کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی سیاستدانوں اور میڈیا کی بڑھتی تشویش


کشمیر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد تقریبًا دو ماہ سے جاری کرفیو سمیت مختلف پابندیوں اور قدغنوں میں لاکھوں افراد جکڑے ہوئے ہیں اور نوجوانوں اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کو مبینہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے جبکہ وادی کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سمیت مواصلاتی نظام کی بھی بندش سے عام شہریوں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدہ حالات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کے متعدد سیاست دان اور ذرائع ابلاغ ان پابندیوں پرانڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور متعدد اخباروں اور ٹی وی نیوز چینلز پر خبریں متواتر کے ساتھ آرہی ہیں۔

اس ضمن میں امریکی کانگریس میں ایوان نمائندگان کی ایشیا پر ذیلی کمیٹی کا اجلاس اِسی ماہ طلب کیا گیا ہے جس میں کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیے

’کشمیری سوچ رہے ہیں کیا انڈیا سے ملنا درست تھا؟‘

’کشمیریوں کی نئی نسل میں موت کا خوف نہیں ہے‘

’موبائل بحال کیے تو سرحد پار سے جعلی پیغام آئیں گے‘

کشمیر

امریکہ کے ایوان زیریں کی ایشیا پر ذیلی کمیٹی کے سربراہ بریڈ شرمن نے کشمیری نژاد امریکی شہریوں سے ملاقات میں وہاں کی صورتحال سے متعلق تفصیلات لی

ایشیا پر ذیلی کمیٹی کا اجلاس

امریکہ کے ایوان زیریں یا ایوان نمائندگان کی ایشیا پر ذیلی کمیٹی کی سربراہ بریڈ شرمن نے اعلان کیا ہے کہ 22 اکتوبر کو جنوبی ایشیا کے بارے میں سماعت کی جائے گی جس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنوں سے تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

اس اجلاس میں ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق خارجہ امور کی قائم مقام نائب سیکرٹری ایلس ویلز، امریکہ کے بین الاقوامی آزادی مذہب کے سفیر سام براؤن بیک اور دیگر سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

کانگریس کی اس کمیٹی کے اجلاس میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عام شہریوں کی گرفتاریوں سمیت وہاں عائد پابندیوں کے باعث لوگوں کو درپیش مسائل، اشیائے خورو نوش کی قلت، طبی سہولیات کی کمی اور مواصلاتی نظام کی بندش پر بھی غور کیا جائے گا۔

کمیٹی کے چیرمین بریڈ شرمن نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا کہ انھوں نے کچھ کشمیر نژاد افراد سے ملاقات بھی کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے وادی سان فرانینڈو میں اپنے ساتھی رکن کانگرس اینڈرے کارسن کے ہمراہ متعدد کشمیری نژاد امریکیوں سے ملنے کا موقع ملا۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عوام کو درپیش مشکلات کے بارے میں گفتگو میں انھوں نے اپنے رشتہ داروں کی سلامتی کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا۔ میں کمیٹی کے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تفضیلات حاصل کروں گا۔’

کانگریس کی کمیٹی کے اس اجلاس میں کشمیر کے علاوہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بھی تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

کشمیر

امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں امریکی مسلمان شہریوں کی جانب سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ریلی اور مظاہرے بھی کیے گئے

امریکہ کہ ایوان نمائندگان کے کئی ممبران نے اپنے بیانات میں کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر مودی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جبکہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کو بھی اس سلسلہ میں خطوط لکھ چکے ہیں۔

الہان عمر اور کانگریس اراکین

مینیسوٹا کی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر نے بھی چھ اراکین کانگریس کے ساتھ مل کر امریکہ کے پاکستان اور انڈیا میں سفیروں کو خطوط لکھ کر اپیل کی ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور گشیدگی کم کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔

انڈین نژاد رکن کانگریس پرمیلا جیاپال نے الہان عمر اور 12 دیگر اراکین کانگریس کے ساتھ مل کر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ انڈیا کی مودی حکومت کشمیر میں حراست میں لیے گئے افراد کو فوری رہا کرے اور وہاں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون پر عائد بندش ختم کی جائے۔

بیان میں اس بات پر بھی انڈین حکومت پر تنقید کی گئی کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے پر عائد پابندی ختم کرے کیونکہ وہاں کے شہریوں کے پاس بھی انڈیا کے دیگر شہریوں کے طرح حقوق حاصل ہیں۔

امریکہ میں ‘ہندو فار ہیومن رائٹس’ نامی ایک تنظیم کی سنیتا وشواناتھن کہتی ہیں کہ وہ خوش ہیں کہ ہندو اور انڈین نژاد رکن کانگریس نے کشمیریوں کے حالات پر آواز اٹھائی ہے۔

کشمیر

ینیسوٹا کی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر نے بھی چھ اراکین کانگریس کے ساتھ مل کر امریکہ کے پاکستان اور انڈیا میں سفیروں کو خطوط لکھ کر اپیل کی ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے

سنیتا کا کہنا ہے کہ ‘میں سمجھتی ہوں کہ امریکی اراکین کانگریس کشمیر کے معاملے میں سوالات کر رہے ہیں تو اس کا اثر تو پڑے گا۔ میں خصوصاً اس لیے بھی خوش ہوں کہ کچھ ہندو اور انڈین نژاد اراکین کانگریس بھی کشمیریوں کے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔’

اس سے قبل امریکہ کہ چار اہم سینیٹروں نے بھی کشمیر میں کشیدہ حالات کے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ امریکی انتظامیہ انڈین حکومت پر دباؤ ڈالے۔ اس میں سینیٹر لنڈسی گراہم بھی شامل تھیں جو صدر ٹرمپ کے قریبی مانی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ ٹوئٹر پر بھی بیانات میں کئی اراکین کانگریس کشمیر کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

نیویارک سے منتخب امریکی کانگریس کی خاتون رکن الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز نے کشمیر کے بارے میں ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں محصور عام شہریوں کے لیے پیغام میں لکھا ‘ہم کشمیر سمیت دنیا بھر میں امن اور انصاف کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ کشمیر میں محصور خاندانوں کے ساتھ ہم سب کی دعائیں اور حمایت ہے۔’

کورٹیز نے ٹویٹ کے ذریعے بھی کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا اور انڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو بحال کیا جائے۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ‘ہم کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، برابری اور سب کے انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔انڈیا کے زیر انتظام میں تشدد کی جو خبریں آ رہی ہیں وہ نہایت تشویشناک ہیں۔ مواصلاتی نظام کی بندش ختم کی جائے اور جان بچانے والی ضروری ادویات تک رسائی بحال کی جائے۔’

الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز

نیویارک سے منتخب امریکی کانگریس کی خاتون رکن الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز نے بھی اپنے پیغام میں لکھا ‘ہم کشمیر سمیت دنیا بھر میں امن اور انصاف کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ کشمیر میں محصور خاندانوں کے ساتھ ہم سب کی دعائیں اور حمایت ہے۔’

امریکی ریاست مینسوٹا سے رکن کانگریس الہان عمر نے اپنی ٹویٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ بین الاقوامی اداروں کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا معائنہ کرنے کے لیے وہاں جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔’

اس سے قبل اگست کے مہینے میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے امریکی شہر ہیوسٹن میں امریکی مسلمانوں کے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں حالات پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔

برنی سینڈرز نے کشمیر پر بات کرتے ہوئے کہا ‘کشمیر میں انڈین حکومت کے اقدامات قابل قبول نہیں ہیں، وہاں گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی آزادی رائے سمیت طبی سہولیات تک رسائی پر بھی پابندی عائد ہے۔ مواصلاتی نظام سمیت دیگر پابندیوں کو فوراً ہٹایا جائے۔’

اس بارے میں مزید پڑھیے

پابندیوں کے شکار کشمیری بچوں کا سہارا ٹیوشن سنٹر

’کشمیر پر جو کر سکتا ہوں، کرنے کے لیے تیار ہوں‘

27 ستمبر: کشمیر میں خوش امیدی کی وجہ کیا ہے؟

سینڈرز کا کہنا تھا کہ ‘امریکی حکومت انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرے اور مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق پرامن حل نکالے جانے کی حمایت کرے۔’

گذشتہ ماہ برنی سینڈرز نے امریکی شہر ہیوسٹن کے ایک مقامی اخبار ‘ہیوسٹن کرونیکلز’ میں اپنے کالم میں بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر اسی ہفتے کے دوران کیا تھا جب امریکی صدر ٹرمپ انڈیا کے وزیر اعظم کے ‘ہاؤڈی مودی’ نامی عوامی اجتماع میں شرکت کی تھی۔

امریکی اخبارات میں کشمیر سے متعلق خبریں

متعدد امریکی اخبارت میں بھی اس بارے میں خبریں شائع کی گئیں ہیں جن میں نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور ایل اے ٹائمز نمایاں ہیں۔

ان اخبارات نے تفصیلی خبروں کے ساتھ ساتھ وہاں کی کشیدہ صورتحال کی تصاویری جھلکیاں بھی شائع کی ہیں جن میں وادی کشمیر میں کرفیو، عائد پابندیوں اور قدغنوں میں رہنے والے کشمیری عوام کی مشکلات کی عکاسی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے گھروں میں چھاپے مار کر عام شہریوں کی گرفتاریوں اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کی خبریں اخبارات کی زنیت بنی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ کے ایسے 20 افراد کا ذکر بھی کیا جنھوں نے انڈین سکیورٹی حکام کی جانب سے انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔

جبکہ انڈین سکیورٹی فورسز نے واشنگٹن پوسٹ میں بیان کیے گئے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔

نیویارک ٹائمز اخبار نے بھی اپنے صفحہ اول پر ایک ایسے کشمیری خاندان کی تصویر شائع کی تھی جن کے خاندان کے افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

نیویارک ٹائمز نےدو اکتوبر کو شائع ہونے والے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اب اقوام متحدہ کشمیر کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔

اخبار نے لکھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ کشمیر پر انڈیا کے وزیر اعظم کے سخت شکنجے والے تسلط کی مخالفت کرتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان عالمی برادری سے اس سلسلے میں مداخلت کی اپیل کرتا رہا ہے۔

امریکی ٹی وی چینلز پر کشمیر کی صورتحال

دوسری جانب امریکی ٹی وی چینلز پر بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق متعدد بار تفصیلی رپورٹس نشر کی گئیں ہیں۔

ان میں سی این این، ایم ایس این بی سی، سی بی ایس اور اے بی ایس جیسے مقبول ٹی وی نیٹ ورک شامل ہیں جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عائد پابندیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کا بھی ذکر کرتے رہے ہیں۔

اس سے قبل امریکی وزارت خارجہ کی جنوبی ایشیا کے امور کی قائم مقام نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے گذشتہ ہفتے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا انڈین حکومت کشمیر میں حراست میں لیے گئے افراد کو رہا کرے اور جلد از جلد وہاں عائد پابندیوں کو ختم کرے۔

کشمیر

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر میں سیاسی عمل کی شروعات ہو اور وہاں لوگوں کو پرامن مظاہرے اور اجتماع کی اجازت ہونی چاہیے۔

واضح رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے شرط ہے کہ پہلے دونوں ممالک اس پر آمادہ ہوں۔

جبکہ انڈیا کشمیر کے مسئلے کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کسی بھی ثالثی کی پیشکش کو رد کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32741 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp