مسلم امہ کا تصور اپنی افادیت کھو چکا؟


اسلامی ملک ایک دوسرے کے بھائی ہیں، ان کے مفاد، دوست، دشمن، نظریات مشترک ہیں اور ان ممالک کو ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دینا ہے۔ پاکستان نے اس نظریے کی ترویج کی۔ مسلم امہ کا لفظ گڑھا گیا اور پھر امہ کے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا چاہا۔ یہ ایک مفروضہ تھا جو مختلف مفادات کے حصول کا آسان راستہ سمجھا گیا۔ جس کے تحت ہم نے دوسرے ممالک کی جنگیں لڑیں اور پیسے بنائے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں کرفیو نافذ کردیا تو پاکستان نے معاملے پر دیگر ممالک کی مدد چاہی جو کہ نہ مل سکی۔

خلیجی ممالک بھی ہمیں کشمیر کے تنازعے کو مسلم دنیا کا مسئلہ بنانے سے گریز کا مشورہ دیتے نظر آئے۔ ایسے میں پاکستانی نوجوان جو مسلم امہ کا مفروضہ سن کر بڑے ہوئے تھے معاملے پر سوال اٹھانے لگے۔ چند ذہن تو اس بھی آگے چلے گئے۔ پاک سر زمین کے ہوائی اڈوں سے افغانستان میں ہونے والے حملوں اور ہلاکتوں پر سوال اٹھایا، کیا افغانی مسلمان نہیں ہیں؟ وہ ہمارے بھائی نہیں ہیں؟ پاکستان افغانستان کے خلاف امریکا اور نیٹو ممالک کا معاون ہوکر کیسے مسلم امہ کا راگ الاپ سکتا ہے؟

اس ہی طرح یمن میں سعودیوں کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوں یا عراق جنگ۔ چین کے کیمپوں میں مسلمانوں کی جبری مذہبی تبدیلی کی خبریں اور ان پر تجزیے بھی ہوئے۔ جس پر پاکستان نے چپ کی گولی کھا رکھی ہے۔ وقت اور حالات کے ہاتھوں نوجوان نسل کی آنکھیں کھلنے لگی تھیں۔ معلوم ہونے لگا تھا کہ نہ ہی مسلم امہ نام کی کوئی چیز ہوا کرتی ہے اور نہ ہی پاکستان بھی کبھی پوری طرح سے اس پر عمل پیرا ہوا ہے۔ بلکہ ہماری سرکار اور فوج تو روز اول سے ہی امریکا کی معاون رہی۔

وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں تقریر کی۔ جس میں اسلام کو لے کر مغرب کے رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک بات قابل فہم تھی۔ مگر تحریک انصاف کے حامیوں نے عمران خان کو دنیا میں اسلام کا سفیر پکارنا شروع کردیا۔ حیران کن طور پر ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ کی رہنمائی کا ٹھیکہ ریاست نے خود ہی اٹھا لیا۔ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے عمران خان نے ملائیشین وزیراعظم اور ترک صدر کے ہمراہ ایک اسلامی چینل لانے کے ارادے کا بھی اظہار کیا کہ میڈیا کے ذریعے دنیا کو اسلام کا بہتر چہرہ دکھایا جاسکے۔

عمران خان شاید مغرب کو اتنا ہی بھولا سمجھتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے ہی ملک میں میڈیا اور آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ رکھا ہے وہ بھلا دنیا کو ایک چینل کھول کر اسلام کا مثبت چہرہ کیسے دکھائیں گے؟ زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ کشمیر کے حالات اگر بہتر نہیں ہوئے تو۔ عمران خان کو اسلامی دنیا کا ٹھیکیدار بنائے بیٹھے نوجوان ایک مرتبہ پھر سوچنا شروع کردیں گے۔ آوازیں اٹھنے لگیں گی اور یوں مسلم دنیا کے ساتھ برائے ضرورت بڑھایا گیا رومانس ماند پڑنے لگے گا۔ ہو سکتا ہے ایک ناقص نظریے کو مصنوعی سانسیں دے کر زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کہانی مگر زیادہ عرصے تک چلے گی نہیں۔ یا تو ہم زندہ رہ سکتے ہیں یا پھر ضرورت کے تحت گڑھے گئے ہمارے ناقص نظریات۔

ریاست اگر تو دنیا بھر میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو پہلے اپنے اندر کوتاہیوں، غلطیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ مسلم امہ کے تصور کو، جو برسوں سے ہم اپنے کاندھوں پر لے کر گھوم رہے ہیں، دفن کرنا ہوگاتاکہ آج کی دنیا میں فعال کردار ادا کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).