نادرہ گئی نادرا، الٹا پڑگیا ماجرا


”یہ لوگ تصویر کے بہانے ہمیں بے پردہ کیوں کر رہے ہیں؟“ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ میں نے ٹشو پیپر کا ڈبا اس کی طرف بڑھایا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے آنسو صاف کرتی، اس کی آنکھیں مزید برس پڑیں۔ میں نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی مگر اب کے بار اس کی ہچکی بندھ گئی۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا اور باہر نکل آیا۔ کچھ دیر بعد جب دوبارہ اندر داخل ہواتواس کی حالت قدرے سنبھل چکی تھی۔

میں نے اس کی طرف استفسار طلب نظروں سے دیکھاتو اس نے کہا ”آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صرف بل پاس کرکے عورت کی عزت نفس کو محفوظ بنایاجاسکتا ہے؟“ میں نے کہا ”بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے ا وراگر حکومت کوشش کر رہی ہے تو ساتھ دینا چاہیے۔“ اس نے اپنے آنسوصاف کیے اور قدرے حیرانگی سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ”میں معاشرے کی نہیں حکومتی اداروں کی بات کررہی ہوں۔“ اب حیران ہونے کی باری میری تھی کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ خواتین کے ساتھ بدتمیزی عموماً نجی اداروں میں ہوتی ہے۔

میں نے کہا ”آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟“ وہ کہنے لگی ”کیا آپ کو معلوم ہے کہ نادرامیں کیا ہو رہا ہے؟ “ میں نے کہا ”آپ کا وقت ضائع ہورہا ہے۔ کیا آپ دوٹوک بات کریں گی کہ معاملہ کیا ہے؟“ اس بات کا اس پر خاطرخواہ اثرہوا۔ کہنے لگی کہ میرا نام نادرہ ہے۔ میرا شناختی کارڈ ایکسپائر ہو چکا تھا۔ میں اس سلسلے میں اسلام آباد میں واقع ایک نادراآفس چلی گئی۔ جب میں نادرا کی ایک عالیشان عمارت کے سامنے گاڑی سے اتری تو عمارت کی دلکشی دیکھ کردل میں طمانیت کا احساس ہواکہ حکومت عوام کو سہولیات کی فراہمی ممکن بنا رہی ہے۔

مگر جلد ہی یہ خوشی کافورہو گئی۔ آنے جانے کا ایک ہی دروازہ تھا جس کی وجہ سے مردوزن اس طرح گزررہے تھے کہ پہلو بچانامشکل تھا۔ جیسے تیسے اندر گئی تو کہا گیا کہ ٹوکن حاصل کریں۔ ایک بھائی ٹوکن مشین پر ”چڑھ“ کر ٹوکن دے رہے تھے۔ مگر تکلیف دہ بات یہ تھی کہ مشین ایک ہی تھی، گو اس کے ایک طرف مرد اور دوسری طرف سے خواتین نے لائن بنائی ہوئی تھی مگرجگہ تنگ ہونے کے باعث خواتین وحضرات کا اختلاط بھی ہورہاتھا اورتوتومیں میں بھی۔

ایک بھائی کی کہنی مجھے لگی تو مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا بھائی جان! آپ ذرا ہٹ کر کھڑے نہیں ہوسکتے؟ جواب سن کر میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ کہنے لگے ”آپ حکومت کو کہیں نا کہ عورتوں کے لیے الگ ٹوکن مشین رکھوادے۔ ہماراکیا قصور ہے؟ “ خیر! جیسے تیسے ٹوکن حاصل کرلیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ ”کوئیک سروس“ کا نتیجہ تھا کہ چار گھنٹے بعد نمبر آیا۔ اب یہاں ایک اور مصیبت سر اٹھائے کھڑی تھی اور یہی وہ خرابی ہے جس کا کسی کو احساس نہیں۔

مجھے جس کاؤنٹر سے بلاوا آیا وہاں ایک نوجوان ڈیرا جمائے بیٹھا تھا۔ اس نے کہا ”نقاب اتاریں۔“ مجھ پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ میں نے کہا ”بھائی جان! آپ مجھے کسی عورت کی طرف بھیج دیں تاکہ میری بے پردگی نہ ہو اور میں ایزی محسوس کروں۔“ کہنے لگا ”بی بی! ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ الیکٹرونک سسٹم ہے، اس لیے آپ کا پروسس یہیں مکمل ہوگا، اگر آپ کو اعتراض ہے تو گھر چلی جائیں۔“ نقاب اتارنا مجھے قیامت سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

مرتے مرتے یہ مرحلہ طے تو گیا مگر میں اتنی کنفیوژڈ ہوئی کہ تصویر بنواتے ہوئے لرزنے لگی تصویر کا زاویہ ٹھیک نہیں آرہا تھا اور ”نادرا“ کا بھائی مجھے کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ ”چہرہ اس طرف کرو، تھوڑادائیں طرف، نہیں بائیں طرف جھکاؤ دیں، تھوڑا اوپر، نہیں تھوڑا نیچے، ٹائم دیکھیں! دس منٹ ہو گئے ہیں، میں نے صرف آپ ہی کو تو ڈیل نہیں کرنا“ نہ جانے اس نے مجھے کتنی سنائیں مگر میں سنتی رہی اور اس حکومت کو دادبھی دیتی رہی جو پالیسی بناتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں کچھ لوگ پردہ بھی کرتے ہیں۔

جیسے تیسے کر کے پروسس مکمل ہوا۔ میں نے تین چار چینلز کو فون کیا اور اپنی شکایات بتائیں تاکہ حکومت اس چیز کا سدباب کرے مگر کسی نے اس خبر کو اہمیت نہ دی کیونکہ اس سے ریٹنگ نے کون سا آسمان چھو لینا تھا؟

اس نے بات ختم کی اور روتی ہوئی باہر نکل گئی۔ یہ صرف اس ایک لڑکی کی کہانی نہیں تھی بلکہ یہ اس معاشرے کی کہانی تھی جہاں قواعد وہ لوگ بناتے ہیں جن کو اس طرح کے حالات کا سامنا ہی نہیں ہوتا۔

اس نے کہا تھا ”حکومت تک میری یہ گزارشات پہنچا دیں کہ نادرا سمیت دیگر اداروں میں خواتین کے لیے الگ ٹوکن کارنر بنائیں جائیں تاکہ انہیں کسی کی کہنیاں نہ لگیں اورنہ ہی انہیں کسی نظروں کا شکار بنناپڑے۔ خواتین تصویر اور انٹرویو کے لیے بھی خواتین ہی کے پاس جائیں تاکہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ خدا کے لیے ہمارے پردے زبردستی نہ اتارے جائیں۔ ہمیں عزت کی زندگی سے محروم نہ کیا جائے۔ جو بھی ماڈرن بننا چاہے وہ شوق سے بنے مگر ہمارے چہروں کو بے آبرو نہ کیا جائے۔ ہم تصویر بنوانے سے انکاری نہیں ہیں مگر کیا یہ ضروری ہے کہ ہماری تصویر کوئی مرد ہی بنائے؟ اگر ہم کسی مرد کے سامنے نہیں آنا چاہتیں تو ہمیں کیوں مجبور کیا جارہا ہے؟ اس کے لیے حکومت کو الگ سے سٹاف نہیں چاہیے ہوگابلکہ وہاں خواتین موجود ہیں۔ حکام سے بس اتنی گزارش ہے کہ آپ صرف ایسا میکنزم بنا دیں کہ ٹوکن اس طرح دیے جائیں کہ عورت کا نمبر کسی عورت کے پاس ہی آئے اور مرد کسی مرد کے کاؤنٹر پر جائے۔“

وہ تو یہ کہ کر چلی گئی مگر میں کافی دیر تک پانی کے اس گلاس کو دیکھتا رہا جس میں ایک گھونٹ پانی بھی کم نہیں ہواتھا مگرمیز پر پڑا ٹشوپیپر کا ٹکڑا بھیگ کر اتنا سکڑ چکا تھا کہ ایک نظر سے پہچان ممکن نہ تھی، شاید وہ اپنی پہچان کھوچکا تھا۔ میں اس ٹکڑے کو دیکھے جارہاتھا اور سوچے جا رہا تھاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے قوم کی بیٹیاں اپنی شناخت ہی کھو دیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آئندہ قوم کی کوئی بیٹی نادرا کے دفترسے آزردہ ہو کر نہ نکلے؟ جی ہاں! ہو توسکتا ہے مگر؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).