عمران خاں کی تقریر پر تبصرے پر تبصرہ


راقم کو عمران خاں سے کوئی عقیدت تونہیں ہے لیکن محض ایک پاکستان سے محبت رکھنے والے کی حیثّیت سے اس کی تقریر پر معزز دانشور جناب مجاہد علی صاحب نے جو تبصرہ کیا ہے اس پر تبصرہ کرنا پڑ گیا ہے جو ذیل میں پیش خدمت ہے۔

:موصوف مذکور لکھتے ہیں

اس تقریر میں جن معاملات کو اور خاص طور سے کشمیر کے مسئلہ کو جس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے، کیا اس کے بعد دنیا کے سب رہنما عمران خان سے ملاقات کا وقت مانگنے لگیں گے کہ بتائیے کہ ہم یہ مسائل حل کرنے میں کس طرح تعاون کرسکتے ہیں؟

:اس سلسلہ میں خاکسار مکرم جناب حمید بھاشانی صاحب کے الفاظ میں عرض کرتا ہے کہ

۔ کشمیر کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر بھی ایک شہکار تقریر تھی۔ یہ ایک پر مغزاور جذبات کو جھنجھوڑ دینے والا خطاب تھا، مگر اس کا نتیجہ کچھ نہ نکل سکا۔ کشمیر پر جن ممالک کی خاموش رہنے کی پالیسی تھی، ان کی خاموشی نہ ٹوٹ سکی۔ ”

لہذامضمون نگار کے طنز یہ جملہ کے مطابق۔ ملاقات کا وقت مانگنے۔ کی توقع اگرچہ نہیں پھر بھی اس تقریر کو اگر تعصّب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس کی گونج کم از کم برِ صغیر کی تاریخ میں لمبے عرصہ تک سنی جاتی رہے گی۔

:مضمون نگار لکھتے ہیں کہ

۔ اس تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کی گئی۔

اگریہ بات درست ہے کہ کوئی نئی بات نہیں کی گئی تو اس قدر لمبا تبصرہ آپ کا پورانی بات پر چہ معنی دارد؟

البتہ یہ درست ہے کہ اس بار بات نئے انداز سے کی گئی ہے اور اس تقریر کا ڈھانچہ کافی مربوط اور الفاظ کا چناؤ بھی درست تھا۔ البتہ بعض پرانی باتیں نہیں دہرائی گئی تھیں۔ مثلاً۔ این آر۔ او۔ نہیں ہو گا۔ وغیرہ۔

:بقول مجاہد علی صاحب یہ کہ

۔ تقریر بھارت کی سفاکی اور دنیا کی لاتعلقی کی کہانی تو بیان کرتی ہے لیکن مسائل کا کوئی حل تجویز نہیں کرتی۔

اس کا جواب بھی محترم بھاشانی صاحب کے الفاظ میں یہی موزوں ہے کہ

۔ ”اقوام متحدہ جیسے ٹھنڈے ٹھارفورم پر کبھی کبھار ایک موثر اور دل کو چھونے والی تقریرکچھ مندوبین کے ضمیرضرورجھنجوڑ سکتی ہے، مگرجب کوئی قدم اٹھانے یا فیصلہ کرنے کا لمحہ آتا ہے، تو یہ لوگ اپنے ضمیر کی آواز کے بجائے اپنے اپنے ملک کے سیاسی اور معاشی مفادات کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر جیسے الجھے ہوئے اورجذباتی مسئلے کے کسی باعزت حل کے لیے تقریر کے ساتھ ساتھ ایک پس پردہ خاموش اور سنجیدہ سفارت کاری کی ضرورت ہے“۔ (نوٹ یہ مضمون تقریر سے پہلے کا لکھا ہے )

:مجاہد صاحب کا یہ طعنہ کہ

۔ اگر صرف شہروں میں آلودگی اور پلاسٹک کے تھیلوں سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہی کر لیا جائے تو پاکستان کو چوٹی کے ماحول دشمن ملکوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

یقیناً اگر پاکستان کو چوٹی کے ماحول دشمن ملکوں میں شمار کیا جا سکتا ہے اور یہ بات عمران کے لئے باعث شرم قرار پاتی ہے تو اس تقریر سے صرف ایک سال پہلے صورتحال بھی تو بہتر نہیں تھی۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہد صاحب سابق حکمرانوں کو بھی ساتھ ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے خوب ڈانٹتے۔

:فرماتے ہیں آگے چل کر مجاہد صاحب کہ

۔ یہ دلیل انتہائی بودی اور کمزور ہے کہ مغربی ممالک کے قوانین کی وجہ سے ان املاک اور دولت کو واپس نہیں لایا جاسکتا جو بدعنوان لیڈر ملک سے باہر بھیج چکے ہیں اور جن کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے۔ یہ انتہائی غیر واضح بیان دراصل اپنی نا اہلی اور سیاسی غلط بیانی کو چھپانے کے لئے ایک نئے جھوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت نے جو قرضے لئے ہیں اور اس کے باوجود جس طرح قومی پیدا وار کی شرح میں کمی واقعہ ہوئی ہے، اس کے اعداد و شمار ہی عمران خان کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔

! جناب مجاہد صاحب

مغربی ممالک کے قوانین ترقی پذیر ممالک کے بد عنوان لیڈروں کے کالے دھن کے لئے جنت نظیر ہیں۔ جس کے دستاویزی ثبوت بھی مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ عمران سے الفت کی غرض سے نہیں انصاف کی غرض سے یہ عرض ہے۔ منی لانڈرنگ کے لئے سہولت کاری میں ٹاپ کے پندرہ ممالک میں سے کم از کم چار مغربی ممالک ہیں۔

جہاں تک قرضے کا تعلق ہے عمران مطعون سے قبل مجاہد صاحب کی ممدوح سرکار نے صرف تین سال میں جو قرضہ لیا وہ سابقہ قرضے کا قریباً 32 بتیس فیصد کے لگ بھگ تھا۔ ان سے اگر حساب مانگیں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ یہ دلیل کہ وہ کھاتے تھے تو کچھ کر کے بھی د کھاتے تھے جو بعض لوگوں کی زبان پر ہے۔ یہ تو شراب کی بوتل پر حلال لکھنے سے اس کو جائز قرار دینے والی بات ہے۔ اور یہ دلیل مجاہد صاحب کی ہرگز درست نہیں کہ قومی پیداوار میں ترقی کی شرح میں کمی عمران کے دعوے کو غلط ثابت کرتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے مفاد کی خاطر کرپٹ حکمرانوں کو سہولت فراہم کرتے ہیں۔

: بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اور دولت کی منتقلی کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے سارا قصور ایک سال سے حکمران عمران کی جھولی میں ڈالتے ہوئے مضمون نگار رقم طراز ہیں

۔ بدعنوانی اور ترقی پذیر ملکوں کی دولت کو ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کرنا ایک سنگین معاملہ ہے جس کا تعلق صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ دنیاکے بیشتر ترقی پذیر ممالک کو اس مشکل کا سامنا ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے مغربی ممالک کو بھی اپنے زیر انتظام بنکنگ نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس مسئلہ کی اصل جڑ ان ممالک کے قوانین اور طریقہ سیاست میں مضمر ہے جو اپنے ملکوں کے نظام کو درست کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے۔ عمران خان خود ہی بتا دیتے کہ انہوں نے ایک سالہ دور حکومت کے دوران اس کجی کو درست کرنے کے لئے ملکی قوانین میں کیا تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔

بھائی صاحب! ایک سال میں تو کھجور پر بھی پھل نہیں لگتا۔ ویسے اگر اقدامات بیان کیے جاتے تو تقریر اورلمبی ہو جانی تھی حالانکہ موجودہ تقریر کی لمبائی بھی مضمون نگار پر گراں گزری ہے۔ یہ تو بیگمات والا اعتراض ہے کہ آٹا کیسا لے کر آئے ہیں ساری روٹیاں جل گئی ہیں۔

:مجاہد صاحب کی یہ تنقید کہ

۔ عمران خان دوسروں پر تیر اندازی کرتے وقت اگر پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال کے بارے میں کوئی خوش گوار معلومات فراہم کرتے یا یہی اعلان کردیتے کہ توہین مذہب کے الزام میں برس ہا برس سے پاکستانی جیلوں میں ’انصاف‘ کے منتظر درجنوں لوگوں کو رہا کیا جائے گا یا ان کے مقدمات کا ایک خاص مدت میں فیصلہ کروایا جائے گا تو بھی یہ تسلیم کیا جاسکتا تھا کہ عمران خان کی تقریر سیاسی گفتگو کی کرتب بازی کی بجائے ایک سچے انسان اور مسلمان کی آواز ہے۔

! جناب عالی

یہ صحیح ہے اس ایک سال میں اگر سالہا سال سے ناحق مقدمات میں ملوّث صرف چند ایک بے گناہ لوگ ہی رہا ہوئے ہیں۔ لیکن اس پر تو مضمون نگار کو تو ان۔ مسکینوں کے عرصہ اسیری کے دور کے حکمرانوں۔ پر تنقید کرنی چاہیے تھی۔ بجائے یہ لکھنے کے کہ ”عمران خان کو بتانا چاہیے تھا کہ ان کی حکومت اس شخص کے ان گمشدہ 17 برس کے ازالے کے لئے کیا ذمہ داری قبول کرے گی“۔ یہ سترہ سال۔ جن کا دور حکومت تھا ان کی بھی تو اخلاقی ذمہ داری تھی۔ ان ہکمرانوں سے صرفِ نظر تو ان سے اندھی محبت کی علامت ہی لگتی ہے۔

:مضمون نگار بجا طور پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ

۔ کیا دنیا کے تمام مذہبی یا غیر مذہبی گروہوں کو کسی زیادتی کی صورت میں خود کش بمبار بننے کا حق حاصل ہو جاتا ہے؟

جس کا جواب کوئی بھی معقول شخص بادی النظر میں ”ہاں“ میں نہیں دے سکتا لیکن اگر دنیا کی عظیم طاقتیں اس کی رہنمائی اور سہولت فراہم کریں جس طرح سوویت یونین کو نکالنے کے لئے کیا گیا تو اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا ممکن ہے۔ جب اپنے پیاروں پر ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کے نتیجہ میں موت زندگی سے زیادہ آسان ہو جائے تو اس حق کاحاصل ہو جانا سمجھا جانا ممکن ہے۔ اس کا قطعی اخلاقی جواز بے شک نہیں ہے۔

:یہ اعتراض مجاہد صاحب کا کہ

۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران البتہ انہوں نے کشمیر ی مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا وہ کسی کمتر خدا کے بچے ہیں‘ ۔ سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالت زار پر عمران کی خاموشی پر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا چینی مسلمان کسی ’کمتر خدا‘ کو مانتے ہیں؟

مجاہد صاحب کو یہ تقابل کرتے ہوئے کشمیریوں کی تازہ صورتحال پر اس طرح بے حسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بے شک سنکیانگ میں مسلمانوں کی حالت قابلِ توجہ ہے لیکن عمران کی نگاہ میں اپنے گھر کے سامنے معاملہ کو اولیّت دینا ایک طبعی امر تھا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ مضمون نگار نے فلسطین کے حوالے سے صرف نظر کیا ہے۔

عمران خان کی تقریر جنگ کی نوید تھی تو مودی نے اپنی بات ’یدھ نہیں بدھ‘ (یعنی جنگ نہیں امن چاہیے ) پر ختم کی۔

محترم بھائی مجاہد صاحب

اگر یہ تقریر جنگ کی نوید ہے تو مودی کی تو کشمیر میں کارروائی عملاً ایک جنگ ہے جس میں جانوں اور مال کا نقصان ہو بھی رہا ہے آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ بغیر اعلان جنگ جو مودی کے شروع کر رکھی اس کی طرف نگاہ نہیں گئی۔ عمران کی جو بات جنگ کی نوید کی مظہر تھی وہ آپ نے نہیں بیان کی۔ پھر وضاحت کر دوں کہ عمران سے کوئی عقیدت نہیں۔ محض انصاف کی غرض سے آپ کے تعصّب کی تردید کی جارہی ہے۔ مودی کی نازیانہ نظریاتی اٹھان پر بھی اگر موصوف نگاہ رکھتے تو شاید عمران دشمنی کا اس قدر اظہار نہ کرتے۔

:مضمون نگار کی یہ خوش خیالی ہے کہ

اقوام متحدہ کے اجلاس اور دنیا کے دارالحکومتوں میں بیٹھے ہوئے رہنماؤں نے برصغیر کے دونوں لیڈروں کی باتوں کا جائزہ لیا ہوگا اور اپنی رائے قائم کی ہوگی۔ جذبات کے معاملے میں سہج اور جنگ کے مقابلے میں امن کی بات، سیاسی شعور رکھنے والے کسی بھی شخص کو زیادہ اپیل کرتی ہے۔

لہذا محترم بھاشانی صاحب کا مضمون ایک بار پڑھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).