میں پہلا قدم اُٹھا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).