سیاسی و غیر سیاسی الجھنیں


جیسے ہر انسان کی ظاہری ساخت ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے، ہر انسان قدرتی طور دو ہاتھ، دو پاؤں، دو آنکھوں، دو کانوں، ایک ناک، ایک سر اور جسم کے درمیانی حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود انسان کی شکل و صورت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ بناوٹ کے ایک ہونے کے باوجود تمام انسانوں کی شکل و صورت میں واضح فرق ہے تبھی تو انسان کی پہچان ممکن ہے۔ بالفرض تمام انسان اینٹ کی طرح ایک ہی سانچے سے ترتیب پاتے جن پر ایک ہی ٹھپہ لگا ہوتا تو اینٹوں کی طرح ایک دوسرے کی پہچان کھو چکے ہوتے۔

جس طرح سب اینٹیں ایک جیسی دکھتی ہیں بالکل اسی طرح انسان بھی ایک جیسے ہی دکھتے۔ اگر انسان انسانی تیارکردہ کسی پروڈکٹ کی طرح ہوتا تو اس پروڈکٹ کی ہر اکائی کی طرح انسانی شکل و صورت بالکل ایک جیسی ہوتی جس کا پہچاننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا۔ ایسے ہی الفاظ بھی بالکل اسی طرح ہیں جو ظاہری طور تو ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں مگر ان کا حقیقی مفہوم ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔ جیسے عشق، پیار، محبت یہ تینوں الفاظ ایک ہی طرح کے مفہوم کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

کبھی کبھار محب اپنے محبوب سے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے کہتا ہے مجھے آپ سے محبت ہے۔ کبھی کہتا ہے مجھے آپ سے پیار ہے اور کبھی کہتا ہے میں آپ سے عشق کرتا ہوں۔ جذبات کے اظہار کے لئے یہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ اور تقریباً ایک دوسرے کے لئے مترادف الفاظ کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ان میں بھی جذبات کا واضح فرق ہے۔ اگر فرق نہ ہوتا تو ایک ہی لفظ استعمال کیا جاتا۔ ایسے ہی کچھ اصطلاحات ہیں جن کا مفہوم ایک دوسرے کے لئے مترادفات کے طور پر استعمال ہوتا ہے مگر ان کا حقیقی مفہوم ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر سیاست اور بنیادی حقوق کو ہی لیجیے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھانا ہی سیاست ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ سیاست کا مقصد ہی بنیادی حقوق کی بات کرنا ہے۔ کچھ کی نظر میں بنیادی حقوق پر بات کرنا سیاست نہیں بلکہ ایسے لوگ سیاست کو بنیادی حقوق کے لئے بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں سیاست کے نام پر انسانوں کے بنیادی حقوق مفادات اور سمجھوتوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان کی نظر میں بنیادی حقوق اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔

سیاست اور بنیادی حقوق دو اصطلاحات ہیں جس کی تشریح لوگ اپنے علم و نظریہ کے مطابق کرتے ہیں۔ علم و نظریات میں واضح فرق ہونے کی وجہ سے اکثر الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کا علم ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ لوگوں کی تعلیم اور ذریعہ تعلیم بھی مختلف ہوتا ہے۔ کچھ کا ذریعہ تعلیم اپنی مادری زبان ہے تو کچھ کا قومی اور کچھ کا بین الاقوامی زبان ہے۔ کچھ نجی تعلیمی اداروں سے پڑھے ہوتے ہیں تو کچھ سرکاری تعلیمی اداروں سے۔

جبکہ اعلی تعلیم کے حصول کے لئے سب کے شعبے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اور ان کی اصطلاحات بھی ایک دوسرے کے شعبوں سے بالکل مختلف ہوا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر قانون کے شعبہ میں استعمال ہونے والی اصطلاحات میڈیکل کے شعبہ میں استعمال ہونے والی اصطلاحات سے یکسر مختلف ہوا کرتی ہیں۔ پھر ایک ہی شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی ذہانت اور سوچ میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک ہی چھت کے نیچے تعلیم حاصل کرنے والے بہت سی باتوں میں ایک دوسرے سے مختلف نظریہ اور فہم رکھتے ہیں۔

جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو الجھنیں جنم لیتی ہیں۔ الجنھوں کو ختم کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ الجھنیں بڑھ کر بدگمانیوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اور بدگمانیاں بغض و عناد کا سبب بنتی ہیں جس سے دشمنی وجود میں آتی ہے۔ فی الحقیقہ انسان بحیثیت بشر ایک دوسرے کا دشمن ہرگز بھی نہیں ہے۔ مذہب، قومیت، رنگ و نسل کے امتیاز کے باوجود انسان بحیثیت بشر ایک دوسرے کا ازلی و ابدی دشمن ہرگز بھی نہیں ہے۔ دشمنیاں اکثر بدگمانیوں کے سبب جنم لیا کرتی ہیں۔

ان الجھنوں کو ختم کرنا یقیناً بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کام ہے۔ مگر وسیع پیمانے پر نہ سہی اپنے محلے، شہر، صوبے اور ملک کی حد تک الجھنوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ان الجھنوں کو کم کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ مکالمہ ہے۔ مختلف سوچ کے لوگوں کو ایک ساتھ بٹھا کر ان کے خیالات و نظریات پر مکالمہ ہونا چاہیے۔ جس موضوع پر مکالمہ کیا جائے اس پر مکالمہ کے اختتام پر نئی اصطلاحات متعارف کرائی جائیں۔ پھر ان اصطلاحات کا جو مفہوم لیا جائے اگرچہ وہ حقیقی مفہوم نہ بھی ہو مجازاً اختیار کیا گیا ہو مگر اس مفہوم کو سب کے لئے ایک جیسا لیا جانا چاہیے۔ اس تحریر میں دو باتوں پر مکالمہ کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔

1: سیاسی و غیر سیاسی ہونا اور

2: غداری و حب الوطنی کا معیار

سیاسی و غیر سیاسی کی بحث آج کل ملک کی چند طلباء تنظیموں کے مابین گرم ہے۔ کچھ طلباء تنظیمیں خود کو غیرسیاسی قرار دیتی ہیں اور کچھ خود کو سیاسی کہلوانا پسند کرتی ہیں۔ بات پسند نا پسند کی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی طلباء تنظیمیں غیر سیاسی طلباء تنظیموں کو اکثر یہ دوش دیا کرتی ہیں کہ غیر سیاسی کوئی نہیں ہوتا۔ غیرسیاسی کا نعرہ لگانا بھی دراصل سیاسی ہونا ہی ہے۔ جبکہ غیر سیاسی طلباء تنظیمیں اپنے غیر سیاسی ہونے سے یہ مراد لیتی ہیں کہ جو تنظیم کسی سیاسی جماعت کی طلباء تنظیم نہیں ہے یا عملی طور سیاست نہیں کرتی جسے پارلیمانی سیاست کہتے ہیں وہ تنظیم خود کو غیر سیاسی کہلوانے کا حق رکھتی ہے۔

اس موضوع پر آج کل طلباء تنظیموں میں گرم بحث جاری ہے۔ اگر اس موضوع پر ایک مکالمہ ہوجائے اور سیاسی و غیر سیاسی کا معیار مقرر کرکے اس اصطلاح کو واضح کردیا جائے تو کم از کم بہت سے طلباء کی الجھنیں ختم ہوسکتی ہیں۔ پھر سیاست میں دلچسپی رکھنے والے طالب علم اپنی مرضی سے سیاسی تنظیم کا حصہ بن جائیں اور جو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے وہ غیرسیاسی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرلیں۔

دوسرا مکالمہ غداری اور حب الوطنی کا معیار مقرر کرنا ہے۔ ویسے آئین میں غدار تو اسے کہا گیا ہے جو آئین کو معطل کرے۔ مگر جب سے ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح سامنے آئی ہے سوشل میڈیا کے مجاہدین ہر تنقید کرنے والے کے ہاتھ میں غداری کا سرٹیفکیٹ تھماتے پھر رہے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کے بہت سے سپاہیوں نے ہم جیسے شدید محب وطنوں کے لئے بھی غداری کے سرٹیفکیٹس جاری کر رکھے ہیں۔ ایسے سپاہی اکثر بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں یا پھر تنخواہ سے زیادہ کام کرتے ہیں۔

ان کی نظر میں ہر وہ شخص غدار ہے جو ملک کے وزیراعظم، حکومت، عدلیہ یا پھر افواج پر تنقید کرتا ہے۔ حالانکہ ماضی قریب میں یہ سارے کام وہ خود کرتے رہے ہیں۔ مزید حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ تھوڑے ہی لمحہ بعد وہی سپاہی آزادی اظہار رائے کے حق میں بول رہا ہوتا ہے۔ اگر غداری اور حب الوطنی جیسے موضوع پر وسیع پیمانے پر ایک مکالمہ ہوجائے اور سوشل میڈیا کے مجاہدین کے لئے غداری اور حب الوطنی کی اصطلاح کا معیار مقرر کیا جائے تو بہت سوں کی الجھنیں ختم ہوسکتی ہیں۔

الجھنیں ختم کرنا واقعی بہت بڑا کام ہے۔ جو ہر کسی کے بس کا کام نہیں جس کا اعتراف میں کھل کر کرتا ہوں۔ مگر پھر بھی کوشش کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر چند سوشل میڈیا کے سپاہیوں کی الجھن ہی دور ہوجائے تو چند بے قصور لوگ غدار ہونے سے بچ جائیں گے۔ ویسے تو سیاسی، غیر سیاسی، مذہبی اور سماجی الجھنوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر یہاں صرف دو الجھنوں پر مکالمہ کرنے کے لئے اہل قلم و دانش سے درخواست ہے کہ وہ یہ دو الجھنیں سلجھا کر ثواب دارین حاصل کرسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).