پلاسٹک بیگز پر حکومتی پابندی اور حکومت کی ذمہ داری


وزیرِ مملکت برائے ماحولیات محترمہ زرتاج گل صاحبہ نے ابتدائی طور میں دارالحکومت اسلام آباد میں پلاسٹک بیگ جس کو ہم عام زبان میں شاپر کہتے ہیں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ اب کوئی بھی شخص یا دکان پلاسٹک کے بیگ میں سامان کی ترسیل نہیں کریں گے۔ کیونکہ پلاسٹک بیگ بیشمار اور نہایت خطرناک اثرات ماحول پر چھوڑتے ہیں۔ پلاسٹک بیگز کو کاغذ کی طرح ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ پلاسٹک بیگز بہت لمبے عرصہ تک ماحول میں ڈی کمپوز نہیں ہوتا۔ جس کے سبب پلاسٹک بیگز وسیع پیمانے پر انسانی ماحول اور جانوروں کے قتلِ عام کا سبب بن رہے ہیں۔

پلاسٹک بیگز کو اگر احتیاط سے ضائع نہ کیا جائے تو یہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانی جان کے لیے بھی خطرناک بن سکتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال ماحول میں پلاسٹک کی آلودگی کے سبب تقریباً دس ہزار سے زیادہ وہیل، کچھوے اور پرندے مر جاتے ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں لوگوں کو چیزوں کے ٹھیک استعمال کی تربیت نہیں دی جاتی تو وہ ان پلاسٹک بیگز کو بے احتیاطی اور لاپرواہی سے استعمال کرتے ہوئے نادانستہ طور پر ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

تبدیلی سرکار نے نہایت اہم اور آنے والی نسلوں کے لیے نہایت کارآمد کام صرف عجلت اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سپرد کرکے برباد کردیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کام پر مکمل توجہ دی جاتی تھوڑی تاخیر سے صیح لیکن اس پر نہایت موثر انداز عمل درآمد کروا لیا جاتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے اس پروجیکٹ پر باقاعدہ منصوبہ سازی کی جاتی۔ لوگوں کی اس حوالہ سے تربیت کا اہتمام کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ خاص طور پر دکانداروں کو اس حوالہ اور اس عظیم مقصد میں اپنے ساتھ ملایا جاتا۔

اگر دکانداروں کا ساتھ حاصل ہوتا تو نہایت آسانی سے اس پر پابندی لگائی جا سکتی تھی اور لوگوں کے ساتھ ساتھ دکاندار بھی اس کو آگے بڑھ کر قبول کرتے۔ حکومت کو چاہیے تھا اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مارکیٹ میں پلاسٹک بیگز کا کوئی متبادل دیا جاتا۔ شاید پھر نہ ہی ”سیور فوڈ“ جیسے بدنما حادثے پیش آتے۔ جہاں آخر پر کیا ہوا۔ گورنمنٹ نے اپنے اہلکاروں کی تذلیل کروائی۔ پھر ایک معافی نامہ پر سارا معاملہ رفع دفع بھی کردیا گیا۔ انہیں اپنی عزت کی پرواہ نہیں تو اپنے افسروں کی عزت کی پرواہ کہاں ہونی ہے۔

اب ایک طرف تو گھریلو صارفین کے لیے استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز پر پابندی لگادی گئی ہے۔ بڑی کمپنیوں کو اس پابندی سے بالکل کچھ فرق نہیں پڑا۔ نقصان ہوا ہے تو واحد عوام کا۔ کیونکہ عوام سامان کی ترسیل کے لیے جو پلاسٹک کے بیگ استعمال کرتے تھے۔ وہ اس حد تک زیرِ استعمال رہتے تھے کہ زیادہ تر عوام انہیں پھینکتے ہی تب تھے جب وہ ڈی کمپوز ہو چکے ہوتے یا پھر ہونے کے قریب تر ہوتے تھے۔ اس لیے یہ ماحول کے لیے نقصان دے تو تھے لیکن اس درجہ نہیں جتنا یہ پلاسٹک بوتل۔

ابھی جہاں حکومت شاپر بین کرنے پر نمبر ٹانگ رہی تھے اب اُسی حکومت نے پلاسٹک کی بوتلوں میں حکومت کی طرف سے منرل پانی بھی لانچ کردیا ہے۔ ہے نہ مضحکہ خیز حکومت کی مضحکہ خیز باتیں۔ کیونکہ آئل، سگریٹ ( پیکنگ) ، صَرف، لیز Lays، پاپڑ، بسکٹ، یہ سب چیزیں ابھی بھی پلاسٹک کی مختلف اور خطرناک شکلوں میں مارکیٹ بھی آ رہی ہیں۔ اور ماحول کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔

یہ سب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پراڈکٹ ہیں تو اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا نہ ہی انہیں بین کرنے پر کوئی حکومت اہلکار سنجیدہ ہو گا۔ نہ ہی ان کمپنیوں کو اپنی پراڈکٹ ماحول دوست بنانے کے پروانے بھیجے جائیں گے۔ ان اشیاء کے پلاسٹک بیگ اور پیکنگ کو عوام کسی استعمال میں بھی نہیں لاتے۔ بلکہ انہیں بڑی تنگ و دو سے ندی، نالوں کے سپرد کرکے ماحول کو آلودہ کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا جاتا ہے۔

سب سے بڑھ کر قدرتی مقامات کی تازگی اور خوبصورتی کو خراب کرنے میں گھریلو صارفین کے زیرِ استعمال پلاسٹک بیگز سے زیادہ ان بڑی بڑی کمپنیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پلاسٹک پیکنگ اور پلاسٹک بوتل ہیں۔ کسی بھی قدرتی مقام کو دیکھ لیجیے آپ کو بسکٹ، snacks اور خالی پلاسٹک کی بوتلیں ہی چار سو بکھریں نظر آئیں گی جو ماحول کے ساتھ ساتھ ان مقامات کی خوبصورتی اور وہاں کی نباتات کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔ حکومت کو چاہیے ماحول اور خصوصاً ان قدرتی مقامات کی خوبصورتی اور وہاں کی نباتات کی حیات کے لیے ان پلاسٹک کی اشیاء پر پابندی لگائے اور ان کمپنیوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں بھاری جرمانے عائد کرے۔ وزیروں کو یہ سب اقدامات سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر عملی دنیا میں آ کر کرنے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).