قصور میرا ہے!


کبھی کبھی سوچتی ہوں ہماری بھی کیا زندگی ہے۔ وہی تھکے ہارے سونا اور صبح تھکے ہارے اٹھ کر دنیا داری نبھانا۔ اپنی زندگی سے نا خوش اور نا امید سا رہنا اور اپنی تمام تر ناکامیوں کا وجوہات کسی دوسرے کے سر تھوپ کر دوبارہ تھک کے سوجانا۔ ہمیں اپنی ذات سے نکلنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ ہم تو خود مسئلے مصائب کا شکار رہتے ہیں تو بھلا ہمیں کیا خبر کہ ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے اور ہمیں ضرورت ہی کیا ہے کسی کی طرف دیکھنے کی یا توجہ کرنے کا۔

چاہے کہیں سے آگ کے شعلے اٹھ رہے ہوں یا ماتم کی آواز آ رہی ہو ہم نے ٹھان لیا ہے کہ ہم نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کرلینا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر خود کو شور شرابا سے دور رکھنا ہے اور آل از ویل کا فقرہ دل میں دہراتے رہنا ہے تاکہ ہم کو ٹینشن اور ڈپریشن جیسی بیماری لاحق نہ ہو۔ یہ ہی ایک جمہوریت معاشرے کی خوبصورت تصویر ہے جہاں سب کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے چاہے بندہ رو کے کرے۔ لاش کاندھوں پر اٹھا کر کرے یا روڈ بلاک کرکے کرے۔

جمہوریت کا اصل مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے فعل اور اعمال میں آزاد ہیں۔ کسی کو روکنے کا یا کسی کو کچھ تلقین کرنے کا کوئی حق نہیں چاہے میرے تیز گاڑی چلانے سے کسی غریب کا بچہ کچلا جائے یا کوئی بچہ یا بچی میری وحشت کا ہی کیوں نہ شکار ہوجائے پر ہم رہیں گے آزاد ملک کے باسی۔ کوئی زیادہ سے زیادہ میرا کیا بگاڑ لے گا۔ پیسہ اور اثر و رسوخ کب کام آئیں گے اور کون سا ان لوگوں کے پاس بھی ٹائم ہے جن کا میں نے نقصان کیا ہے کہ کورٹ کچہری کریں۔

زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر خبر نے وائرل ہونا ہے۔ ایک ہاہاکار مچنی ہے۔ فیس بک، ٹویٹر اور ٹی وی چینلز میں پبلسٹی ملنی ہے اور پھر کسی دوسری دل دہلا دینے والی خبر نے اپنی جگہ بنا لینی ہے۔ جب تک آگ اور خون ہمارے گھر کی دہلیز کو نہیں چھو جاتی ہم نے اپنے گھروں کے پٹ اور دروازوں کو اچھے سے بند رکھنا ہے اور جب تماشا سج جائے تو تماشبین بن کے رونا اور سر پیٹتے رہنا ہے۔

آخر کب تک ہم یہ تماشبین کو تماشا سجا کے دیتے رہیں گے۔ کب تک اپنے خون میں بے بسی اور بے حسی کی افزائش کرتے رہیں گے۔ کب تک سوچ میں اور ارادوں میں تھکن کا بوجھ لادے صبح سے شام اور شام سے صبح کا سفر کرتے رہیں۔ کیوں ہم میں برائی کو برائی کہنے کی ہمت نہیں۔ کیوں ہم ان چیزوں کا دفاع کرنے میں اپنی ساری مثبت صلاحیتوں اور طاقت صرف کرتے رہیں گے صرف اس لئے کے ان برائی کو ہم نے خود اپنا کر اپنی گھر میں لا رکھا ہے یا پھر ہم نے سوچ رکھا ہے کہ ہم نے اپنی انسانی حقوق کی پامالی کرکے جھوٹی انا کو تسکین دینا ہے؟

آج قصور میں جو واقعات ہورہے ہیں کیا اس میں میں خطا وار نہیں؟ کیا اس معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں میرا کوئی کردار نہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ کسی معاشرے کی تشکیل اس میں رہنے والوں کی سوچ پر منحصر ہوتی ہے۔ چاہے سوچ تعمیری ہو یا تخریبی، اس کی عکاس وہاں پر بسنے والوں کے طور طریقے اور طرز زندگی کرتی ہے۔ ان گزرے ہوئے ماہ و سال میں ہم اسلامی اقدار تو درکنار، ہم انسانیت کو بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم نے آدمیت کو چھوڑ کر حیوانیت کو بھی شرمندہ کر دیا ہے۔ کیا بچوں کے ساتھ جو سلوک اس معاشرے نے روا رکھا ہے کیا ان کو دیکھ کر یا سن کر ہمارا دل نہیں لرزتا۔ کیا ہم نفسانی خواہشات میں اتنے بے قابو ہو گئے ہیں کہ ہمیں یہ تک ڈرنہیں کہ یہ بلا ہمارے آنگن تک نہ پہنچے؟

میں کچھ بھی سوچنے سے قاصر ہوں۔ مجھے صرف اندھیرے اور سناٹے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ شاید یہاں نا امیدی کی تاریکی اور بے حسی کی خاموشی کے سوا کچھ بھی ہے۔ میں ایک کنویں میں مینڈک کے طرح ہوں لیکن نہیں مینڈک بھی اپنی ٹرٹر سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ وہ ادھر ادھر چھلانگیں مارتا ہے اور جب پانی میں گرتا ہے تو ایک آواز ایک تحریک پیدا ہوتی ہے۔ لیکن میں نے خود کو منجمد کر رکھا ہے۔ کیا قصور کا بچہ میرا نہیں ہے۔

کیا جو سلوک اس معاشرے میں میرے آس پاس کے بچوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیا ان بچوں کی آہیں اور سسکیاں آتے جاتے محسوس نہیں ہوتی۔ ہوتی ہیں بالکل ہوتی ہیں ہمیں بھی ڈر لگتا ہے تبھی تو ہم دروازہ بند کرکے اور آنکھوں کو موند لیتے ہیں۔ ہم بزدل ہیں۔ ہم تماشبین ہیں۔ کیا روز قیامت ہم سے سوال نہیں ہوگا کہ جب تمہارے اختیار میں تھا کہ برائی کو روکو تو تم نے کیوں نہ اقدام کیا؟ تو ہم کیا جواب دیں گے۔ یہ کہ ہم بے بس تھے مجبور تھے؟ نہیں، بلکہ ہم بے حس تھے۔ والدین ہونے کے ناتے ہم کو ذمہ داری سونپی گئی کہ ہم اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔ ان کو ایک صحتمند ماحول دیں۔ ان کی تربیت و تعلیم کا اہتمام کریں۔ ان کی جان و آبرو کو محفوظ بنائیں اور ان کو معاشرے کا ایک بہتر فرد بنائیں۔

ہمیں اس کنویں سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی ہوگی۔ آئیے ایک ماں ایک باپ ایک بھائی اور ایک فرد ہونے کے ناتے ہم اٹھ کھڑے ہوں ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک مرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپا کے رکھتی ہے۔ ہم بھی اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپا کر رکھیں۔ خود کو چوکنا رکھیں۔ اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنا ہمارا فرض ہے جہاں ہمارے بچے سانس لیتے ہیں۔ اپنے اردگرد لوگوں پر نظر رکھیں۔ کسی غیر متعلقہ فرد کو اپنے علاقے یا گھر میں پناہ نہ دیں۔

اپنے بچوں کی خود چوکیداری کریں۔ ان کے خود محافظ بنیں۔ ہم کسی دوسرے کی تربیت کے ذمہ دار نہیں پر اپنے گھر کے مردوں اور بچوں کی اخلاقی تربیت ہم پر لازم ہے۔ ہمارے گھر کے افراد کس قسم کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ہمارے بچے کن دوستوں کے ساتھ اپنا وقت گزارتے ہیں ہمیں اس کا علم ہونا چاہیے۔ ہمیں خبر رکھنی چاہیے کہ ہمارے حلقہ احباب میں کون کون سے لوگ شامل ہیں۔ گھر میں روزانہ کی امور کو موضوع گفتگو بنائیے تاکہ آپ ان کی پریشانیوں اور ذہنی حالات سے واقف ہو سکیں۔ بچوں کو اپنا دوست بنائیے۔ یہ بچے بڑے قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کو آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ آئیے ابھی سے اپنی ڈیوٹی سنبھالتے ہیں جس طرح ایک فوجی اپنی سر زمین پر مامور نظر آتا ہے۔ اسی طرح ہم اپنے بچوں کو بچاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).