ہندوستان پر حملے کے روسی منصوبے


اکتوبر 1917 کے انقلاب کے بعد روس میں اشتراکیوں (کمیونسٹوں ) کی حکومت قائم ہو گئی تھی، جس کے سربراہ ولادیمیر لینن تھے۔ اس کامیابی کو اشتراکی عالمی اشتراکی انقلاب کا محض پہلا قدم تصور کرتے تھے۔ لینن کے ساتھیوں نے یورپی حمایتیوں کی حمایت کرنے پر زور دیا تھا تاہم وہ غلطی پر تھے۔ جرمنی، ہنگری اور سلاویکیہ میں ”سوویت جمہوریائیں“ قائم کیے جانے کی کوششیں ناکام ہو گئی تھی اور ایسا کرنے والے کو ملیا میٹ کر دیا گیا تھا۔ یورپ کو انقلاب برآمد کرنے کی ناکام کوشش کے بعد، بالشویکوں نے ایشیا اور خاص طور پر ہندوستان پر توجہ دینا شروع کی تھی۔ انہوں نے ہندوستان کے عوام کی برطانوی نوآبادکاروں کے خلاف آزادی کی تحریک کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

پانچ اگست 1919 کو ”سرخ فوج“ کے کمانڈر جنرل لیو تروئتسکی نے روسی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو ایک خفیہ رپورٹ برائے غور پیش کی تھی۔ اس میں وسط ایشیا اور افغانستان کے راستے برطانیہ کے زیر نگین ہندوستان پر سرخ فوج کی جانب سے دھاوا بولنے کی تجویز دی گئی تھی۔ تروئتسکی کا منصوبہ تھا کہ یورال یا وسط ایشیا میں ”ایشیائی انقلاب کی سیاسی انقلابی اکادمی اور عسکری مرکز“ قائم کیا جائے۔ ان کو یقین تھا کہ ہندوستان میں بھڑکائی گئی انقلاب کی آگ یورپی دارالحکومتوں کو لازماً اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

” پیرس اور لندن کا راستہ افغانستان، پنجاب اور بنگال کے شہروں سے ہو کر گزرتا ہے“ شعلہ صفت انقلابی نے ثابت کیا تھا۔ تروئتسکی نے تجویز دی تھی کہ تیس سے چالیس ہزار افراد پر مشتمل گھڑ سوار فوجی دستے تیار کیے جائیں۔ ان کو اسمیں کوئی شبہ نہیں تھا کہ راستے میں ان کے ساتھ ہزاروں نئے افغان اور ہندوستانی جنگجو بھی شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ گنگا کے کناروں پر انقلاب کا پرچم لہرا دیا جائے گا۔ بین الاقوامی فوج انگریزوں کو ملیا میٹ کر دے گی۔ ہندوستان آزاد اشتمالی (سوشلسٹ) جمہوریہ بن کر ابھرے گا۔ اس کے بعد انقلاب افغانستان، فارس اورایشیا کے دیگر ملکوں میں پھیلتا چلا جائے گا۔ تاہم تروئتسکی نے کہا تھا کہ یہ سارا منصوبہ ”فرضی اور تیاری پر مبنی نوعیت کا حامل“ ہے، جس پر تفصیلی کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔

برطانیہ کی عظمت کو پامال کیے جانے کی خاطر ہندوستان پہ دھاوا بولے جانے کا تصور روس میں تروئتسکی سے کہیں پہلے سے موجود تھا۔ روس کے شہنشاہ پاویل اوّل نے 1801 میں فوج کو ہندوستان پہ حملہ کرنے کی خاطر تیار ہونے کا حکم دے دیا تھا۔ گھڑ سوار فوج کو اسی راستے سے گزرنا تھا، جو ایک صدی سے زائد گزرنے کے بعد تروئتسکی نے تجویز کیا تھا یعنی وسط ایشیا اور افغانستان کے راستے۔ روس کے گھڑ سوار دستے اپنے ملک کی سرحدوں کو بھی عبور نہیں کر پائے تھے کہ روس میں محلاتی سازش کامیاب ہو گئی تھی۔ پاویل اوّل کو مار دیا گیا تھا۔ ان کے جانشین شہنشاہ الیکساندر اوّل نے مہم ختم کرنے اور فوج کو واپس بلا لینے کا حکم دے دیا تھا۔ برطانویوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔

انیسویں صدی کے آخری نصف میں برطانیہ اور روس کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ ان حالات میں روس کے جنگی ماہرین نے ایک بار پھر ہندوستان، جسے ملکہ برطانیہ ’تاج برطانیہ کا قیمتی ترین‘ موتی کہا کرتی تھیں، کو ہدف بنانے کا سوچا تھا۔ اس معاملے پر بات آگے نہیں بڑھی تھی لیکن اس سے لندن کے اعصاب ضرور جھنجھنا اٹھے تھے۔ برطانویوں کو معلوم تھا کہ اگر ہندوستانیوں نے روسیوں کا ساتھ دے دیا تو ان کی حکومت خاک میں مل جائے گی اور برطانیہ اپنے تاج کے قیمتی ترین موتی سے محروم ہو جائے گا۔

تروئتسکی نے بلاشبہ تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اس لیے جانتے تھے کہ ان کا منصوبہ برطانیہ کے لیے کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے لیکن روس میں شدید خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ سوویت جمہوریائیں اپنے وجود کے لیے جھوجھ رہی تھیں چنانچہ ایسے حالات میں سرحد سے دور لڑائی کی جانی ممکن نہیں رہی تھی۔ سرخ فوج کو تمام سوویت ریاستوں کو روس کی سرزمین میں لوٹاتے ہوئے بھی کئی برس لگ گئے تھے۔ ”بحرالکاہل پہ جا کر ہمارا دھاوا تمام ہوگا“ خانہ جنگی کو ختم کرنے میں کامیاب ہونے والے سرخ فوج کے جوان گایا کرتے تھے۔ تاہم بحر ہند تک ان کا دھاوا نہ ہو سکا تھا یوں تروئتسکی کے منصوبے پہ عمل درآمد نہیں کیا جا سکا تھا۔

ایک چوتھائی صدی کے بعد ہندوستانیوں نے خود اپنے ملک کو نو آبادکاروں سے آزاد کرا لیا تھا۔ اپریل 1947 کو جب ابھی ہندوستان رسمی طور پر آزاد نہیں ہوا تھا اس نے سویت یونین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).