باقی سب کو دیکھ لیا مولانا کو بھی ایک چانس دے کر دیکھ لیتے ہیں


قوم موروثی سیاست، جمہوریت کے نام پر پارٹیوں میں مطلق العنانیت، کرپشن اور نا اہلی سے تنگ آ چکی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ تبدیلی کا غلغلہ ایسا بلند ہوا کہ سیاست کے میدان میں گدھے کا ہل چل گیا۔

پہلے پیپلز پارٹی کو دیکھ لیتے ہیں۔ دیکھیں یہ بات تو قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پیپلز پارٹی بہت ہی زیادہ کرپٹ ہے۔ ٹھیک ہے وہ قانون سازی اچھِی کر لیتی ہے، اقتدار کا لالچ نہیں کرتی، اس کا صدر اپنے اختیارات وزیراعظم کو سونپ دیتا ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن گزشتہ تیس برس سے اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے باخبر رکھا جانے والا ہر شخص جانتا ہے کہ آصف زرداری پہلے مسٹر ٹین پرسنٹ تھے، پھر مسٹر سینٹ پرسنٹ ہو گئے، اس سے بھی دل نہیں بھرا تو ایک ماڈل کے ذریعے چار پانچ لاکھ ڈالر کی منی لانڈرنگ کرنے لگے، انہوں نے خفیہ شادی کر رکھی ہے جس سے ان کا بچہ بھی ہے، اور اب وہ پکڑے گئے ہیں تو وزیراعظم عمران خان کی منت خوشامد کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے چھے ارب ڈالر اور عربوں سے تین تین ارب ڈالر ادھار مانگنے کی بجائے ان سے دس بارہ ارب ڈالر جرمانہ وصول کر کے ڈیل کر لیں مگر وزیراعظم این آر او کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اب ان الزامات کا ثبوت ملے نہ ملے مگر زبان خلق کو نقارہ خدا بنا کر بجا دیا گیا ہے تو ثبوت کا کیا کرنا ہے۔

آصف زرداری نے بھی کچھ اچھا نہیں کیا۔ اٹھارہویں ترمیم انہیں کا کارنامہ ہے۔ اپنی شہد جیسی زبان کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اس پر قومی اتفاق رائے پیدا کر لیا اور ہر ایک فریق کو لگا کہ اس ترمیم کا اسے بھی فائدہ ہو گا۔ نتیجہ یہ کہ اب اس کے ثمرات سامنے آئے ہیں تو موجودہ حکمران بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ صوبے پیسے لے جاتے ہیں اور مرکز کے پاس دفاع اور قرضے کی ادائیگی کے بعد ملک چلانے کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ سی پیک بھی آصف زرداری کا کارنامہ ہے اور ایران سے گیس پائپ لائن بھی ان کا منصوبہ ہے۔ بظاہر تو ان دو منصوبوں کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہوتی مگر ہم جانتے ہیں کہ ان کی وجہ سے مغرب ہم سے ناراض ہو جاتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہمیں قرضہ نہ دیتے۔ انہیں دوبارہ حکمران بنانا ٹھیک نہیں ہے، معیشت تو اچھی چلتی رہے گی مگر میڈیا ہمیں عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سناتا رہے گا جس سے ہمیں پیپلزپارٹی کی حکومت پر غصہ آتا رہے گا۔

دوسری آپشن نواز شریف ہیں۔ میڈیا کے توسط سے ہم جانتے ہی ہیں کہ وہ نہ صرف انڈیا سے دوستی کی بات کرتے ہیں بلکہ مودی کے یار بھی ہیں۔ ان کی شوگر مل میں ڈھائی سو بھارتی مزدور کام کر رہے تھے، سجن جندال ان کا دوست ہے، اور مودی کو انہوں نے بغیر ویزے کے پاکستان میں اترنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ نواز شریف نے کبھی بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان جیسی تقریر نہیں کی اور کلبھوشن جادھو کا نام تک نہیں لیا۔ نہ ہی اس جاسوس کو پھانسی دی۔

نواز شریف سرپھرے بھی بہت ہیں۔ جب جنرل مشرف کے کامیاب آپریشن کے نتیجے میں پاکستان کارگل کی جنگ جیتنے کے قریب تھا اور اسلحہ کیا کھانا نہ ہونے کے باوجود ہمارے فوجی کئی دنوں کی بھوک برداشت کرتے ہوئے فتح حاصل کر ہی چکے تھے عین اس وقت وہ امریکی صدر کلنٹن کی منتیں کر کے کارگل پر جنگ بندی کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ اہم عسکری تقاضوں کو سمجھتے بھی نہیں، پراکسی وارز کے خلاف ہیں، مسلح نجی ملیشیاز اور دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ افغانستان اور کشمیر کو پھر کون فتح کرے گا؟ اس سلسلے میں ہونے والی میٹنگز کی کارروائی بھی لیک کر دیتے ہیں۔

انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ سڑکیں بنانے سے قوم نہیں بنتی، ہسپتالوں میں مفت دوائیاں فراہم کرنے سے قوم صحت مند نہیں ہوتی، ڈینگی کو کنٹرول کرنے سے ان کا نام تو ڈینگی برادر پڑ سکتا ہے مگر وہ مچھر زندہ رہتا ہے۔ سرپھرے بھی ہیں اور ان کے دور میں ہر سپہ سالار سے ان کا اختلاف ہوا ہے۔ نواز شریف کی سوچ اس قدر مجرمانہ ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ تو اسلام آباد میں بیٹھے بیٹھے کراچی کی فضا میں موجود ہوائی جہاز بھی ہائی جیک کر لیا تھا۔ پھر ان کے پاس رسیدیں بھِی نہیں ہیں اور بہانے بناتے ہیں کہ تیس سال پہلے کا ریکارڈ ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ عذر بھِی پیش کرتے ہیں کہ وہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لیتے۔ خیر اب تو وہ کرپشن کے سزا یافتہ مجرم ہیں اور اتنے پکے ہیں کہ جیل سے باہر آنے کو بھی راضی نہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں چوتھا موقع نہیں دیا جا سکتا خواہ ان کو وزیراعظم بنانے سے معیشت سکڑنے کی بجائے پانچ سات فیصد کی رفتار سے ہی کیوں نہ بڑھتی رہے۔

عمران خان سے ہمیں بہت توقعات تھیں۔ وہ موروثی حکمرانی کے اس حد تک خلاف ہیں کہ ان کے بچے تک پاکستان میں نہیں رہتے۔ اور گمان غالب ہے کہ وہ بچے پاکستان کے شہری تک نہیں ہیں۔ یعنی عمران خان کی اگلی نسل پاکستان کی حکمران نہیں بنے گی۔ بہرحال ایسا نہیں ہے کہ تحریک انصاف کی اگلی نسل میں کوئی ٹیلنٹ نہیں ہے۔ ہمیں جہانگیر ترین کے فرزند علی ترین سے بہت امید ہے کہ وہ اچھے حکمران ثابت ہوں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar