کوہ سیموائی، ماریا اور فل مون پارٹی


تھائی ایر لائین کی پرواز بنکاک ایر پورٹ پر اتری تو اگلی فلائیٹ میں وقت کم رہ گیا تھا۔ بھاگم بھاگ اس گیٹ کی طرف جا رہے تھے، جہاں بنکاک ایر ویز کا ایک چھوٹا طیارہ مسافروں کو تھائی لینڈ کے جزیرے کوہ سیموائی لے کر جانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ یہ صبح کا وقت تھا اور ہم جگہ جگہ امیگریشن حکام کی سخت کارروائیوں کا سامنا کر رہے تھے۔ آخری سٹیپ میں جوتا پہننے کا بھی وقت نہیں ملا۔ گیٹ سے باہر رن وے پر طیارہ کو ئی پچاس گز دور کھڑا تھا۔ بورڈنگ ہوچکی تھی اس لئے عملے کی پروا کیے بغیر جوتا پہنا، اپنا سامان سمیٹا اور جہاز کی طرف چل پڑے۔

ایک گھنٹے کی فلائیٹ تھی۔ جہاز والوں نے ایک سینڈوچ دیا جس پر نہ جانے کیا لگا ہوا تھا، بہت برا اور بدبودار تھا، واپس پھینکنا پڑا۔ چائے بھی زہر مار کرنی پڑی۔ جلتے کڑھتے اور چائے پیتے لینڈنگ شروع ہو گئی۔

جہاز سے باہر نکلے تو ساری کوفت دور ہوگئی۔ سفر کی تھکاوٹ دم توڑ گئی۔ سامنے خوبصورت منظر سحر طاری کر رہا تھا۔ سرسبز جنگلات سے ڈھکی پہاڑیوں کے بیچ یہ نابغہ روزگار ایرپورٹ دنیا کے چند خوبصورت ترین ایرپورٹس میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں صرف چھوٹے طیارے لینڈ کرسکتے ہیں۔ اس ایرپورٹ کا رن وے جزیرے کے شمال سے جنوب کی طرف تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں عام طور پر صبح کے وقت جہاز لینڈ کرتے ہیں کیونکہ دوپہر کے بعد یہاں تیز ہوا کی وجہ سے لینڈنگ مشکل ہوتی ہے۔

ہمارا ہوٹل ساحل سمندر پر، ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ دو کمروں کے ڈبل سٹوری فلیٹس کا ایسا مجموعہ تھا جس کے وسط میں سوئمنگ پول بنایا گیا تھا اور اس کے ہر روم سے سمندر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔

شام کو جنگل کی سیر کو جانا تھا۔ جزیرے کے بازار اور ہاتھیوں کا شو دیکھنا تھا۔ کوہ سیموائی کو سیاحوں کی جنت کہا جا سکتا ہے۔ یہاں سیاحوں کو ہر وہ چیز مل جاتی ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں، خاص طور پر یورپ کے سرد علاقوں سے آئے سیاح جن کو یہاں کی چمکدار دھوپ اور ریتلے ساحل کے ساتھ پام کے درختوں سے ڈھکے سرسبز ساحل بہت پسند ہیں۔ اس جزیرے پر آپ کو سر سبز پہاڑیاں، گھنے جنگل، آبشاریں، گرم مرطوب موسم اورشراب و شباب ارزاں میسّر ہیں۔

پتایا اور بنکاک کی طرح یہاں سیاحوں کا بے پناہ رش بھی نظر نہیں آتا۔ میں نے یہاں زیادہ تر نوجوان جوڑوں کا رش دیکھا، جو یہاں چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ یہاں ہر طرح کے ہوٹل مل جاتے ہیں۔ ٹیکسی سے لے کر کرائے کے موٹر سائیکل تک دستیاب ہیں۔ تھائی فوڈ کے ساتھ ساتھ یہاں ہندوستانی کھانے اور حلال فوڈ بھی دستیاب ہے۔

ہاتھی شو جنگل کے وسط میں کیا گیا تھا۔ یہاں اس طرح کے کئی کلب ہیں، جو جنگل سفاری، ہاتھیوں کی سواری اور شو کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہاتھی انسان دوست جانور ہے۔ ہاتھی میں سیکھنے کی صلاحیت کافی زیادہ ہے، اسی لئے بہت سے سرکس شو ہاتھی کے بغیر نامکمل رہتے ہیں۔ اس شو میں ایک بچہ ہاتھی نے کمال کے کرتب دکھائے، اور سو ڈیڑھ سو تماشائیوں سے جی بھر کے داد وصول کی۔ جو لوگ ہاتھی کی رائیڈ لینا چاہ رہے تھے انہیں دو دو کرکے ایک اونچی جگہ پر کھڑا کر دیا گیا۔

باری باری ایک ہاتھی آتا اور دو سوار رائیڈ کے لئے ہاتھی کی پشت پر سوار ہوجاتے۔ میری باری سے ایک منٹ پہلے میرا ساتھی عارف واش روم چلا گیا۔ میرے ساتھ میرے پیچھے کھڑی فرنچ لڑکی بیٹھ گئی۔ وہ اکیلی نہیں تھی۔ فرانس سے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ چھٹیاں گزارنے آئی تھی۔ آج صبح جب وہ سو کر اٹھی تو ریمنڈ غائب تھا۔ اس کا بیگ بھی نہیں تھا۔ وہ تین دن پہلے کوہ سیموائی آئے تھے۔ ماریا بہت اداس تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔

ہاتھی کی سواری کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔ ہاتھی گھنے جنگل میں ایک پہاڑی ندی کو کراس کررہا تھا جہاں کوکونٹ کے درخت لگے ہوئے تھے۔ ماریا خاموش تھی۔ اس نے صرف یہ بتایا تھا کہ دوسال سے ریمنڈ اس کا بوائے فرینڈ تھا۔ وہ ریمنڈ سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور اسے اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتی تھی۔ وہ پہلی بار اکٹھے سفر پر نکلے تھے۔ آدھے گھنٹے کی رائیڈ کے بعد ہم واپس اترے تو اس کی وین تیار کھڑی تھی اور اس کے گروپ کے لوگ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ رات ایک انڈین ریسٹورنٹ پر کھانا کھایا۔ ہوٹل کی مالک آنٹی سادھنا نے کمپلیمنٹ میں تندوری چائے پلائی۔ تڑکے والی دال اور پراٹھا کھایا۔ انڈین عورتیں تڑکے والی دال خوب بناتی ہیں۔ اسی نے بتایا کہ پورے تھائی لینڈ میں حلال گوشت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔

صبح ہمارا سب میرین پارک جانے کا پروگرام تھا۔ بیالیس چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل اس پارک کے لئے سپیڈ بوٹ لی ہوئی تھی۔ دوپہر کا کھانا کشتی میں ہی کھایا جو پیکج کا حصہ تھا۔ ان جزیروں کے نام بہت مشکل ہیں۔ ان پر آبادی کا نام ونشان نہیں۔ ایک بڑے جزیرے پر ہم اترے اور پہاڑ کی چوٹی تک وہ جھیل دیکھنے گئے جو غاروں کے ذریعے سمندر سے ملی ہوئی ہے۔ یہاں ساحل بہت کم گہرا ہے اور سمندر میں نہانے کے لئے ایک محفوظ مقام بنایا گیا ہے۔ ہم بھی لائف جیکٹ پہن کر کافی دیر نہاتے رہے۔

آج چودہویں کی رات تھی۔ اور ہم نے کوہ فانگن جانا تھا، جہاں دنیا کی سب سے بڑی فل مون پارٹی ہرماہ کی چودہویں کو منائی جاتی ہے۔ کوہ فانگن جانے کے لئے ہم ایک جیٹی پر پہنچے جہاں سے ایک بڑی سپیڈ بوٹ میں بیٹھ کر کوہ فان گن جانا تھا۔ چودہویں کی رات تھی۔ سمندر میں مدوجزر عروج پر تھا۔ دس دس فٹ بلند لہریں اٹھ رہی تھیں، جن کے ساتھ کشتی اوپر اٹھتی اور ایک جھٹکے کے ساتھ نیچے گرتی۔ وہ میرے لئے تو ایڈونچر ہی تھا۔ مرد و زن چیخیں مار رہے تھے، جو خاموش تھے وہ دل ہی دل میں اپنی اپنی مذہبی دعائیں مانگ رہے تھے۔ جلد ہی یہ ایڈونچر اختتام پذیر ہوا اور ہم کوہ فانگن کے ساحل پر اتر آئے۔

جیٹی اور اس بیچ کے درمیان جہاں فل مون پارٹی برپا تھی، ہوٹلوں اور شراب خانوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ گلی کی نکر پر ٹکٹ دیکھ کر ہماری کلائی پر ایک نمبر لگا ہوا ربن باندھ دیا گیا۔ اس پارٹی کی ایڈوانس بکنگ کے بغیر اس میں شرکت نہیں کی جا سکتی۔

جیسے جیسے ہم گلی میں آگے بڑھ رہے تھے حیرت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اتنی بے ہودگی، بے حیائی اور بے شرمی زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ خواتین انتہائی مختصر لباس میں نظر آئیں۔ ایک دکان کے تھڑے پر پڑی الف ننگی گوری اپنے جسم کے مخصوص اعضا پر ٹیٹو بنوا رہی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ سامنے کھڑا سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔ اس کے ساتھ والی پب پر ایک لڑکی شراب کی چھوٹی بالٹیاں بیچ رہی تھی اور اعلان کر رہی تھی ایک بالٹی خریدیں اور مفت میں کس کریں۔ عارف کا دل مفت کس کرنے پر للچایا مگر شراب کی بالٹی کے اس کے پاس دام نہیں تھے۔

ایک لڑکی میرے ساتھ آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ میں نے سمجھا یہ بھی ٹیٹو بنوانا چاہ رہی ہوگی مگر وہ تو میرے ساتھ ہاتھی پر بیٹھنے والی ماریا تھی۔ اس جزیرے پر شاید وہ اکیلی لڑکی تھی جو جینز اور فل شرٹ میں تھی۔ اس نے ہیلو کیا تو میں نے اسے پہچانا۔ وہ آج بھی اکیلی تھی۔ ریمنڈ ابھی تک لا پتہ تھا۔ اس نے پولیس رپورٹ بھی کرائی تھی مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔ ماریا میرے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ساحل تک آگئی۔ ساحل پر چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، ماریا کا دل مگر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔

ساحل پر دور دور تک ہوٹلوں کے ڈانس ڈیک بنے ہوئے تھے۔ کوئی پچیس ہزار کے قریب مرد و زن، ڈرم بیٹ پر ناچ رہے تھے۔ جو نئے جوڑے آ رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں شراب کی چھوٹی بالٹیاں تھیں۔ اس جزیرے پر میرے اور ماریا کے علاوہ ہمارے گروپ کے چھ افراد تھے جو پچیس ہزار مرد و زن کو ساحل پر چاند کی روشنی میں ناچتا دیکھ رہے تھے۔ ماریا نے اپنے بیگ سے وائین کی دو بوتلیں نکالیں اور ایک مجھے پکڑادی، دوسری وہ غٹاغٹ پی گئی۔

میرے ہاتھ میں بھری بوتل دیکھ کر کہنے لگی ”پیتے کیوں نہیں۔“ میں نے کہا ”نہ میں پیتا ہوں نہ مجھے ناچنا آتا ہے۔“ وہ حیران ہو کر بولی پھر یہاں کیا کرنے آئے ہو۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میرے ذہن میں تو میلوں ٹھیلوں کا وہ تصور تھا جو پنجاب کے کسی میلے کا ہوتا ہے۔ اس نے اصرار نہیں کیا، دوسری بوتل بھی گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔ وہ جذباتی ہو رہی تھی۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ساحل پر ناچتے جوڑوں کے آگے پانی کی لہروں میں چلتی جارہی تھی۔

اس کے ہاتھوں پر پسینہ اس کے اندر کے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا۔ مجھے اس پر ترس بھی آرہا تھا اورہمدردی بھی ہو رہی تھی۔ مجھے اس ماحول سے گھن آرہی تھی۔ ابھی دو گھنٹے یہاں گزارنے تھے۔ گا ئیڈ نے خبردار کیا تھا کہ رش والی جگہ سے دور اکیلے نہیں جانا۔ میں تو رش میں ہی ماریا کے ساتھ اٹک گیا تھا۔ اچانک ماریا نے میرا ہاتھ چھوڑا اور ریمنڈ ریمنڈ پکارتی ایک توانا اور خوبرو نوجوان کی طرف بھاگی۔ ریمنڈ کسی اور لڑکی کے ساتھ شراب کے نشے میں دھت، دنیا سے بے خبر ناچ رہا تھا۔

ماریا نے اس کی کمر پر مکّے برسانے شروع کردیے۔ وہ مکے بھی مار رہی تھی اور فرنچ میں نہ جانے کیا کہ رہی تھی۔ ریمنڈ بدستور ناچ رہا تھا۔ ماریا نے اپنا سلیپر اتارا اور ریمنڈ کی مرمت شروع کر دی۔ ماریا نے زخمی شیرنی کی طرح اس کے جسم پر دانتوں سے کاٹا۔ وہ مار مار کر تھک گئی مگر ریمنڈ نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ سینکڑوں لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ وہ سب تماشائی تھے۔ ماریا اونچی آواز میں رو رہی تھی، اس نے رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھا، میں آگے بڑھ کر اس کو تھامنے والا ہی تھا کہ وہ بے ہوش ہو کر نیچے گر گئی۔ کوئی سو گز کے فاصلے پر میڈیکل کیمپ لگا ہوا تھا۔ میں بھاگا اور مدد کے لئے کیمپ سے میڈیکل سٹاف کو لے آیا۔ وہ اسے سٹریچر پر ڈال کر کیمپ لے گئے، میں بھی ساتھ تھا۔ تھوڑی فرسٹ ایڈ کے بعض ماریا کو بڑے ہسپتال شفٹ کردیا گیا۔

ہماری واپسی بوٹ کا وقت ہو گیا تھا۔ صبح کے پانچ بج رہے تھے اور صبح آٹھ بجے ہم نے بذریعہ فیری سورت تھانی اور پھر آگے بذریعہ بس کربی جانا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).