کارگل سے یو این او: بیس سال اور میڈیا


تقریر ہوگئی، اچھا ہوا۔

داد و تحسین کے ڈونگرے برس لئے، مزید اچھا ہوا۔

بھارت کی مندوب کا جوابی بیان آیا، ہم نے کِھلی اڑائی، بھارتی میڈیا نے ہاہاکار مچائی، ہم نے اپنی بہادری، غیرت، اور بنیے کی بزدلی، اور کم ہمتی کی مالا جپی، کیا اچھا کیا؟ سوچتے ہیں۔

گو ہماری سرشت میں شامل نہیں، مگر ٹھنڈے دل سے صورتحال کا ماضی سے موازنہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں۔

پچھلے چند دن سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی بالعموم، سوشل میڈیا کی بالخصوص اور حکومتی حمایتیوں کی خصوص الخصوص شادمانی، شاد کامی اور شاد باغی دیکھ دیکھ کر نہ جانے کیوں بیس سال پہلے کے مناظر ذہن پر دستک دے رہے ہیں۔

1999 میں ہمارا ننھا منا سا الیکٹرانک میڈیا ہوا کرتا تھا، آئی ایس پی آر بھی ابھی صرف خبریں صحافتی حلقوں تک پہنچا کر اپنے فرائض سے مُکت ہو جایا کرتا تھا۔ ابھی ہمیں فورتھ، ففتھ اور سکستھ جنریشن کی وارفئیر کا ادراک بھی نہیں تھا اور فنِ نغمہ سازی ابھی دفاعی پیداواری صلاحیت کی فہرست میں شامل نہیں ہوا تھا۔ جنگوں وغیرہ کے دوران یہ ضرورت قومی ریڈیو اور ٹیلی وژن کو آؤٹ سورس کر کے پوری کر لی جاتی تھی۔

اس بے سروسامانی کی حالت میں ہمارے صحافتی منظر پر کرکٹ ورلڈ کپ اور کارگِل کی بلندیوں پر ”کشمیری مجاہدین“ کی سرگرمیاں ایک ہی جیسی اہمیت، جذبے اور جوش و جنون کے ساتھ دکھائے جا رہے تھے۔ میڈیا بیچارہ اور کرتا بھی کیا، کارگِل پر کشمیری مجاہدین تھے، یا محکمہ زراعت کی تیار کردہ پنیری، یا ہمارے اپنے جانباز سپاہی، اِس کا پردہ تو کرنل شیر خان اور لالک جان کے لہو سے چاک ہوا۔ تب تک دیر ہوچکی تھی، وقت پر پتہ ہوتا تو شاید علی عضمت کرکٹروں کی بجائے پوری قوم کو ہی کہہ دیتے کہ ”ہے جذبہ، جنون تو ہمت نہ ہار“۔

مگر برا ہو بھارتی میڈیا کا جس نے بھانڈا پھوڑ دیا اور چیخ چیخ کر دنیا کو بتانے لگا کہ بھارتی سینا کا بڑا نقصان ہو رہا ہے اور کارگِل میں گھمسان کا رن بپا ہے۔ اپنی بہادری اور دشمن کی کمزوری کے قصے خود اس کی اپنی زبانی سن کر ہماری چھاتی پھول کر ٹھوڑی سے آ لگی۔ ادھر ورلڈ کپ بھی ختم ہو گیا اور اچانک ہمارے میڈیا اور عوام کو ادراک ہوا کہ اصل ٹرافی تو کارگل میں پڑی ہے۔ چئیر لیڈرز کا رخ اس جانب ہوا۔ مجاھدین کی جے جے کار ہونے لگی۔

کیونکہ ہندو بنیا کہہ رہا تھا کہ وہ لٹ گیا مر گیا، اس لئے ہم نے فتح کے شادیانے بجانا شروع کر دیے۔ فتح چونکہ ناجائز اولاد ہوتی ہے جس کی ولدیت کا دعویدار ہر کوئی حصہ بقدر جثہ ہوتا ہے، اس لئے مجاہدین کا چورن ہَوا ہوا اور ہم نے میڈل سجانے کو اپنی چھاتی پیش کردی۔ میڈیا اور عوام نے چسکے لیتے ہوئے ہندو بنیے کی روایتی بزدلی، کمزوری اور کم ہمتی کے قصے سنانے شروع کیے۔

مگر پھر ہمیں اچانک پتہ چلا کہ وہ ایک ناہنجار بلا کہ نام جس کا عالمی رائے عامہ ہوتا ہے، اسے اس سے غرض نہیں کہ آپ کتنے جری جوان ہیں، اسے یہ بھی مضحکہ خیز نہیں لگتا کہ آپ سے سات گنا بڑی فوجی ظاقت آپ کے خوف سے گھگیا رہی ہے۔ اور وہ اتنی سادہ لوح نہیں کہ ناردرن لائیٹ انفنٹری اور کشمیری عوام میں فرق محض آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کے ذریعے اس سے چھپایا جا سکے۔

نہ میں سقہ بند صحافی ہوں کہ کسی چڑیا، کبوتر یا باز کی کہانی سنا سکوں، نہ کسی گدی پر براجمان کہ مستقبل کی پیشگوئیاں کر سکوں۔ میرا لکھا میرے حلقہ احباب نے ہی پڑھنا ہے جن کے سامنے میں ایسا کچھ نہیں لکھ سکتا کہ پرسوں جدہ سے عمران خان نے فون پر مجھ سے پوچھا کہ پریس کانفرنس میں بشریٰ بی بی کی دعاؤں کا ذکر کروں یا نہ کروں۔ مگر جب خود اختیار کردہ فتح کا خمار اترے گا، جب واہ واہ، بلے بلے، صدقے واری کی گرد چھٹے گی تو کون کون سے طوق ہمارے گلے کا ہار ہوں گے، کون کون سے تمغہ ہائے ندامت کا بار ہماری چھاتیوں پر ہوگا، فی الحال میں اس کا تذکرہ کرکے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتا۔

پاکستان کی خیر خواہی کے صدقے میری دعا اور شدید خواہش ہے کہ میرے خدشے بے جا ہوں۔ مگر نہ جانے یہ مٹی کی محبت تھی یا کیا تھا کہ آج کے آشفتہ سروں نے وہ گناہ بھی قبول لئے ہیں جن کا الزام بھی ہمارے سر نہ تھا۔

بیس سال پہلے ملبہ سمیٹنے کے لئے ایک لوہار زادہ موجود تھا۔ آج کیا ہو گا وقت بتائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).