بڑی سوچ کے قاتل لوگ


ایسی عظیم الشان دعوت تھی کہ تمام اُمراء، وزراء اور کماندار فتح کے اس جشن میں شریک تھے۔ ایسی ضیافت کہ تاحدِ نظر دسترخوان پر سر ہی سر نظر آتے۔ دعوت ظہیر الدین محمد بابر کے ہندوستان فتح کرنے کی خوشی میں تھی۔

کھانے کے دوران بابر کی نظر ایک شخص پر ٹھہر گئی۔ بابر نے اپنے وزیر سے اس کے بارے پوچھا۔ وہ شخص اتنا گمنام تھا کہ وزیر کو اس کا نام اپنے ایک حواری سے پوچھنا پڑا۔

”فرید خان نام ہے اس کا، 500 فوجیوں کا کماندار ہے۔ کوئی غیر معمولی شخص نہیں ہے۔“
”اس پر نظر رکھو، یہ معمولی شخص نہیں ہے۔“ بابر خبردار کر کے کھانے میں مشغول ہو گیا۔

بابر کے مرنے کے صرف آٹھ سال بعد فرید خان، ہمایوں کو شکست دے کر شیر شاہ سوری کے نام سے تختِ ہندوستان پر بیٹھا اور سات سال حکومت کی۔

جناح نے جب بمبئی میں وکالت شروع کی تو اُن کی عمر محض 20 سال تھی اور اگلے 24 سال کے اندر اندر وہ صف اول کے وکیلوں میں شمار ہونے لگے اور دیگر امراء کی طرح سیاست میں سرگرم رہے۔ تقریریں کی، قراردادیں پیش کیں اور ہندستان کی آزادی کے لیے سرگرم رہے۔ یاد رہے کانگریس اس وقت ہندوستانیوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی مسلم لیگ بس کچھ امراء کی وقت گزاری کا سامان۔

پھر جناح صاحب کی زندگی میں ایک موڑ آیا کہ جب انہوں نے اپنے وقت کے ایک انتہائی غیر مقبول نظریے کی حمایت کر دی اور اپنی باقی ماندہ زندگی اس کے حصول کے لیے وقف کر دی۔ یعنی کہ ایک روشن خیال، امیر اور سیکولر بندہ اس نظریہ کا حامی ہو گیا کہ ہندستان کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہو گی۔

اچھا، فرض کریں بنگال کا گورنر ہوتے ہوئے (یاد رہے اس زمانے میں بنگال ہندوستان کی امیر ترین ریاست تھی) جب شیر شاہ سوری نے اپنے رفقاء سے ہمایوں کے خلاف بغاوت کے بارے مشورہ لیا ہو گا تو کیا ایسے نہ ہوں گے جنہوں نے اُسے ان ارادوں سے باز رہنے کو کہا ہو گا؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد انگلستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہو چکی تھی۔ جب محمد علی نے اپنے قریبی لوگوں سے اپنے ارادوں پر مشورہ مانگا ہو گا تو کتنے ہی ہوں گے جو دل ہی دل میں ہنسے ہوں گے؟

دو دہائیاں پہلے جب عمران خان نے اپنے سیاسی کیریئر کی منصوبہ بندی کی ہو گی تو یقیناً اس کے دوستوں کا ایک حلقہ ہو گا جس نے اسے اس کام سے باز رکھنے کی سعی کی ہو گی۔ اس وقت کی سیاسی قوتوں سے ڈرایا ہو گا، نا تجربہ کاری کے بارے بتایا ہو گا اور پتہ نہیں کیا کیا۔ یقیناً آج جو سیاسی مقام اسے حاصل ہے کبھی نہ مل پاتا اگر اس نے ان اوسط ذہن لوگوں کی بات مانی ہوتی۔

انسان کی شخصیت، خود پر اعتماد، بڑے خواب اور مستقل مزاجی۔ ان میں سے کوئی ایک بھی خوبی ہو تو انسان کامیاب ہو جاتا ہے۔ جس کو یہ سب خوبیاں مل جائیں وہ بہت ہی خوش قسمت۔ زندگی میں کوئی کاروبار شروع کرنا ہو، پروفیشنل کریئر میں کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہو، سماج کی مرضی خلاف شادی کرنا ہو، حق پر قائم رہنے میں مشکل پیش آ رہی ہو، کوئی بڑا کام کرنا ہو اور دماغ کسی کشمکش کا شکار ہو۔

محلے کے کسی ایسے دکاندار کے پاس جائیں جس کی دکان کئی دہائیوں سے ایک ہی حالت میں ہے، کسی اوسط درجے کے صحافی، عرصے سے ایک ہی گریڈ میں رہنے والے کسی سرکاری ملازم، ایسے ریٹائر بزرگ جو دوران ملازمت قوت فیصلہ میں کمی کے باعث کچھ بڑا نہ کر پائے ہوں، کاروبار میں ناکام شخص جو زندگی سے اچھے کی امید چھوڑ چکا ہو۔ ہر معاشرے میں پائے جانے والے یہ اوسط ذہن اور سوچ کے لوگ ہوتے ہیں جو ہر نئی اور بڑی سوچ کے سب سے بڑے ناقد ہوتے ہیں ان سے مشورہ ضرور لیں جو مشورہ وہ دیں بس اس کا الٹ کر لیں کامیابی آپ کا مقدر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).