تحریک آزادی کشمیر۔ ایک پوسٹ مارٹم


تاریخ کا مضمون اگرچہ خشک خیال کیا جاتا ہے اور بہت سے نوجوان اسے پڑھنا اس لیے بھی فضول سمجھتے ہیں کہ گزرے ہوئے کل کے واقعات کا آج کے جدید زمانے سے کیا لینا دینا۔ آج کی جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت اس خیال کی بھی حامی ہے کہ اب زمانہ چونکہ گھوڑوں اور تلواروں سے بہت آگے نکل آیا ہے، دنیا مہذب دورمیں داخل ہو چکی ہے اس لیے اجڈ، دیہاتی زندگیوں اور جنگوں کا احوال ہمارے کس کام کا۔ جبکہ معاشی اور معاشرتی معاملات میں بھی ہمارے پاس زیادہ علم ہے اور ہم بہتر فیصلے کر سکتے ہیں اس لیے کسی دوسرے کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

سب باتیں سچی ہو سکتی ہیں لیکن تاریخ میں موجود سبق ایک ایسا انمول خزانہ ہیں جس کا متبادل نہ تو جد ید ٹیکنالوجی کے پاس ہے ناں ہی جدید ذہن اور علم اس کے مقابل کچھ پیش کر سکتے ہیں۔ کشمیر کے حالیہ کرفیو کے بعد جہاں کشمیریوں کی مظلومیت اور حق کے لیے بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں وہیں وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ میں دو ٹوک انداز میں یہ بتانا کہ کشمیر کے مسئلے پر کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اقوام عالم نے اگر اپنی بے حسی اور خاموشی نہ توڑی تو پوری دنیا کو کسی بحران کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ معاملے کی نزاکت کا احساس دلاتا ہے لیکن جب ہم اہل کشمیر کی اپنی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو عجب سی حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کے معاملے کو کس طور پر دیکھ رہے ہیں اور کن عناصر کو اپنی آزادی کے لیے اہمیت دیے ہوئے ہیں۔ آئیے ماضی قریب کے کچھ واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔

امریکہ اپنے پورے دبدبے اور بحری بیڑوں کے ساتھ علاقے میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے ویت نام کی سرزمین پر اترتا ہے تو ہر ویت نامی قابضین کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ فوج اور ہتھیاروں کے نہ ہونے کا بہانے نہیں بنایا جاتا بلکہ ہر ویت نامی اپنے ملک کے لیے خود ہتھیار بن جاتا ہے اور اپنی پوری قوت اور صلاحیت سے امریکہ کے خلاف جنگ کا ایندھن بنتا ہے اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ ایک ایسا سورج بھی طلوع ہوتا ہے جب ویت نام کی سرزمین پر امریکی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔

سویت یونین اپنی سرخ فوج کی تعداد اور ہتھیاروں پر نازاں پڑوسی ملک افغانستان میں لاؤ لشکر سمیت گھس جاتا ہے تو ہر افغانی اس گھس بیٹھے پڑوسی کے خلاف صف آرا ہو جاتا ہے۔ آپ بھلے اس صف بندی کو کئی طرح کے الزامات دیں لیکن یہ سچائی کسی طور جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ اولین صفوں میں افغانی ہی موجود تھے جنہوں نے نعرہ تکبیر کے ساتھ دشمن کے تکبر کو للکارنا شروع کیا اور دس سال کے بعد جب آخری فوجی نے افغانستان چھوڑا تو وہ واپس سویت یونین نہیں جا سکا بلکہ اب ایک چھوٹا ملک روس اس کی منزل تھا اور سویت یونین کہیں تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔

امریکہ بہادر نے بھی سویت یونین والی غلطی دہرانے کی کوشش کی اور افغانستان پر قابض ہونے کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ لشکر کشی کر دی۔ ابھی پچھلی جنگ کے زخم بھرے نہیں تھے کہ افغانیوں نے ایک بار پھر جان ہتھیلی پر رکھی اور سر پر کفن باندھ کر میدان میں پہنچ گئے۔ اس دفعہ بھی شکست قبضہ کرنے والوں کا مقدر بنی اور خصوصی طیارے تابوت ڈھونے کو کم پڑ گئے۔ آخر دنیا والوں کو بیچ میں ڈال کر اب امریکہ انہی افغانیوں سے مذاکرات کر رہا ہے اور اپنے لیے ایک محفوظ راستہ چاہتا ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ مہذب دنیا میں جنگ کو کس نظر سے دیکھا جاتاہے بلکہ سوال تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو مہذب کہنے والے ممالک کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی طرح دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ کے میدان میں نہ صرف کھڑی ہے بلکہ دوسری قوموں کو بھی جنگ میں دھکیل کر اپنے کارخانے چلانے کا بندوبست کرتی ہے تو ایسی دنیا میں پر امن جدوجہد کی کیا وقعت رہ جاتی ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ویت نام اور افغانستان کے لوگوں نے آزادی کے لیے جارح اور قابض لوگوں کے خلاف کتنی ہڑتالیں کیں۔

؟ کتنی قراردادیں اقوام متحدہ میں جمع کروائیں اور کتنے برس اقوام متحدہ کے انتظار میں بیٹھ کر گزارنے کو اپنی امن پسندی کے طور پر پیش کیا۔ ؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ویت نام اور افغانستان کے لوگوں نے کب اور کتنے برس دنیا کے ممالک کی طرف مدد کے لیے دیکھا اور دنیا سے توقع لگائے بیٹھے رہے۔ ؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ اقوام عالم میں امن پسندی کو آج کس طرح سے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور امن پسند تحریکیں دنیا میں کتنی موثرہیں۔

؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ آج کے اس جدید دور میں معاشرے جتنے بھی مہذب یافتہ ہونے کا ڈرامہ کریں لیکن ایک مکمل مسلح فوج اور نہتے لوگوں کے درمیان مذاکرات کی کوئی صورت نکل سکتی ہے تو کیسے۔ ؟ آج جب گلی کے ایک غنڈے کو بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ہاتھ میں ہتھیار کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم عالمی سطح پر یہ کیسے مان لیں کہ ہماری امن پسندی کی قدر کرتے ہوئے دشمن ہمارے ساتھ مذاکرات کرنے پر نہ صرف تیار ہو جائے گا بلکہ ہمارے مطالبات مانتے ہوئے اپنا بوریا بستر بھی سمیٹ کر اپنی راہ لے گا۔ ؟

کتابوں اور دوغلے پن سے پرے بات کی جائے تو سچ یہ ہے کہ امن دو جنگوں کے درمیانی وقفے کا دوسرا نام ہے اور امن پسندی کا بھاشن وہی ممالک دیتے ہیں جن کی اپنی معیشت ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے معاہدوں سے چلتی ہے۔ اس سارے تناظر میں پر امن تحریک آزادی کشمیر نقار خانے میں طوطی کی آواز جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتی۔ امریکہ اگر آج افغانیوں کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوا ہے تو اس کے پیچھے افغانیوں کی برسوں کی وہ محنت اور قربانیاں ہیں جو انہوں نے میدان جنگ میں ادا کی ہیں۔

جنگ سے پرے، مذاکرات اور سیاسی کوششوں سے آزادی حاصل کرنے والا دنیا میں صرف ایک ملک ہے مگر اس ملک کے پاس قائد اعظم جیسی قیادت موجود تھی ورنہ پوری مسلم لیگ اگلے ہزار سال بھی اپنی جدوجہد میں رہتی تو پاکستان کو ممکن نہ کر سکتی تھی۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ کشمیر کے پاس پوری قیادت اگرچہ موجود ہے لیکن قائد اعظم نہیں ہیں اس لیے ان کے پاس ہتھیار اٹھانے اور ہندوستان کو اپنی آواز سننے پر مجبور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ پر امن تحریک آزادی کشمیر کے لبادے کو اتارنے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور اگر اب بھی کشمیریوں نے خود اپنی لڑائی لڑنی نہ سیکھی اور میدان جنگ میں خود کھڑے ہونے کے بجائے امن پسندی کے راگ الاپتے رہے تو اپنی گزشتہ دو نسلوں کی طرح یہ بھی ایک نہ ایک دن امن کی دیوی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).