تاریخی خطاب اور کچھ تاریخی حقائق


یو این او میں وزیر اعظم کا تاریخی خطاب شبِ یاس میں ضیائے آس سے کم نہیں۔ پریشان حالیوں اور جرمِ ضعیفی میں گھِری قوم کے لئے بقا کا پیغام اور مایوسیوں کا کتھارسس ہے۔ یہ خطاب نہ صرف کشمیر اور پاکستان بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی ترجمانی کرتا ہے۔ تاہم محض پُر اثر تقاریر ہی ہماری منزل نہیں۔ آج کے دور میں مذہب، ثقافت، قوم یا خطابات کے بل بوتے پہ حیثیت اور حمایت کا ملناممکن نہیں رہا۔ اس کے لئے خود کو دنیا میں کسی نہ کسی عملی میدان میں منوانا پڑتا ہے۔

چین، جاپان، جرمنی، کوریا، ترکی امریکہ وغیرہ کے سربراہان نے کبھی بھی تقاریر پہ مطمئن ہونے پہ انحصار نہیں کیا بلکہ خطاب بھی اپنی قومی زبانوں میں سادگی سے کیا اور پوری توجہ اپنے گھر پہ مرکوز رکھی۔ معیشت، سائنس اورٹیکنالوجی میں لوہا منوایا اور دنیا کی ضرورت ٹھہرے۔ اگر خطابوں سے تقدیر بدلتی تو ہمارے لاکھوں شعلہ بیان علماء اور مقررین کایا پلٹ چکے ہوتے۔ بھٹو کی بھی یو این او میں واہ واہ ہوئی بلکہ قرارداد تک پھاڑ دی۔

جنرل ضیاء بھی اسلام کے ترجمان رہے بلکہ تقریر سے قبل جنرل اسمبلی میں تلاوتِ قران بھی کرواتے تھے۔ فی زمانہ دنیا میں مقام بنانے کے دو ہی طریقے ہیں۔ معاشی استحکام اور سیاسی استحکام جو وطنِ عزیز میں بری طرح سے مفلوج ہیں۔ ان حالات میں عمران خان جیسا دیانت دار لیڈر بھی بھنور سے کشتی کیسے نکال سکتا ہے؟ ۔ قرض کی مئے سے معاشی فاقہ مستی میں رنگ بھرنا سعیٗ لا حاصل ہے۔ اب خام مال کا دور نہیں۔ کسی صنعت میں نام پیدا کرنا اور دنیاکی مارکیٹ میں جگہ بنانا لازم ہے۔

تعلیم اور اس کی عملی ترویج معاشی ترقی کی بنیاد ہے جو ہمارے ہاں بس ڈگریوں کے حصول تک محدود ہے۔ دور جدید کی تمام اشیائے ضرورت کے لئے ہم دوسروں کے محتاج ہیں اور کوئی بھی ہمارا محتاج نہیں۔ پھر سرمایہ کاروں کو ہم پہ اعتماد نہیں کیونکہ یہاں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کا شدید فقدان ہے۔ کبھی بھی سیاسی قیادت آزاد فیصلے نہیں کر پائی۔ سیاسی عمل میں بار بار مداخلت ہوئی جس کے نتیجے میں نا اہلیت اور بد عنوانی سیاست میں سرایت کرتی گئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہر غلط فیصلہ اور پالیسی غیر سیاسی دور میں بنی۔ سیاسی ادوار میں لاکھوں قیدیوں کو واپس لایا گیا اور خود انڈین وزیر اعظم چل کر لاہور آیا۔ معاہدہ امن کیا اور مینار پاکستان کے احاطہ میں باون سالوں کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی مگر اب ہم سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم کادلیرانہ خطاب بھی غنیمت ہے۔ اب ناگزیر ہو چلا ہے کہ معاشی استحکام کے لئے آخری حد تک جایا جائے اور گڈگورننس کو یقینی بنایا جائے۔

سیاسی استحکام کے لئے تو سر دھڑ کی بازی لگانا ہوگی۔ ترکی کی عوام کی ٹینکوں کے آگے لیٹ جانے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اب دو کشتیوں کی سواری اور قوم کو تقسیم کرنے کی بری روش ترک کرنا ہوگی۔ اب طے ہونا چاہیے کہ ملک کو سیاسی عمل سے چلانا ہے کہ غیر سیاسی طریقوں سے آگے بڑھانا ہے۔ چلیں فیصلہ کرلیں کہ آمریت کو تسلسل کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں اور پھر سیاستدانیاں نہ دکھائیں۔ یا پھر عوامی نمائیندوں کو مکمل اختیار دیں اورانہیں غیر سیاسی حربوں، دھرنوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے بے بس نہ کریں۔

جن ممالک نے ترقی کی وہاں آمریت یا جمہوریت کا تسلسل رہا۔ مگر اپنے ہاں اس کے بر عکس ہی رہا اور 72 سالوں میں نصف عرصہ آمریت اور نصف بے چاری جمہوریت کے حصے میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اقوام عالم میں دوسروں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اب ہمیں سوشل میڈیاکی خود نمائی اور تقاریر کے سحر سے آگے سوچنا ہوگا ورنہ یاد رکھیں کہ تاریخ کبھی بھی سلطانی گواہ نہیں بنا کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).