ملیحہ لودھی کو ہٹانے کا پس منظر اور منیر اکرم کی ’’گج وَج‘‘


اپنی ساری زندگی صحافت اور خاص طورپر خارجہ اُمور کی روزمرہّ تفصیلات کے بارے میں رپورٹنگ کی نذر کردینے کے باوجود میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ کچھ لوگ ریاستِ پاکستان کے لئے تقریباََ ناگزیر کیوں سمجھے جاتے ہیں۔منیر اکرم صاحب کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔جنرل مشرف کے دور میں چھ برس تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندہ رہے۔ ان کے ساتھ اس تعیناتی کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ بھی ہوا تھا۔ اس پر کمال مہارت سے پنجابی محاورے والی ’’مٹی‘‘ ڈال دی گئی تھی۔ان کے بجائے کسی اور سے مذکورہ واقعہ منسوب ہوگیا ہوتا تو ریٹائرمنٹ کے بعد شاید گمنامی ہی مقدر ہوتی۔

منیر ا کرم صاحب مگر خوش نصیب تھے۔ منصب سے فراغت کے بعد نیویارک ہی میں قیام پذیر رہے۔ ہمارے ایک معتبر انگریزی روزنامے کے لئے اتوار کے دن کالم لکھتے رہے ہیں۔ان کا اندازِ سخن بہت دھانسو ہے۔نہایت اعتماد سے اپنی تحریروں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کے پاس خارجہ اُمور سے متعلق ہر مسئلے کا شافی حل موجود ہے۔آصف علی زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں کو انہوں نے مستقل تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہمیں اس بات پر قائل کرتے رہے کہ یہ دونوں امریکہ سے مذاکرات کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔گوروں کے گویا تھلے لگ جاتے ہیں ہیں۔ان کا ’’احساسِ کمتری‘‘ پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے۔

عمران خان صاحب نے اس تناظر میں منیر اکرم صاحب کو ہرگز مایوس نہیں کیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہوئی وزیر اعظم کی حالیہ تقریر کو منیر اکرم صاحب نے بلکہ قصیدہ گوئی کے لئے لازم تصور ہوتے تعریفی کلمات کے استعمال سے بھرپورانداز میں سراہا۔

پیر کی شام اچانک خبریہ آگئی کہ منیر اکرم صاحب کو ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی جگہ فوری طورپر اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب لگادیا گیا ہے۔جس انداز میں ان کی تعیناتی کا اعلان ہوا اس نے تاثر یہ پھیلایا کہ شاید نیویارک میں اپنے حالیہ قیام کے دوران وزیراعظم ڈاکٹر صاحبہ کی کارکردگی سے خفا ہوگئے۔ وطن لوٹتے ہی انہیں ہٹانے کا اعلان کردیا۔منیر اکرم صاحب کی تعیناتی کا جس انداز میں اعلان ہوا اس نے حکومت کے ناقدین کو یہ سوال اُٹھانے پر بھی اُکسایا کہ اگر عمران خان صاحب کا حالیہ دورہ نیویارک واقعی ’’تاریخی طورپر کامیاب رہا‘‘تو ڈاکٹر صاحبہ کو ہٹانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

غالباََ اس تاثر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملیحہ لودھی صاحبہ نے دو ٹویٹ لکھے۔ ان کے ذریعے تاثر یہ دیا کہ وہ بذاتِ خود اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کے منصب سے ریٹائر ہونا چاہ رہی تھیں۔یہ منصب چھوڑنے سے قبل مگر انہوں نے وزیر اعظم صاحب کے دورئہ نیویارک ختم ہوجانے کا انتظار کیا۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ اور میں انگریزی کے ایک روزنامہ میں اکٹھے کام کرتے رہے ہیں۔میں اس اخبار سے 1981 سے وابستہ تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ اس کے لئے لندن سے مضامین بھیجا کرتی تھیں۔1986 میں محترمہ بے نظیربھٹو صاحبہ کے ہمراہ پاکستان تشریف لائیں تو اس اخبار میں مستقل ملازمت اختیارکرلی۔میں The Nation میں چلاگیا۔ بعدازاں مجھے ان کی ادارت میں ایک اور انگریزی اخبار میں رپورٹنگ کا موقعہ نصیب ہوا۔

ذاتی طورپر میرے ساتھ ڈاکٹر صاحبہ کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ رہا ہے۔ان کے والد کی میرے سسر سے بھی پرانی شناسائی تھی۔یوں ہمارے مراسم خاندانی ہوگئے۔ میں ان مراسم کا احترام کرتا ہوں۔ان کی وجہ سے آنکھ میں جو شرم آجاتی ہے اس کے بوجھ تلے میں نے ڈاکٹر صاحبہ کی سفارت کارانہ کارکردگی کا کبھی تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔صحافیانہ اعتبارسے یہ بددیانتی یا بدنیتی کہلائی جاسکتی ہے۔

ذات کا رپورٹر ہوں مگر سعادت حسن منٹو نہیں۔منٹو صاحب نے ’’گنجے فرشتے‘‘ لکھے تو چراغ حسن حسرت اور باری علیگ جیسے قدآور مربیوں کو بھی نہ بخشا۔شاید اسی باعث تقریباََ جوانی میں انہیں پاگل خانے میں داخل کروانا پڑا تھا۔وہاں سے باہر آئے تو مایوسی اور تنہائی کے خوفناک حالات میں خون تھوکتے ہوئے اس دُنیا سے رخصت ہوگئے۔ منٹو کی حق گوئی سے لہذا مجھے بہت خوف آتا ہے۔مناسب منافقت سے کام چلاتے ہوئے ’’سیف -سیف‘‘ کھیلتا ڈنگ ٹپائو کالم لکھتا ہوں اور گوشے میں قفس کے بہت آرام محسوس کرتا ہوں۔

میرے اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کے ایک مشترکہ رفیق شاہین صہبائی بھی رہے ہیں۔وہ ایک زمانے میں بہت دھانسو رپورٹر مانے جاتے تھے۔گزشتہ کئی برسوں سے اب واشنگٹن میں مقیم ہیں۔منیر اکرم صاحب کی تعیناتی کے بعد انہوں نے بھی ایک ٹویٹ لکھا۔اس کے ذریعے تاثر یہ ملا کہ شاید ڈاکٹر صاحبہ کی ’’تنک مزاجی‘‘ ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔عمران خان صاحب نے اس کا نوٹس لیا اور نیویارک سے وطن لوٹنے کے بعد ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو فارغ کردیا۔خود غرض منافق ہوتے ہوئے میرے لئے شاہین صاحب کے ٹویٹ کے بعد یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے ازخود استعفیٰ دیا یا انہیں بطور سزا منصب سے ہٹادیا گیا۔

میرے لئے ویسے بھی اہم ترین بات منیر اکرم صاحب کا ریاستِ پاکستان کے لئے ’’ناگزیر‘‘ ہونا ہے۔مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے پاس وہ کونسی ’’گیدڑسنگھی‘‘ ہے جس کی وجہ سے جنرل مشرف کے بعد اب عمران خان صاحب بھی منیر اکرم صاحب کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کرنے کو مجبور ہوئے۔

منیر اکرم صاحب کے پاس موجود ’’گیدڑسنگھی‘‘ کی پہچان کے لئے یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہماری ریاست کی دائمی اشرافیہ کا ایک طاقت ور حصہ ہمیشہ بہت شدت سے یہ محسوس کرتا رہا کہ کشمیر،افغانستان اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پاکستان کا کیس ہراعتبار سے بہت مضبوط ہے۔ہمارے سفارت کار مگر ہمارے مؤقف کو عالمی طاقتوں اور اداروں کے روبرو مؤثر انداز میں پیش نہیں کرپاتے۔

اپنی ’’تنخواہوں اور مراعات کو ہمہ وقت ترجیح دینے والے‘‘ سفارت کاروں کا ذکر اسلام آباد کے کئی طاقت ور گھروں میں ہمیشہ بہت حقارت سے ہوتا ہے۔بہت حسرت سے اس خواہش کے اظہار کے ساتھ کہ ربّ کریم پاکستان کو ایسے سفارت کار عطا فرمائے جو پاکستان کا مؤقف عالمی اداروں میں بہت ’’دبنگ‘‘ انداز میں پیش کرسکیں۔

دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے ہمیشہ اس سوچ سے جان کی امان پاتے ہوئے اختلاف کیا ۔ انتہائی دیانت داری سے میں اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہوں کہ کسی بھی ریاست کے ’’قومی مؤقف‘‘ کی اخلاقی برتری والی کوئی شے موجود ہی نہیں ہوتی۔ وقت وقت کی بات ہے۔امریکہ اگر کہیں پھنس جائے۔ اپنے معاملات سدھارنے کے لئے اسے پاکستان کی ضرورت ہو تو ہماری ہر بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ہمارے حکمرانوں اور ریاستی عہدے داروں کی چاپلوسانہ پذیرائی ہوتی ہے۔امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد ہمیں بھلانے میں لیکن ایک منٹ بھی نہیں لگاتا۔

جنرل ضیاء کا زمانہ شاید میرے نوجوان قارئین کے لئے بہت قدیم محسوس ہوگا۔اسی باعث یہ لکھنے سے اجتناب برت رہا ہوں کہ ہمارے ایک بہت ہی دھانسو شمار ہوتے ایک اور سفارت کار صاحبزادہ یعقوب علی خان مرحوم کو ایک عالمی ادارے کی سربراہی سے محروم رکھنے کے لئے کیا سلوک ہوا تھا۔حالیہ تاریخ تک محدود ہوتے ہوئے مگر اصرار کرتا ہوں کہ نائن الیون کے بعد جب امریکہ کی بش انتظامیہ نے افغانستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا تو جنرل مشرف کی معاونت ضروری تصور ہوئی۔ ان کی حکومت نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں امریکہ سے تعاون کا فیصلہ کرلیا تو واشنگٹن ہی نہیں دیگر عالمی ادارے بھی ہمارے ساتھ ’’دوستانہ‘‘ ہوگئے۔اپنی اوقات سے بڑھ کر دعویٰ کررہا ہوں کہ اگر ان دنوں منیر اکرم صاحب کی جگہ مجھ جیسا دو ٹکے کا رپورٹر کوئی جگاڑ لگاکر اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب لگ جاتا تو سفارت کاری کے میدان میں پنجابی محاورے والی ’’پھٹیاں‘‘توڑتانظر آتا۔

اقوام متحدہ میں منیر اکرم صاحب کی ’’گج وج‘‘ کا اصل سبب ان کی ’’دبنگ‘‘ شخصیت نہیں بلکہ جنرل مشرف کی حکومت کا فراہم کردہ وہ تعاون تھا جو 2002سے 2008 تک ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے ضمن میں جاری رہا۔2008 کے بعد ’’رات گئی بات گئی‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔ افغانستان ایک بار پھر امریکہ کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔شاید اس کی وجہ سے منیر اکرم صاحب ایک بار پھر اپنی سفارت کارانہ ’’مہارت‘‘ ثابت کرتے نظر آئیں گے۔اس کے علاوہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).