سیٹھوں کی سپہ سالار سے ملاقات اور معیشت کے مثبت پہلو


معتبر انگریزی اخبارات ”دی نیوز“ اور ”پاکستان ٹوڈے“ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان بزنس کونسل سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ڈیڑھ دو درجن بڑے سیٹھوں نے ملک کی معاشی صورت حال پر سپہ سالار سے ملاقات کی اور اپنے کاروبار کے بارے میں انہیں مطلع کیا۔

سب سے پہلے تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہماری انگریزی کوئی خاص اچھی نہیں ہے اور ہمارا ذہن بھی مثبت سوچ کو ترجیح دیتا ہے۔ ہمیں یہ خبریں پڑھ کر جو کچھ سمجھ آیا ہے وہ بتا دیتے ہیں۔

سیٹھوں نے سپہ سالار کو بتایا کہ حکومت کے معیشت پر اعلانات اتنے ہی اچھے ہیں جتنی وزیراعظم کی جنرل اسمبلی کی تقریر تھی۔ وہ یہ سب کچھ سن کر وجد میں آ جاتے ہیں۔ لیکن کسی وجہ سے یہ اعلانات، اقدامات میں نہیں ڈھل پا رہے۔
سیٹھوں کو صبر کرنا چاہیے۔ جلدی کا کام شیطان کا، وہ کیوں اتاؤلے ہو رہے ہیں؟ دیر آید درست آید۔

خیر سپہ سالار ایک ہمدرد انسان ہیں۔ انہوں نے سیٹھوں کو تسلی دی کہ وہ جلد از جلد ان کی مزید مدد کریں گے۔ انہوں نے رائے ظاہر کی کہ فوجی افسران پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دیتے ہیں جو سیٹھ حضرات کی شکایات دور کر دے گی۔

دور اندیشن اور دانشمند سپہ سالار نے تاجروں کا رونا پیٹنا دیکھ کر ان کے عزائم بھانپ لیے ہوں گے، اسی وجہ سے انہوں نے سیٹھوں کو نصیحت کی کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں اور حکومت مخالف قوتوں سے دور رہیں۔

سپہ سالار کا اتنا مشفقانہ رویہ دیکھ کر سیٹھ پھیل گئے۔ کہنے لگے کہ ان کے بزنس یونٹ ایک ایک کر کے بند ہو رہے ہیں، خدا کے واسطے سپہ سالار کچھ کریں کیونکہ انہیں سرنگ کے اختتام پر روشنی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیٹھ لوگوں کو اس سے کیا مسئلہ ہے؟ لوگوں کو کام سے چھٹی ملے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ آرام کریں گے۔ سیٹھوں نے اپنا کاروبار اتنا زیادہ پھیلا لیا تھا کہ ان سے سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ اب کام کی رائٹ سائزنگ ہو رہی ہے تو وہ اپنا فارغ وقت بیوی بچوں کے ساتھ اور سیر و سیاحت میں گزار سکتے ہیں۔ سیٹھوں کی بھی چھٹی ہو رہی ہے اور ان کے ملازموں کی بھی۔ پھر سیٹھ لوگ کیوں شکایت کر رہے ہیں؟

سرنگ کے اختتام پر روشنی دکھائی نہ دینے کی اس فورم پر شکایت کرنا عجیب سی بات ہے، خدا جانے یہ سیٹھ لوگ بزنس ٹائیکون کیسے بن گئے ہیں، حالانکہ ایسی طبی شکایت کے لئے جانا انہیں ماہر امراض چشم کے پاس چاہیے تھا اور وہ کہاں پہنچ گئے۔ اب انہیں کل جگر گردے شوگر اور گیس کی شکایت ہو گئی تو کیا وہ پھر بھی ہسپتال کی جگہ سپہ سالار سے شکایت کرنے جائیں گے؟

سیٹھوں نے ایف بی آر کی شکایت کی کہ وہ لیموں کی طرح انہیں ہی نچوڑے جا رہا ہے جو پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں۔ زیادہ ٹیکس، بجلی کی زیادہ قیمت اور دیگر عوامل کی وجہ سے کاروبار کرنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں اور ڈالر کا مہنگا ہونا بھی انہیں وارا نہیں کھاتا کیونکہ اس سے معیشت میں بے اعتباری پیدا ہوتی ہے۔

اگر وہ انصاف سے کام لیں تو انہیں علم ہونا چاہیے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے لوگ اسے چھوڑ دیں گے اور روپے میں لین دین کریں گے جو پاکستان کے لئے اچھا ہے۔ اور سود کو مہنگا کیا جائے تو اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سود کے خاتمے کا تو ہر شخص بشمول مفتی تقی عثمانی صاحب متمنی ہے۔

سیٹھوں نے بہرحال سب شکائتیں نہیں کیں، جہاں تعریف بنتی تھی وہاں تعریف کی۔ سیٹھ حضرات نے خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی مصنوعات کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے وہ جو چیز سو روپے کی بناتے اور ڈیڑھ سو کی بیچتے تھے، اب وہ ڈیڑھ سو کی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں اس کی قیمت ڈھائی سو روپے رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے عوام کو معیشت کی سمجھ نہیں ہے، وہ خریدنے سے انکاری ہیں۔ حالانکہ ہماری دیسی حکمت بتاتی ہے کہ مہنگا روئے ایک بار، سستا روئے بار بار۔ اب ایک چیز مہنگی ہو رہی ہے تو اس کی قدر کرنی چاہیے، نہ تو عوام قدر کر رہے ہیں نہ سیٹھ۔

انہوں نے حکومت کی اس معجزانہ کارکردگی کا اعتراف کیا کہ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ معیشت سکڑ رہی ہو اور حکومتی آمدنی بڑھ رہی ہو، لیکن پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے۔ وہ اس بات پر بھی خوش تھے کہ اب انہیں زیادہ نفیس سرکاری افسران سے واسطہ پڑتا ہے جن کا کام کرنے کا معاوضہ پرانے افسران کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

شاید انہی نفیس افسران کی محبت میں ان سیٹھوں نے نیب کی شکایت کر ڈالی۔ کہنے لگے کہ نیب کی وجہ سے فضا میں خوف کا عنصر ہے، نہ تو سیٹھ پیسہ نکالتا ہے اور نہ کوئی افسر ان کا جائز کام بھی کرنے کو راضی ہوتا ہے۔

نیب کے خلاف یہ ایک منظم مہم لگتی ہے۔ نیب تو سرتاپا محبت کرنے کی قائل ہے، پھر وہ کسی کو خوفزدہ کیسے کر سکتی ہے؟ پاکستان ٹوڈے کی خبر میں نیب کے خلاف اس عناد کی وجہ کا سراغ ملتا ہے۔ پتہ چلا کہ نیب نے جن افراد کو کرپشن دیکھ کر پکڑا ہے، ان میں پاکستان بزنس کونسل کے ممبران بھی شامل ہیں۔ مثلاً پاکستان سٹیٹ آئل کے سابق ایم ڈی شیخ عمران الحق اور بانی ممبر شاہد خاقان عباسی ایل این جی ٹرمینل بنانے کے جرم میں پکڑے گئے ہیں اور اینگرو کارپوریشن کے چیئرمین حسین داؤد کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ پی بی سی والے کہتے ہیں کہ نیب کو کرپٹ سیٹھوں سے دور رکھنے کے لئے دو ماہ میں قانون سازی کا وعدہ کیا گیا تھا جو وفا نہیں ہوا۔

کیا یہ وعدہ اس قابل تھا کہ وفا کیا جاتا؟ وزیراعظم ہر تقریر میں تو بتاتے ہیں کہ وہ کرپٹ عناصر کو نہیں چھوڑیں گے، کسی کو این آر او نہیں دیں گے اور چین کی طرح کرپٹ لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیں گے۔ کیا یہ سیٹھ ملک و قوم کی خاطر یہ ارفع قربانی دینے اور بلند مرتبے پر فائز ہونے سے انکاری ہیں؟

بہرحال یہ بلاوجہ کا رونا پیٹنا ہے۔ سپہ سالار، وزیراعظم کی بنائی گئی قومی ترقیاتی کونسل کے ممبر ہیں اور وہ گزشتہ کور کمانڈرز کانفرنس میں بتا چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مشکل لیکن اہم ترین اقدامات اٹھا رہی ہے جن کا طویل مدت میں فائدہ ہو گا اور وہ لنگڑی معیشت کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے۔

ہمیں امید ہے کہ سیٹھوں کے لئے فوجی افسران کی کمیٹی بنتے ہی سب معاملات درست ہو جائیں گے اور معیشت کے اسرار سمجھنے والے یہ افسران معیشت اور سیٹھوں کو سیدھا کر دیں گے۔ سیٹھ بس سپہ سالار کی نصیحت پر کان دھریں، حکومت کا ساتھ دیں اور اپوزیشن سے دور رہیں۔ ان دور رس اقدامات کے نتیجے میں اچھے دن آ رہے ہیں۔ دو تین برس کی بات ہے۔ یا شاید دو تین ماہ کی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar