پاک بھارت تعلقات ذرائع ابلاغ کا کردار


\"erumپاکستان اور بھارت، دو پڑوسی ملک۔ مشترک تاریخ، سانجھی روایات، ایک ہی زبان اور خطے کے باشندے لیکن صدا کے بیری۔ پاک ہند روابط کی تاریخ بٹوارے سے اب تک نشیب و فراز کا شکار رہی ہے۔

دونوں ملکوں کو علیحدہ ہوئے تقریباً سات دہائیاں ہو چکی ہیں تاہم آج بھی 1947 میں علیحدگی کے بعد ہوئے ہندو مسلم فسادات کے داغ ہیں کے دھلتے ہی نہیں۔ اس پر مستزاد مسئلہ کشمیر، جو ستر برس بیتنے اور چار جنگیں لڑنے کے بعد بھی حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

پاک بھارت داستان میں جہاں بے شمار عوامل کار فرما نظر آتے ہیں وہاں ذرائع ابلاغ کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً حالت جنگ اور کشیدہ صورت حال میں، دونوں اطراف کے ذرائع ابلاغ رائے عامہ ہموار کرنے اور تنازعات کو من پسند ارغوانی یا ہرا رنگ دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ دور حاضر میں انٹرنیٹ اور موبائل ٹیکنالوجی نے ابلاغ کے میدان میں جو انقلاب برپا کیا ہے اس کے اثرات پاک بھارت تعلقات پر کافی گہرے نظر آتے ہیں۔ خصوصاً جب دونوں ممالک میں براہ راست سفارتی روابط کمزور اور منظم علمی، صحافتی اور ادبی رابطے عنقا ہیں۔  نتیجہ یہ ہے کہ جیسے ہی دونوں ممالک کے درمیان سیاسی محاذ پر کشیدگی پیدا ہوتی ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر بھی گرما گرم مباحثے، الزام تراشیاں اور لعن طعن کی جھڑپیں زور پکڑ جاتی ہیں جس میں سوشل میڈیا رضاکار اور عوام الناس پیش پیش نظر آتے ہیں۔

تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو ذرائع ابلاغ کو ابتدا ہی سے دونوں ممالک کے درمیان جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 1965 یا 1971 کی جنگیں ہوں یا نوے کی دہائی میں کارگل کا معرکہ۔حب الوطنی سے سرشار ملی نغمے، یک طرفہ خبریں، تجزئیے اور برانگیختہ ڈرامے اور فلمیں، عوامی جذبات بھڑکانے میں ایندھن کا کام کرتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپریل 1950 میں، لیاقت، نہرو معاہدے کے بعد جب دونوں ممالک کے صحافی نئی دہلی میں آمنے سامنے بیٹھے تو اس بات کا برملا اعتراف کیا گیا کہ متعصبانہ ریڈیو پروگرام اور سنسنی خیز خبروں اور اداریوں نے بٹوارے کے وقت فسادات کو ہوا دینے میں بہت منفی کردار ادا کیا اور مستقبل میں ذمہ داران کو اس حوالے سے محتاط رویہ اپنانا چاہئے۔ تاہم اس ملاقات میں کئے گئے وعدے وفا نہ ہو سکے اور سرکاری فائلوں کا حصہ بن گئے۔

مجموعی تناظر میں آج بھی برصغیر پاک و ہند کی صحافت جنگی خطوط پر استوار نظر آتی ہے۔ جس میں فریقین موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب چنگاری کی صورت، کوئی سنسنی خیز خبر ملے اور کب اسے ہوا دے کر شعلہ رقابت بھڑکایا جائے۔ بیشتر خبروں میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے جانی دشمن کے کردار میں نظر آتے ہیں۔

سرحد پر معمولی جھڑپیں، بڑے حملے اور معمول کی فائرنگ، گولا باری رپورٹ کی جاتی ہے اور اب تو اسٹریٹجک اسٹرائیک کی نئی جنگی اصطلاح بھی زبان زد عام ہے۔

اس ضمن میں نیوز چینلز کا کردار نہایت تشویش ناک ہے۔ گو بھارتی نیوز چینلز پاکستان میں بند ہیں اور یہی حال پاکستانی چینلز کا بھارت میں ہے تاہم یوٹیوب اور انٹرنیٹ پر ان کی نشریات با آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان خبروں میں پڑوسی ملک کے حوالے سے کوئی بھی مثبت خبر، شجر ممنوعہ ہے۔ تعمیری اور ترقیاتی خبریں تو قطعاً بند ہیں۔

دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلا مختلف بھارتی نیوز چینلز پر معمول میں چلنے والی پاکسنان سے متعلق کچھ سرخیاں ملاحظہ ہوں:

  • پاکستان دنیا کا پرمانو شکتی (ایٹمی طاقت) والا دیش بن گیا ہے۔
  • پاکستان دن رات پرمانو ابم (ایٹم بم) بنا رہا ہے۔
  • حافظ سعید پاکستان کے زیرِنگرانی کشمیر (آزاد کشمیر) میں ریلی کر کے آیا اور اس کے فوراً بعد لائن آف کنٹرول پر پاکستان آرمی نے فائرنگ شروع کر دی۔
  • پاکستان انڈیا پرایک بہت بڑے آتنگ وادی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
  • پاکستان نے ہندوستان پر خطرناک حملے کے لئے بڑی تعداد میں آتنگ وادی تیار کر لئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

دوسری جانب پاکستانی نیوز چینلز بھی اسی روایت کو اپناتے ہوئے انڈیا کے خلاف زہر افشانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر روز خبروں میں معصوم کشمیریوں پر بھارتی بربریت کی داستان، نہتے بے گناہ عوام؛ عورتوں، بچوں پر بھارتی فوجیوں کی اندھا دھند فائرنگ اور بھارتی خفیہ ایجنڈوں کی بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں تشویش ناک سرگرمیوں اور دہشت گرد حملوں کی خبریں معمول ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جانب کا میڈیا کسی افسوس ناک واقعہ اور تنازع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے کہ کب وہ رونما ہو اور نمک مرچ لگا کر پیش کیا جائے تا کہ عوام مسشتعل اور خواص متحرک رہیں اور خطے میں امن و آشتی کی صورت حال پیدا نہ ہو سکے۔

اس حوالے سے امید تو یہ تھی کہ سوشل میڈیا متوازن سیا سی، عوامی اور دانش ورانہ حلقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے روایتی میڈیا کے بے مہار گھوڑے کو لگام دے سکے گا۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی طرف سوشل میڈیا نے بھی جنگجوانہ محاذ آرائی کا راستہ اپنایا۔ جس کا ایک واضح ثبوت حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران دیکھنے میں آ رہا ہے۔

یوں اس تناؤ کا آغاز 14 اگست کو پہلے نواز شریف کے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حق میں بیان اور 15 اگست کو مودی کی جوابی جارحانہ تقریر کے ساتھ ہوگیا تھا لیکن اس میں تیزی ستمبر میں اڑی کے واقعہ کے بعد آئی۔ بھارت کے دعوے کے مطابق اس حملے میں 6 دہشت گرد جنہیں پاکستان حریت پسند کہتا ہے سرحد پار پاکستان سے بھارت کے سرحدی علاقے میں داخل ہوئے اور 16 بھارتی فوجی جوانوں کو ہلاک کر دیا۔

اس سے قطع نظر کہ اس واقعہ کی سچائی کیا ہے۔ دونوں جانب سے میڈیا فی الفور سرگرم ہو گیا۔ مرضی کی کوریج کے لئے دونوں ہی ریاستوں نے حکم نامے جاری کر دئیے۔ لیکن وہ سوشل میڈیا کے بے قابو جن کو بوتل میں اتارنے میں قطعی ناکام رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں یوں لگتا ہے جیسے بھارت اور پاکستان میں جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ایک جانب ایٹمی حملے سے بچاؤ کی تدابیر بتائی جا رہی ہیں تو دوسری جانب حریف ملک کو اقوام متحدہ سے دہشت گرد قرار دلانے کے لئے قرارداد پر دستخظ کروائے جا رہے ہیں۔ کوئی دھرتی ماتا کا قرض یاد دلا رہا ہے تو کوئی جہاد کے قصے سنا رہا ہے۔ لفظوں کی قلابازیاں، تصویری شعبدے بازیاں، میمز، گیڈر بھبکیوں، بڑھکوں، دھمکیوں اور جوابی دھمکیوں کا ورچیول مقابلہ، باعث تشویش بھی ہے اور اشتعال انگیز بھی۔

ٹویٹر، فیس بک، واٹس ایپ، اسنیپ چیٹ، غرض کون سی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے جو اس حوالے سے طبل جنگ نہ بجا چکی ہو۔

ایسے میں کوئی قسمت کا مارا ذی ہوش شخص، اگر غلطی سے امن و آشتی کی بات کرے تو اس پر غداری کے فتوے لگانے اور اسے سبق سکھانے سے دونوں جانب کے سوشل میڈیا غازی قطعاً نہیں چوکتے۔

پچھلے دنوں پاکستان کے ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، جبران ناصر کی پیلیٹ گن کے کشمیر میں استعمال کے خلاف مہم نے انٹرنیٹ کے عالمی افق پر بڑی دھوم مچائی۔ یہ مہم جس کا عنوان تھا \”اگر آپ مظلوم سے واقف ہوں تو پھر۔\”

گیار ہ نامور بھارتی اداکاروں، کرکٹرز، سیاستدان، اور فیس بک کے روح رواں مارک زکر برگ کی فوٹو شاپ تصاویر کے ساتھ مزین اس مہم میں، ان معروف افراد کو پیلٹ گنز کے حملے کے شکار کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ جن میں سے ہر ایک کی کہانی گمنام، تاریک راہوں میں ظلم کا شکار ہوئے کشمیریوں سے ماخوذ تھی جن کی میڈیا کی دنیا میں کوئی شنوائی نہیں تھی۔

جہاں اس مہم نے بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی توجہ کشمیر میں پیلٹ گنوں کے بے دریغ ظالمانہ استعمال پر دلائی، وہاں اس پر متعصب اور پاکستانی پراپیگینڈہ ہونے کا الزام بھی لگا اور مشہور شخصیات کو اس مسئلہ میں گھسیٹنے پر تنقید بھی ہوئی۔

اس کے برعکس چند سال قبل جب ممبئی کے ایک نوجوان رام نے اپنی پروفائل تصویر اس پلے کارڈ کے ساتھ فیس بک پر چسپاں کی تھی کہ میں بھارتی ہوں اور مجھے پاکستان اور پاکستانیوں سے نفرت نہیں۔ تو اس کی دیکھا دیکھی تقریبا، 15 ہزار نوجوانوں نے سرحد کے دونوں اطراف کراچی سے ممبئی اور کشمیر سے کیرالہ تک اس مہم کا ساتھ دیا اور یوں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر لوگوں کی اکژیت امن کے حق میں ہے تو پھر جنگ کس کی خواہش پر ہے۔حالیہ کشیدگی کے باوجود بھی کچھ امن پسند افراد نے اس مہم کو جاری رکھا ہوا ہے جن میں ترقی پسند دانشور اور دونوں جانب کے فنکار مثلاً بینا سرور، مہیش بٹ اور سلمان خان وغیرہ پڑوسی ملک کے ساتھ امن سے رہنے کی خواہش کرتے نظر آتے ہیں۔

اس بات سے انکار نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بہت سے مسائل ہیں جن میں کشمیر، سیاچن کا مسئلہ، پانی کی تقسیم، سرحد پار دہشت گردی اور جارحیت و دخل اندازی کا خاتمہ سرفہرست ہیں۔ نیز تجارتی اور معاشی تعاون، ثقافتی تبادلے، سفارتی تعلقات کی بہتری، آزادانہ نقل و حرکت اور آمد و رفت کی ترویج اور ٹیکسٹ بکس اور تاریخی کتابوں میں زہر آلود اور مسخ شدہ مواد کی درستگی سر فہرست ہے۔ اور یہ تمام معاملے صرف مل بیٹھ کے بات چیت سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ذرائع ابلاغ، خصوصاً نئے سماجی روابط کے ذرائع کی اہمیت اور کردار سے۔ انحراف کرنا ناممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مشترکہ اورمتفقہ ضابطہ اخلاق مقرر کیا جائے جس کے تحت پڑوسی ممالک کے بارے میں رپورٹنگ کر تے ہوئے اور خبر دیتے وقت دونوں جانب سے متوازن رویہ اختیار کیا جائے۔ خصوصاً نفرت انگیز زبان اور منفی پراپیگنڈے سے گریز کیا جائے۔

نیز پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا میں پڑوسی ملک کی معاشی، ترقیاتی اور مثبت خبروں کو معروضی طریقے سے پیش کیا جائے اور عوام تک اس کی ترسیل یقینی بنائی جائے تا کہ دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جان سکیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ حالات کا آیئنہ ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا اس عکس کو ایسی ہی منعکس کرتاہے جیسے نیلگوں پانی اطراف کے مناظر کا حسن۔ لہٰذا ضرورت اس جھیل کے پانی اور آئینے کو شفاف رکھنے کی ہے ورنہ خطے کا حسن ماند پڑتے اور آسمان کا رنگ سرخ ہوتے دیر نہیں لگتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments