آپ کی یہ ہمّت کیسے ہوئی؟


اس لڑکی کی باتوں سے میں دہل گیا۔

بظاہر ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ میں اس طرح سہم کر رہ جائوں۔ سیدھی سادی عام سی لڑکی۔ اسکول کی بچیّوں کی طرح ایک چوٹی گوندھی ہوئی۔ نہ کوئی اہتمام نہ طمطراق۔ مگر جب اس نے بولنا شروع کیا تو جو باتیں اس کے دل میں تھیں، زبان پر آگئیں۔ اس کی باتیں ایک پورے سیّارے کو دہلانے کے لیے بہت ہونی چاہئیں۔

میں ذکر کررہا ہوں گریٹا ٹونبرگ (یا گریٹا ٹون برگ) کی اس تقریر کا جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی سربراہانِ مملکت کے سامنے اس نے کی۔ شمالی یورپ کے سرد ملک سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی اس سترہ سالہ لڑکی نے موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت حال کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کی ہے۔ وہ بار بار یہ احساس دلا رہی ہے کہ اگر ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے اور بڑے پیمانے پر قانون سازی نہ کی گئی تو نہ صرف نتائج تباہ کن ثابت ہوں گے بلکہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی پھر واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔ جو کچھ کرنا ہے ابھی کرنا ہے، عالمی رہنمائوں نے جتنا کیا ہے، وہ کافی نہیں ہے۔ اس تباہی کے ذمہ دار وہی ہیں اور اس کا خمیازہ پوری انسانیت کو بھگتنا ہوگا اور اس سیارے پر رہنے والی تمام مخلوق کو بھی۔

اس لڑکی نے اپنے اسکول میں ہڑتال سے آغاز کیا اور آج وہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ عالمی مجرم ضمیر کی آواز جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا لیکن توجہ دینے سے سب گھبراتے ہیں۔

گریٹا ٹون برگ کی تقریر بہت موثر تھی۔ اس کے مختصر خطاب کا ایک ایک لفظ جیسے میرے دل میں اترا جا رہا تھا۔

’’یہ سب غلط ہے۔۔۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’مجھے یہاں نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اپنے اسکول میں ہونا چاہیے۔

جو سمندر کے دوسری طرف ہے۔ اس کے باوجود آپ سب لوگ ہم نوجوانوں کے پاس آتے ہیں امید حاصل کرنے کے لیے۔

آپ کی یہ ہمّت کیسے ہوئی؟‘‘

وہاں موجود حاضرین تالیاں بجا کر ان باتوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ مگر یہ بات تالیاں بجانے کی نہیں ہے۔ اس لڑکی کا چہرہ سختی سے بھنچا جارہا ہے جس وقت یہ الفاظ ادا کررہی ہے۔

’’آپ نے میرے خواب چرا لیے۔ آپ نے میرا بچپن چرا لیا ہے اپنے خالی خولی الفاظ کے ذریعے۔ اس کے باوجود میں چند ایک خوش قسمت میں سے ہوں۔ لوگ تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ پورے کے پورے ایکو سسٹم تباہ ہو رہے ہیں۔ ہم ایک وسیع پیمانے کی غارت گری کے دہانے پر ہیں۔ اور آپ محض باتیں کر سکتے ہیں، پیسوں کی باتیں، ابدی اقتصادی ترقی کے بارے میں پریوں کی کہانی سنا سکتے ہیں۔ آپ کی ہمّت کیسے ہوئی؟‘‘

وہ سانس لینے کے لیے رکتی ہے اور حاضرین تالیوں کی گونج سے اس کے الفاظ کا استقبال کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے آنسو روک رہی ہے۔ اپنے غصّے اور اشتعال کو روک رہی ہے جو پھر بھی اس کے الفاظ سے ٹپک رہا ہے۔

’’آپ کی ہمّت کیسے ہوئی؟‘‘

چہرے پر غیظ و غضب کی تحریر لیے وہ کہہ رہی ہے کہ ’’تیس سال سے زیادہ عرصہ سے سائنسی حقائق پوری طرح شفاف اور واضح رہے ہیں۔‘‘ آپ میں یہ ہمّت کیسے ہوئی کہ آپ اس سے نظریں چرا لیں اور یہاں آ کر یہ کہہ دیں کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کافی ہے۔ جب کہ جو حل درکار ہیں ان کی سیاست کہیں دیکھنے کو بھی میسر نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ ہماری بات سُن رہے ہیں اور فوری عمل کی ضرورت کو سمجھ رہے ہیں۔

لیکن میں چاہے جس قدر بھی افسوس اور غصے کا اظہار کروں، میں یقین نہیں کرنا چاہتی، کیوں کہ اگر آپ واقعی اس صورت حال کو سمجھتے اور پھر بھی عمل کرنے سے قاصر رہتے تو آپ شر اور بدی کی علامت ہوتے اور یہ ماننے کے لیے میں تیار نہیں ہوں۔‘‘

شاید اس کی پوری گفتگو میں منفی عمل کا یہ اعلان واحد امید افزا بات ہے۔ لیکن تالیوں کی گونج میں وہ بات جاری رکھتی ہے۔

’’آپ ہمارے سامنے ناکام ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ آپ نے کیا غداری کی ہے۔ مستقبل کی نسلوں کی نظریں آپ کی طرف ہیں۔ اور اگر آپ ہمارے لیے ناکام ہونے کا انتخاب کریں تو ہم آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ آپ کہ بچ کر نکلنے نہیں دیں گے۔

آج اور ابھی یہ موقع ہے کہ ہم لکیر کھینچ رہتے ہیں۔ دنیا جاگ رہی ہے۔ ایک تبدیلی آرہی ہے، چاہے آپ اس کو پسند کریں یا نہ کریں۔۔۔‘‘

ان الفاظ کے ساتھ وہ شکریہ ادا کرتی ہے اور اپنی جگہ واپس جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

آدھی سے زیادہ دنیا کے فاصلے پر اپنی میز کرسی پر بیٹھا ہوا جیسے میں سُن ہو کر رہ گیا ہوں۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اتنی مختصر اور ایسی موثر تقریر سننے کا اتفاق کم ہوا ہے۔ ایک ایک لفظ اپنی جگہ اٹل۔ اپنے الفاظ میں دہرا کر میں اس کا حق بھی ادا نہیں کرسکتا۔

یہ آج کی آواز ہے، آج کی نسل کی آواز جو دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔

اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام عالمی رہنمائوں کے سر شرمندگی سے جھک جاتے۔ وہ ضمیر کی آواز پر عمل کرتے۔ ان کے دستخط ایک نئے معاہدے پر ثبت ہوتے کہ اس لڑکی کی کاوش بے کار نہیں گئی۔ اس نے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔

بعض جگہ اس کا بالکل الٹا اثر ہوا۔ میں حیران تو پہلے ہی تھا، یہ دیکھ کر حیران پریشان ہوگیا۔ ایک صاحب نے فیس بک پر لکھا کہ ان کو نظر آرہا ہے کہ اس لڑکی کے ماں باپ اداکار ہیں اور انھوں نے اس کی تربیت کر رکھی ہے۔

ارے بھئی، آپ نے اس کے الفاظ اور ان میں موجود پیغام بالکل نہیں سنا؟ کیا آپ کو اداکاری نظر آ رہی ہے؟

اپنی عادت کے برخلاف میں نے ان صاحب کی پوسٹ پر اپنی اسی رائے کا اظہار کردیا۔ ذرا دیر میں پھر جواب آگیا، کیا بچّوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا درست ہے؟

جی میں آیا کہ پھر پوچھوں کہ بچوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا شکار بنانا کس حد تک درست ہے۔

لیکن میں نے جواب نہیں دیا کہ ذرا دیر میں اندازہ ہوگیا۔ گریٹا کی تقریر پر نفرت، حقارت، طنز اور تصخیک کے پے در پے حملے سامنے آنے لگے۔ اتنے زیادہ اور ایسے شدید کہ کچھ نہ پوچھیے۔

سب سے زیادہ تکلیف مجھے ان الزامات پر ہوئی جو گریٹا کی بیماری کا نام لے لے کر اور اس کی طرف انگلیاں اٹھا کر مسلسل لگائے جارہے تھے۔ بیماری کا لفظ میں نے غلط لکھا، مجھے کہنا چاہیے صحت کی حالت یا جسمانی حالت۔ گریٹا ٹون برگ ایسپرجرز (Aspergers) سنڈروم نامی حالت میں مبتلا ہے جس کو وہ خود اپنی سپرپاور قرار دیتی ہے مگر اس کی بدولت اس کے مخالفین، جن میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے اور ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے صریح انکار کرنے والے اینڈریو بولٹ نمایاں ہیں، اس کو ذہنی صدمے کا شکار اور freakish قرار دے رہے ہیں۔

گریٹا کی شکل صورت اور انداز پر اعتراضات اس لیے ہورہے ہیں، اس نے خود بھی اندازہ لگا لیا ہے کہ اس کے پیغام کو نظر انداز کرنے کی سب سے آسان صورت یہی ہے۔ وہ جس صورت حال کے بارے میں بات کر رہی ہے، اس سے آنکھیں چرانے کی یہی صورت باقی ہے۔

گریٹا کا لب و لہجہ چغلی کھا رہا ہے کہ انگریزی اس کے لیے پہلی زبان نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنا مافی الضمیر بڑی خوبی سے ادا کرتی ہے۔ زبان اس کا راستہ نہیں روکتی بلکہ وہ اس کو اپنی بات پوری کرنے کے لیے کام میں لے آتی ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم اپنے بعض رہنماؤں کی انگریزی پر صدقے واری ہوئے جاتے ہیں اور بہت فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے کیسی اچھی انگریزی کا مظاہرہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ہم محض انگریزی میں روانی کی داد دے رہے ہیں، گفتگو کے مواد پر نہیں۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ انگریزی ان لوگوں کے لیے دوسری نہیں، پہلی زبان ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک خاص مابعد نو آبادیاتی نظام کے ساختہ و پروردہ ہیں۔ دوسری زبان ان کے لیے وہ ہے جس میں ان کو اپنے ملک کے لوگوں سے بات کرنی پڑتی ہے اور جس میں قدرے تکلّف اور بہت تضّع کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ یعنی مقامی زبان کا نہ جاننا ان کی خوبیوں میں سے ایک ہے، گریٹا کی بات چیت ایسے روّیوں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر دیتی ہے۔

گریٹا کی باتیں بہت سے لوگوں کو پریشان کر رہی ہیں۔ پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی سے دوچار ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں  پے در پے بارش ہوئی، اس نے موسمی تبدیلی کو واضح کر دیا اور یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ حکام ان تبدیلیوں کے اثرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ساری دنیا کے اعلا حکام ناکردہ کاری کے اس جرم میں ملوث ہیں جس کی طرف گریٹا اشارہ کررہی ہے۔ اپنے جرم سے بچنے کے لیے جوابی الزام تراشی بہت آسان حربہ ہے۔

گریٹا ٹون برگ بعض لوگوں، خاص طور پر مرد حضرات کو اس قدر برافروختہ اور برہم کیوں کرتی ہے۔ اس کیفیت کو triggering effect  کا نام دیا گیا ہے اور لوگوں نے اس کی وجوہات کا تجزیہ کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کا انکار کرنا، اس کا سامنا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ گریٹا ایک اور تبدیلی کی نشان دہی کر رہی ہے۔ پرانے انداز کے سیاسی رہنمائوں کے برخلاف وہ نوجوان ہے اور ایسی عوامی احتجاج کی نمائندہ جو سائنسی علم سے مزّین ہے۔ وہ ڈر کر چپ ہو جانے والی نہیں ہے۔ اس کی باتوں کو نظر انداز کرنا اس سیّارے کے مستقبل کو دائو پر لگا دینا ہے۔ اسی لیے تو آپ اس سے ڈر رہے ہیں۔

اس پر مجھے ایک لڑکی اور یاد آگئی، اپنے ملک کی لڑکی۔ اس کا نام ہے ملالہ یوسف زئی۔ وہ جس طرح علم دشمنی، جہالت کے جبر کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوگئی، اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنے لگی اس پر بہت سے لوگ برہم ہوئے پھر معترض۔ اس کے بارے میں بھی یہ کہا گیا کہ اس کے والد اس کے پیچھے موجود ہیں۔ ضرور ہوں گے لیکن ہمّت بھرے الفاظ تو اس لڑکی کے اپنے تھے۔ جو لوگ اس کی باتوں سے ظاہر ہوجانے والی تلخ حقیقت سے گھبرا گئے، انھوں نے سب سے زیادہ بلند آہنگ لہجے میں اعتراض کیا۔

پاکستان میں ایسے لوگوں کو طرح طرح کے نام دیے گئے ہیں۔ ایک نام کشور ناہید کی نظم سے مجھے ملا ہے اور وہ یہاں لکھے دیتا ہوں__ وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے۔

ان لوگوں کا نام نہیں بدلا۔ بچی کا نام بدلتا رہتا ہے۔ کبھی ملالہ اور کبھی گریٹا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).