کتاب کی بے توقیری


اہل علم و ہنر و دانش تو معاشرے اور اقتدار کے مراکز میں بے وقعت تھے ہی لیکن کتاب کی بے توقیری ہمارے معاشرے کی جس بے حسی و بے بسی کی خبر دے رہی ہے اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ وسعت نظر رکھنے والے ایک ایسے صاحب بصیرت شخص نے حال ہی میں کتاب کی بے توقیری کی گواہی دی ہے جسے وجاہت مسعود ہماری دھرتی کا وہ گیانی اور مہاپُرش قرار دیتے ہیں جو ایک رات سے دوسری رات کو جنم لیتا دیکھ لیتا ہے انہوں نے ”اور جوتے نے کتاب کو دھکا دے دیا“ کے جس حادثے کا ذکر کیا ہے وہ ہمارے لئے کسی بڑے سانحے سے کم نہیں۔ شاید اسی لئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری دہائی دے رہے ہیں کہ سچ، رواداری اور انسانی اقدار کو زندہ رکھنا ہے تو کتاب کو جوتوں سے بچانا پڑے گا جنہوں نے کتاب پر زمین تنگ کر دی ہے۔

کتاب کی جس بے توقیری کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں اس میں کتاب کو جوتوں سے خطرہ نہیں ہے بلکہ ان جہلا سے خطرہ ہے جن کی لایعنی اور تعصبات و نفرت کو ہوا دیتی باتیں کتاب کا عنوان حاصل کر رہی ہیں اور دھڑا دھڑا نا صرف چھپ رہی ہیں بلکہ سادہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تک پہنچ کر انہیں علم و دانش سے دور کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔ قلم و قرطاس کو علم و دانش کے موتیوں کا امین بنانے کی بجائے اس سے اسلحے کاکام لیا جا رہا ہے۔ قرطاس کا دامن علم و دانش کے موتیوں سے بھرنے کی بجائے اسے جھوٹ، افترا، بہتان اور پروپیگنڈے سے آلودہ کیا جا رہا ہے۔ ان کتابوں کے عنوان دیکھیں تو بندے کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں مثلا طویل القاب کے ذکر اور خوبصورت تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا ہے ”فلاں کی تقریریں۔ “

طویل القاب رکھنے والے علم و دانش سے عاری لوگوں کی لا یعنی باتوں کو تحریر میں ڈھالنے کے لئے واجبی سے پڑھے لکھے لوگوں سے کام لیا جاتا ہے جو مذکورہ لوگوں کی مختلف مقامات پر کی گئی گفتگو کو سن کرتمام تر جزئیات کے ساتھ من و عن لکھ دیتے ہیں جو بعد میں کتاب کا روپ دھار لیتی ہے۔ اگر کبھی اردو بازار لاہور آپ کا جانا ہو تو تو بہت سی دکانوں پر ایسی ہی کتابوں کی بھرمار نظر آئے گی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خالص علمی نوعیت کی کتابیں بہت کم نظر آئیں گی اگر موجود ہوں بھی تو ایک یا دو سے زیادہ ایڈیشن سے آگے نہیں بڑھی ہوں گی اور زیور طباعت سے آراستہ ہونے کے بعد کئی سالوں سے اپنے مخاطب کا راستہ دیکھ رہی ہوں گی۔

جبکہ دوسری طرف طویل القاب رکھنے والے نام نہاد اہل علم کی تقریروں کی کتابوں کے ایڈیشن بعض اوقات 20 سے بھی تجاوز کرتے نظر آئیں گے۔ معاشرے میں موجود بچے کچھے مطالعہ کے شوقین افراد تک یہ کتابیں کسی نہ کسی ذریعے سے ضرور پہنچتی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سمجھدار اور پڑھا لکھا انسان ایسی کتابوں کے قریب بھی نہیں بھٹکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کتاب کی توقیر کو نقصان پہنچانے والی ان کتابوں نے ہمارے معاشرے پر جوبرے اثرات مرتب کیے ہیں ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ایسی ہی سطحی اور جھوٹ سے پُر کتابوں کی وجہ سے عام اور سادہ لوح لوگوں میں جو کتاب کا تصور ڈیویلپ ہوا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ عام اور سادہ لوح لوگوں کے نزدیک جو بات کسی کتاب میں آ گئی گویا وہ جھوٹ ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی لئے بہت سے لوگ آپ کو سوشل میڈیا پر ایک دوسر ے کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایسی ہی نوعیت کی کتابوں کو حوالے کے طور پر اچھالتے نظر آئیں گے۔ حتیٰ کہ جو لوگ پڑھنا بھی نہیں جانتے وہ بھی بعض اوقات خاص قسم کے خیالات کو سچا ثابت کرنے کے لئے ایسی ہی نوعیت کی کتابوں کو گھر کے کسی کونے میں چھپا کر رکھتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت حوالہ کے طور پر پیش کی جا سکیں۔

پاکستان بھر سے ان کتابوں کے سب سے بڑے خریدار اور مخاطب ایسے نو آموز مقرر اور خطیب ہوتے ہیں جنہیں سال بھر مختلف دینی، سیاسی اور قومی موضوعات کی مناسبت سے تقریریں کرنا ہوتی ہیں۔ یہ لوگ ایسی کتابوں کو خریدتے ہیں اور ان میں بیان کی گئی جہالت اور فرسودہ سوچ کو ملک کے کونے کونے میں پھیلاتے ہیں۔ ان نو آموزوں میں سے بہت سی مثالیں ایسی بھی ہیں کہ ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب یہ نو آموز اتنے مقبول ہو جاتے ہیں کہ ان کی کی گئی لا یعنی گفتگو بھی کتابوں کی شکل میں پیش کی جانے لگتی ہے۔ حتیٰ کہ ایسے خود ساختہ اہل علم کو اتنی بڑی تعداد میں ہمنوا میسر آ جاتے ہیں کہ ریاست کی رٹ کو چیلنچ کرنے تک کی ہمت پیدا کر لیتے ہیں۔ سوچ و فکر سے عاری خالی خولی الفاظ کی جگالی کے سفر سے لے کر بے روح کتاب کا روپ دھارنے والی ا یسی کتابیں جہالت اور نفرت پھیلاتے ہوئے معاشرے کو تقسیم کرتے ہوئے در حقیقت ”کتاب“ کو بے توقیر کر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).