یہ رہی لاہور کی سنبل: کدھر ہے اب وہ کراچی والی مسز خان؟


میں ایک حوا کی بیٹی ہوں۔ صنف نازک ۔۔۔ جس کی مرد جب ناز برداری اٹھانے کو آتا ہے تو ماں جیسی عظیم ہستی کو بیوی کے کہنے پر کچرے میں پھینک جاتا ہے اور کبھی ماں کے کہنے پر اپنی بیوی کو لاتوں، گھونسوں سے اتنا مارتا ہے کہ وہ مر نہیں جاتی تو استری سے اس کا خوبصورت چہرہ داغ دیا جاتا ہے۔ جی کل لاہور کے گرین ٹاون میں 21 سالہ سنبل انسانیت کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔ قصور چاہے اس نے جتنا بھی بڑا کیا ہو پر سزا اس کو بڑی بھیانک دی گئی ہے۔ کیا سنبل کے اس طرح استحصال سے معاشرے میں کسی کو فرق پڑا؟ کیا کسی کو دو لمحوں کے لئے خیال آیا کہ کل کیا آج میری بہن اور بیٹی کے ساتھ ایسا ہو جائے تو کیا قیامت گزر جائے گی؟ نہیں جناب ایک گرما گرم خبر آج کی میز پر پڑی ہے اور ہم چائے اور پراٹھوں کے ساتھ اس خبر کو دیکھ کر مصنوعی افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ابھی خطرہ اپنی چوکھٹ تک نہیں آن پہنچا۔

سنبل کے ہنستے بستے چہرے کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کس بے دردی سے اس کو مارا گیا ہے۔ ساس اور نند بھی تو عورتیں ہی تھیں نا۔ پھر کیوں ترس نہ آیا؟ کیا عورت کا مقام بیوی بن کر کم ہوجاتا ہے۔ مرد جس کی شادی سے پہلے گھر میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی شادی کے بعد گھر والوں کی آنکھ کا تارا کیوں بن جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ اس کو بیوی کی صورت میں آنے والی عورت کو عزت نہ دینی پڑجائے۔ ساری توجہ ساری امیدیں اور وابستگی شادی کے بعد ہی کیوں لگا لی جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سارا قصور سنبل کا ہو، پر کیا یہ وحشیانہ سلوک جو اس کے ساتھ کیا گیا کیا یہ جائز ہے؟ کیا پاکستان کا قانون اجازت دیتا پے؟ کیا مذہب نے مرد کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے؟

کیا انسانیت مر گئی ہے۔ اس طرح تو کوئی کسی جانور کے ساتھ سلوک نہیں کرتا پھر اس جیتی جاگتی لڑکی کے ساتھ کیوں کیا گیا؟ کہاں ہیں انسانیت پر بات کرنے والے، انسانیت کے قانون دان، کہاں ہے منبر پر بیٹھا مولوی ، کہاں پے عالم دین؟ کیا یہی دین پے؟ ہم مردوں کی شادیوں پر تو بات کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی مثالیں بھی دیتے ہیں پر کب دین اسلام نے عورت پر ہاتھ اٹھانے کا کہا؟ یہ بات آپ مردوں کو باور کیوں نہیں کرواتے؟ منبر پر بیٹھ کر عورت کے پردے پر تو وعظ دیتے ہیں بیوی کے ساتھ سلوک پر کیوں بات نہیں کرتے؟ مردوں کو ان کے حقوق کا تو بتاتے ہیں کہ بحیثیت شوہر نامدار اس کے کیا حقوق ہیں کس کس طرح وہ جبر کے لئے آزاد ہے پر بیوی کے حقوق کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ صرف شادی کر کے بیویاں رکھنا کمال نہیں۔ شادی کر کے بیوی کو بیوی کا مقام دینا کمال ہے۔ بیوی کوئی غلام نہیں۔ کوئی چابی کی گڑیا نہیں کہ جواب نہ دے۔ غصہ نہ کرے اور سب کی جی حضوری کرتی رہے۔ بیوی کو اپنے جیسا انسان سمجھئے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ عورت اپنا دفاع خود کرے گی۔ مرد کے ہاتھوں سے قلم چھن جائے گا۔

سنبل جیسی کتنی عورتیں ابھی اس کرب میں مبتلا ہورہی ہوں گی۔ کبھی زبان سے تو کبھی ہاتھوں کی مار کھا رہی ہوں گی ۔ درد سے چیخ رہی ہوں گی۔ پر دوست رشتہ داروں نے کان اور آنکھ بند کر لئے ہوں۔ کیا پڑوسیوں کو سنبل کی آواز نہیں گئی ہو گی۔ کیا محلے والوں کا فرض نہیں تھا کہ اس کو بچاتے؟ نہیں ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ ہمیں درد اور تکلیف کی آوازیں آنا بند ہو چکی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر سنبل کو اس کے قصور کی اتنی بڑی سزا دی گئی ہے تو اس کو اس حال تک پہنچانے کی سزا اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہونی چاہئے۔

کہاں ہیں آج کراچی والی مسز خان جو عورتوں کو تو شادی کے لئے کیا کچھ نہیں کہہ دیتی۔ آج ٹی وی پر آ کر کہیں کہ ایسے مردوں کو شادی نہیں کرنی چاہئے جو عورت کی عزت کرنی نہ جانتے ہوں۔ صرف عورت کو شادی کے اصولوں پر عمل کرنے کی ہی ضرورت ہے۔ کیا مرد کو اپنا گھر نہیں بنانا چاہیے۔ کیا اس کو گھر اور چار دیواری نہیں چاہئے۔ کیا اس کے فرائض اور حقوق مقرر نہیں؟ جرگہ لگائیں ۔ ٹی وی شوز کریں۔ قانون بنائیں۔ اور عورت کا استحصال بند کریں۔ اب یہ ظلم بند کریں۔ عورت خود دوسری عورت کا دفاع کرے۔ آواز اٹھائے۔

مرد اگر حاکم ہے تو رواداری کو اختیار کرے۔ اپنی طاقت سے اس معاشرے میں سدھار لائے۔ عورت کی تعظیم کرے اور حقوق کو متوازن رکھے۔ نہ خود ظلم کا حصہ بنے اور نہ ظلم کرنے کی اجازت دے۔ اپنے دل میں جو محبت و عقیدت اپنی ماں بہن اور بیٹی کے لئے جمع رکھتا ہے ویسی ہی عزت بیوی کو ایک عورت کے حیثیت سے دے کیونکہ بیوی شوہر کی ذمہ داری ہے اور اس کی حفاظت کا بیڑہ نکاح کی صورت میں اٹھا رکھا ہے جس کی پاسداری اس کا اولین فرض ہے اور اس کی جواب دہی اس کو اللہ تعالی کے حضور دینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).