پاکستانی سیاست میں ’’آنیاں جانیاں‘‘


نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ میں تقسیم بہت شدید ہونا شروع ہوگئی ہے۔اس کا اثر قومی اسمبلی میں نمایاں نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔پیر اور منگل کے روز اس کے اجلاسوں کے دوران اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے بنچوں پر خال خال موجود افراد ایوان میں پیش ہوئے معاملات پر توجہ دینے کے بجائے گروپوں میں بٹے سرجھکائے ایک دوسرے کے ساتھ فکر مند سرگوشیوں میں مصروف رہے۔ کامل بے بسی ان کے چہروں پر عیاں تھی۔

نظر بظاہرپاکستان مسلم لیگ (نون) کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نمانواز شریف کی خواہش کے باوجود مولانا فضل الرحمن کے اس مارچ میں شرکت پر آمادہ نہیں ہورہے جو انہوں نے اس ماہ کے آخری ہفتے میں اسلام آباد لانے کا وعدہ کررکھا ہے۔ 1985سے ہماری سیاست میں متحرک ہوئے ان رہ نمائوں کا اصرار ہے کہ مولانا اپنے ’’لشکر‘‘ سمیت اسلام آباد پہنچ گئے تو اپنے اہداف اور ان کے حصول کی تکمیل کیلئے حکمت عملی بھی وہی طے کریں گے۔فرض کیا انہوں نے عمران خان صاحب کی طرح اس شہر میں طویل دھرنا دینے کا فیصلہ کرلیا تو مسلم لیگ کیلئے اس میں موجود رہنا ناممکن ہوجائے گا۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کے 2014 والے دھرنے کی طرح مولانا کا لگایا دھرنا بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا تو عمران حکومت مزید مضبوط ہوجائے گی۔

عمران حکومت کو مولانا فضل الرحمن کے دئیے دھرنے کی ناکامی کی صورت میں استحکام میسر ہوجانے کا خدشہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی لاحق ہے۔پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین اپنی جماعت کی ’’لبرل‘‘ پہچان اجاگر کرنے کو بھی بہت بے چین ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے ’’مذہبی کارڈ‘‘ کی حمایت کرنے کو ہرگز تیار نہیں ۔مسلم لیگ (نون) کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نمااور پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین اپنی اپنی وجوہات کی بناء پر مولانا فضل الرحمن کو نرم روی کی جانب مائل کرنے کو یکسوہوچکے ہیں۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ مولانا ان کی فکرمندی کا ادراک کرنے کو تیار ہوں گے یا نہیں۔

گزشتہ دو دِنوں سے کوئی ’’درمیانی راہ‘‘ نکالنے کی گفتگو بھی ہورہی ہے۔مجوزہ راہ کے مطابق مولانا فضل الرحمن اپنے دعویٰ کے مطابق ’’لاکھوں افراد‘‘ کے ہمراہ اسلام آباد میں داخل ہوجائیں۔ یہاں ایک بھرپور جلسہ عام کا اہتمام ہو۔ اس جلسے میں پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان بھی شریک ہوجائیں۔ اس جلسے کے اختتام پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تیار کردہ مطالبات کی ایک فہرست منظرعام پر لائی جائے۔ ان مطالبات کو ’’تسلیم‘‘ کرنے کیلئے ایک ڈیڈ لائن بھی طے کردی جائے۔ عمران حکومت کو اس کیساتھ ’’آخری وارننگ‘‘ دی جائے کہ اگر مقررہ تاریخ تک ان مطالبات پر عملدرآمد نہ ہوا تو اسلام آباد میں ’’لاکھوں افراد‘‘ پر مشتمل ایک اور اجتماع ہوگا۔وہ اجتماع مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنے کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ ’’درمیانی راہ‘‘ بظاہر معقول نظر آرہی ہے۔ مولانا اسے قابلِ قبول سمجھیں گے یا نہیں اس کے بارے میں کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔

مجوزہ ’’درمیانی راہ‘‘ کو معقول تصور کرتے ہوئے بھی میں اب تک یہ دریافت نہیں کرپایا ہوں کہ مارچ کے ضمن میں اکتوبر کے بجائے نومبر کا ذکر کیوں ہورہا ہے۔ مسلم لیگ (نون) کے جن لوگوں سے پرانی شناسائی ہے ان کی اکثریت ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نمائوں پر مشتمل ہے۔ان میں سے کئی لوگوں کے ساتھ تھوڑی بے تکلفی بھی ہے۔اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود مگر وہ میرے سوال کا تسلی بخش جواب فراہم نہیں کر پائے ہیں۔ان کے دلوں میں ’’اکتوبر کے بجائے نومبر‘‘ کے حوالے سے جو بات ہے اسے زبان پر لانے کی ہمت نہیں دکھاتے۔

ان کے دلوں میں موجود بات کا مجھے تھوڑا اندازا ہے۔دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے لیکن میں اسے بیان کرنے کی جرأت سے محروم ہوں۔یہ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہوں کہ 1990کی دہائی سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر پوری توانائی سے دمکنے والے چند ستارے اگر دل کی بات زبان پر لانے کی جرأت سے محروم ہیں تو میں بے وسیلہ دیہاڑی دار کالم نویس حق گوئی کی حماقت کیوں دکھائوں۔اپنے کام سے کام رکھوں اور بجلی کے بل کا انتظار کروں۔بجلی کے فی یونٹ میں 53پیسے کے اضافے کا اعلان ہوگیا ہے۔اب جو نرخ طے ہوئے ہیں وہ ایک سال تک لاگو رہیں گے۔ ڈنگ ٹپائو کالم لکھ کر ہر ماہ جورقم کماتا ہوں اس کا کم از کم 30فی صد بجلی کے بل ادا کرنے میں خرچ ہوجائے گا۔

اکتوبر کے آغاز کے ساتھ ہی اسلام آباد کے بیشتر گھروں میں پنکھے کا استعمال ختم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ایئرکنڈیشن چلانے کی ضرورت تو ہرگز محسوس نہیں ہوتی۔ اب فقط بتی اور فریج وغیرہ کے لئے بجلی کا استعمال ہوگا۔ سردیوں کی آمد سے بجلی کے بلوں میں کمی کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ منگل کی رات نئے نرخوں کے اعلان نے ختم کردی۔ نومبر کے وسط سے شاید گیزر اور ہیٹر کے لئے سوئی گیس کا استعمال ضروری ہوجائے گا۔ گیزر کو اس سال کے آغاز میں غلام سرور خان صاحب نے ’’عیاشی‘‘ قرار دیا تھا۔ اب کے برس بھی اس ’’عیاشی‘‘ کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔

دیہاڑی دار،تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباری طبقات کو مگر مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ مارچ یا دھرنے کو روکنے یا ملتوی کروانے کی تگ ودو میں مصروف سیاسی رہ نمائوں کی جانب سے مناسب توجہ مل نہیں رہی۔حکمران اشرافیہ کے باہمی جھگڑے ہیں۔ وزیر اعظم کے منصب سے کسے ہٹاکر کس کو لانا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم دیہاڑی داروں کو انتہائی غیر متعلقہ محسوس ہوتا ہے۔

اس کالم میں تواتر کے ساتھ یہ فریاد کرتا رہا ہوں کہ پاکستانی سیاست میں ’’آنیاں جانیاں‘ ‘ کئی حوالوں سے انتہائی فروعی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان نے ایک عالمی ادارے IMFسے ایک معاہدہ کیا ہے۔اس معاہدے پر کامل عمل داری کے لئے 39 مہینوں کی مدت طے ہوئی ہے۔یہ مدت ستمبر2022 میں ختم ہوگی۔اس مدت کے خاتمے تک بجلی اور گیس کے نرخوں میںاضافہ جاری رہے گا۔ ہماری ریاست کے تمام ادارے یکسو ہوکر اس دوران ہمارے بجٹ میں خسارے کو ختم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی ضد میں بھی مبتلا رہیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نمائوں اور پیپلز پارٹی کے جواںسال چیئرمین کی مشترکہ کاوشوں سے مولانا فضل الرحمن کے تجویز کردہ مارچ کو اکتوبر کے بجائے آئندہ برس کے فروری-مارچ تک مؤخر کروا بھی دیا گیا تو IMF کے تیار کردہ نسخے پر عملدرآمد جاری رہے گا۔ مذکورہ نسخے کے چند عناصر سے نجات حاصل کئے بغیر ہماری معیشت میں رونق کی بحالی ناممکن ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ مذکورہ نسخے کی کڑواہٹ میں تھوڑی کمی لانے کی گنجائش موجود ہے یا نہیں۔اگر کوئی گنجائش موجود ہے تو اسے بروئے کار لانے کے لئے کونسی حکمت عملی اپنائی جائے۔ میری عاجزانہ رائے میں فی الوقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ IMF کا تیار کردہ نسخہ ہے۔اس پر توجہ دی نہیں جارہی۔ ہمیں ’’اکتوبر نہیں نومبر‘‘ والے موضوع میں اُلجھادیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (نون) کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نما یہ امید بھی باندھے ہوئے ہیں کہ اکتوبر کے اختتام تک ان کے جیلوں میں محصور ہوئے ساتھیوں کے لئے بھی کچھ آسانیاں فراہم ہوجائیں گی۔ اللہ کرے کہ ان کی امید برآئے مگر ’’کیسے‘‘؟ اس سوال کا جواب موجود نہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب نے 27 ستمبر2019 کے روز اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو ’’تاریخی‘‘ خطاب کیا ہے ’’ کرپشن اور منی لانڈرنگ‘‘ اس کا دوسرا اہم ترین موضوع تھا۔ مغرب کو اس ضمن میں ہماری معاشی بدحالی کا ذمہ داربھی ٹھہرادیا گیا ہے۔وزیر اعظم کے مذکورہ خطاب کے بعد میں بحیثیت ایک ریٹائرڈ رپورٹر جبلی طورپر ہماری سیاست میں موجود مزید ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی گرفتاریاں دیکھ رہا ہوں۔ شاید اپوزیشن کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نما بھی ان گرفتاریوں کا انتظار کررہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).