میرا غریب محلہ حاصلپور


پھر کسی بچے کی پہچان غریب محلہ نہیں ہوگی
میرا قلم خریدنے کے درپے ہے حاکمِ شہر
میری غربت کو میری کمزوری سمجھ بیٹھا ہے
باباجیونا

ویسے تو یعقوب چوک حاصلپور سے مغرب کی طرف پھیلی لاکھوں نفوس پہ مشتمل ساری آبادی غریب محلہ ہی کہلاتی ہے مگر سہولیات کے فقدان اور غیرتوجہی کا شکار صرف دربار محلہ اور اس سے آگے کالج کی طرف پھیلی کچے پکے مکانات پر مشتمل آبادی ہی حقیقی غریب محلے کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مدرسہ جامعہ ابو ہریرہ کی نکڑ سے بدقسمت انسانوں کا محلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں نہ گلیوں میں سڑکیں بن سکیں نہ سیوریج کا کوئی باقاعدہ نظام وضع کیا جاسکا۔

کچی گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر اور تعفن زدہ نالیاں اس علاقے کے سیاسی کرتادھرتاٶں کا منہ چڑاتی ملتی ہیں۔ اس ترقی یافتہ اور مہذب دور میں بھی اس محلے کی چند گلیاں اور بازار ایسے ہیں جہاں پینے کا پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات بھی نہ پہنچائی جا سکی ہیں۔ بھلی قسمت سے جن گلیوں میں بجلی کے سرکاری کھمبے لگے ہیں ان کھمبوں پر بجلی کے میٹروں کی بھرمار ہے۔حاصلپور شہر میس گیس کا آنا بھی ایک معجزے سے کم نہ تھا مگر بدقستی سے یہ معجزہ بھی اس محلے کے لوگوں کے لیے خواب کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس محلے کی گلیوں میں گیس سلنڈروں کی غیر قانونی ری فلنگ اور سلنڈروں کا کاروبار عروج پہ ہے۔

اگر شہر کے سب سے مصروف ترین چوک یعنی دربار چوک کا ذکر کریں تو اس چوک کو غریب محلے کے دل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس چوک میں تیل، سبزی، پانی سے لے کر منشیات کی ہر قسم اور دیگر مہنگی سستی عیاشیاں باأسانی میسر ہیں۔ اس چوک میں بغیرکسی ترتیب بنا کسی نظم وضبط گائے بھینسوں کے ریوڑوں کی طرح کھڑے موٹرسائیکل رکشے عام گزنے والوں کے لیے وبال جان بنے رہتے ہیں۔ ان موٹرسائیکل رکشوں پر آپ کو ساٹھ سال کے بزرگوں سے لے کر بارہ بارہ سال بچوں تک لوگ فن ڈرائیوری دکھاتے ملیں گے۔

دربار محمد شاہ رنگیلا مزار کے ٹھیکے داروں سے محکمہ اوقاف سالانہ لاکھوں روپے ٹھیکہ کی مد میں وصول کرتا ہے مگر مزار کے عقب میں لگے کوڑے کے ڈھیرمحکمہ اوقاف کے عہدیداران کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کوڑے کے ڈھیروں پہ محلے کے آوارہ کتے نہ صرف براجمان رہتے ہیں بلکہ زائرین کو گھورتے اور افزائش نسل کے عمل میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہ کوڑے کے ڈھیر نہ صرف باعث شرم ہیں بلکہ انھیں دربار کی توہین کہنا بھی بے جا نہ ہوگا۔

اگر مجھ سے کوئی مشورہ لے توان کوڑے کے ڈھیروں پہ مٹی کی چند ٹرالیاں ڈال کر بہترین رکشہ اسٹینڈ بنایا جاسکتا ہے اور محکمہ اوقاف اس اسٹینڈ سے لاکھوں روپے کما سکتا ہے۔ غریب محلے میں جہاں جرائم پیشہ عناصر پناہ لیے ہوئے ہیں وہیں اس محلے میں بڑی تعداد میں بہترین معلم، پولیس افسران، قانون دان، وکلاء، مذہبی سکالرز، خطیب، کاروباری شخصیات اور مزدور پیشہ افراد بھی رہائش پذیر ہیں۔ اس محلے کی شرح خواندگی قابل افسوس حد تک کم ہے جس کی بڑی وجہ شعور و آگاہی کا نہ ہونا اور تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔

دوسری بڑی وجہ جگہ جگہ بلیرڈ کلب، سنوکر کلب چائے کے چھپر ہوٹل ہیں جو دن رات غیراخلاقی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ ایک وقت تھا جب غریب محلے کے چاروں طرف کھیل کے میدان ہوا کرتے تھے جو اب بدقسمتی سے قبضہ مافیا اور تجاوزات کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس محلے میں زیادہ تعداد ان بچوں کی ہے جو پانچویں سے یا آٹھویں جماعت سے آگے نہ نکل سکے جس کی وجہ بلیرڈ کلب، جوئے کے اڈے اور بے روزگاری ہے۔ جو بچے شہر کے اچھے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں وہ محلے کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔

اسی محلے سے ملحقہ بہاولپور روڈ کی دوسری جانب قدیم تاریخی قبرستان اور قبرستان کے شمال کی جانب دربار محمدشاہ رنگیلا کا لنگر خانہ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس لنگرخانہ میں بنی چھوٹی سی مگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار مسجد لنگر خانہ کی انتظامیہ کی انسانیت پہ سوالیہ نشان ہے۔ اس مسجد میں باہر سے آنے والے زائرین اور نمازیوں کے لیے نہ کوئی وضوخانہ ہے نہ ہی باقاعدہ کوئی امام یا منتظم ہے۔ لنگر حانہ میں صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہ ہے۔

ذرا آگے بہاولپور کی جانب جائیں تو آپ کو حاصلپور کا واحد اسٹیڈیم دکھائی دے گا جو حکومت پاکستان کی عدم توجہ سے کھنڈر کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسٹیڈیم کے سامنے ریلوے لائن عبور کریں تو جابجا آپ کو گندے پانی کے چھپڑ اور غلاظت کے ڈھیر ملیں گے جو اسٹیڈیم میں کھیل کود کے لیے آئے بچوں کے لیے موذی بیماریوں کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ دانش سکول، گونگے بہروں کا سکول، ڈگری کالج، تلہڑ روڈ پہ ایک آئل مل، گلاب فلور مل اس محلے سے ملحقہ اہم عمارات ہیں۔

چند ایک گرلز اور بوائز پرائمری سکول بھی ہیں جو اکثر سٹاف کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس محلے کے بچے حصول علم کی خاطر شہر کا رخ کرتے ہیں۔ محلے کی ٹوٹی سڑکوں، کچی گلیوں میں سکول کے بچوں سے لدے رکشے ہمیشہ حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اس بڑے محلے میں کسی بھی سرکاری ڈسپنسری یا ہسپتال کا نہ ہونا انتہائی افسوس کا مقام ہے۔ دوچار جو پرائیویٹ ہسپتال ہیں وہ غریبوں کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ ان تمام پریشانیوں اور سہولیات کے فقدان کے باوجود غریب محلے کے لوگ سیاست دانوں کے سامنے زبان کھولنا خاندانی وڈیرہ سیاست دانوں کی توہین سمجھتے ہیں۔

لیکن میں اس محلے سے ووٹ مانگنے والوں سے ایک سوال کرتا ہوں کہ میرے اس محلے کے حصے کا فنڈ زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟ میرے اس محلے میں نہ آنے والے بجلی کے کھمبے کس کے محل کی دیواروں میں چن دیے گئے۔ میرے اس محلے میں نہ پہنچنے والی سیوریج لائن کس کی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے چرا لی گئی۔ میرے محلے کی طرف آتے آتے راہ میں رہ جانے والی گیس لائین کس کے لیے جہنم کی آگ دہکانے میں صرف ہوئی؟

میرے محلے کی گلیوں میں لگنے کے لیے آنے والی پختہ اینٹیں کس کا مزار پکا کرنے پر لگادی گئیں؟ میرے محلے میں ہسپتال یا ڈسپنسری بنانے کے لیے آیا پیسہ کس کی تجوری کی زینت بنا؟ میرے محلے کے بچوں کی تفریح کے لیے بننے والا پارک کس بنگلے کے صحن کی زینت بنا؟ میرے محلے کے بچوں کے کھیل کے میدان کس سیاست دان کے گھر کے جاگنگ ٹریک بنے؟ آج نہیں تو کل غریب محلے کے عوام یہ سوال پوچھیں گے اور پھر اس محلے کے کسی بچے کی پہچان غریب محلہ نہیں ہوگی۔

تیری معتبر رہنے کی حسرت خاک ہوجائے
گر میں لب کشائی کا حتمی فیصلہ کرلوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).