نیب، معزز سیٹھ، بدمعاش اساتذہ اور بدقماش سیاستدان


چیئرمین نیب جاوید اقبال نے کہا کہ وہ تفتیش مکمل ہوئے بغیر کسی بھی کاروباری شخص کو گرفتار کرنے کی منظوری نہیں دیں گے۔ یہ ایک نہایت معقول فیصلہ ہے۔ چیئرمین نیب جیسا ذی شعور اور کسی انسان پر محض سرتاپا ایک نگاہ ڈال کر اس کے مجرم یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کر سکنے والا شخص ہی ایسا فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔

سیٹھ ایک نہایت ہی معزز اور حساس شخص ہوتا ہے۔ اس کی عزت نفس کو ضرب پہنچے تو وہ بہت زیادہ ہرٹ ہوتا ہے۔ ذرا سی بھی ریاستی سختی یا کسی کی دادا گیری برداشت نہیں کر سکتا۔ حکومت الٹے سیدھے کام کرے تو وہ روٹھ کر اپنے پیسے مارکیٹ سے نکال لیتا ہے اور اٹواٹی کھٹواٹی لے کر اپنے گھر میں پڑ رہتا ہے۔ حکومت اسے گھر میں بھی چین سے نہ رہنے دے یا خود ہی وہ گھر پڑا پڑا اپنے روپے کو گرتا دیکھتا رہے تو سیٹھ اپنا بوریا بسترا اٹھاتا ہے اور کسی ایسے ملک کا رخ کرتا ہے جہاں حساس لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہو۔ ایسے ممالک نے لوگوں کی حساسیت ماپنے کا پیمانہ بھی بنا رکھا ہے۔ جس شخص کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہو اسے اتنا زیادہ حساس سمجھا جاتا ہے۔

سیٹھ لوگوں کے متعلق لالچی سرمایہ دار ملک یہ گمان رکھتے ہیں کہ اگر وہ ڈرے سہمے بغیر اپنا پیسہ کاروبار میں لگائیں گے تو ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا اور حکومت کو ٹیکس۔ سیٹھ لوگوں کی اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک ان سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے خیال ہی نہیں کیا کہ ایک سیٹھ کتنا حساس اور خود دار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایک برس سے اٹواٹی کھٹواٹی لئے ایک گوشے میں پڑے تھے۔ اب لاچار ہوئے ہیں تو سپہ سالار کے پاس جا کر ان سے درخواست کی ہے کہ اور کچھ نہیں تو انہیں نیب سے ہی تحفظ دے دیا جائے تاکہ وہ اور سرکاری افسران مل جل کر ملک چلا سکیں۔

سیٹھ لوگوں کے علاوہ سرکاری افسران بھی بہت حساس ہوتے ہیں اور ان کی عزت نفس بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی نوکری بہت زیادہ پکی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ کام کریں یا نہ کریں انہیں روزی روٹی کی فکر نہیں ہوتی۔ جب حالات ایسے ہو جائیں کہ کام کرنے کے نتیجے میں انہیں نیب جیل میں ڈال دے اور نہ کرنے کے نتیجے میں نہ صرف وہ چھٹیاں انجوائے کریں بلکہ ان کا کیرئیر بھی داغدار نہ ہو اور معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکیں، تو وہ محض اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لئے مناسب سمجھتے ہیں کہ کام نہ کریں۔

ایک سیٹھ اور ایک افسر ہی ملک چلاتا ہے۔ ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا لازم ہے۔ چیئرمین نیب کا یہ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ جب تک تفتیش مکمل نہ ہو جائے وہ کسی سیٹھ کو گرفتار نہیں کریں گے۔ امید ہے کہ ایسا ہی فیصلہ وہ سرکاری افسران کے متعلق بھی کر دیں گے کہ جب تک تفتیش مکمل نہ ہو اور پکا ثبوت نہ ملے انہیں سال دو سال کے لئے جیل نہ ڈالا جائے۔ ان دو حساس اقسام کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا لازم ہے۔ یہ عزت دار لوگ ہوتے ہیں۔

جبکہ اساتذہ بالکل بیکار ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی۔ کسی بھی سیٹھ یا افسر سے پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ جس شخص کو کوئی کام نہ کرنا آتا ہو وہ استاد بھرتی ہو جاتا ہے۔ اساتذہ ظالم بھی بہت ہوتے ہیں۔ جب حساس قسم کے افسران اور سیٹھ ننھے منے بچے ہوتے ہیں تو یہ اساتذہ نہ صرف انہیں مرغا بناتے ہیں بلکہ ان کے ہاتھ بھی سرخ کر دیتے ہیں۔ بلکہ ہاتھ کیا بعض اساتذہ تو ان دو حساس طبقات کو مار مار کر بلبل بنا دیتے ہیں۔ اب تو خیر ”مار نہیں پیار“ کا چلن ہو گیا ہے لیکن جب افسران بچے تھے تو اس وقت ”صرف مار ہی پیار“ کا کلیہ استعمال کیا جاتا تھا۔

اساتذہ نہ صرف عزت نفس نہیں رکھتے بلکہ ہماری قوم کا فارغ ترین طبقہ بھی ہیں۔ اسی وجہ سے خواہ پولیو کے قطرے پلانے ہوں، مردم شماری کرنی ہو، الیکشن ڈیوٹی کرنی ہو، صرف اساتذہ کو ہی بیکار سمجھ کر ان سے بیگار لی جاتی ہے۔ بلکہ اب تو انہیں خاکروب کی ذمہ داری بھی تفویذ کی جانے کی خبر آئی ہے اور ڈینگی مچھر مارنے کی بھی۔ اگر نیب یا افسران کے خیال میں اساتذہ حساس ہوتے یا ان کی عزت نفس ہوتی تو انہیں قوم کا روحانی باپ سمجھا جاتا۔

نیب اور افسران ایسا نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے ستر اسی برس کے پروفیسروں، حتی کہ وائس چانسلروں تک کو پہلے ہتھکڑی لگا کر ان کی پریڈ کروائی جاتی ہے اور پھر انہیں جیل میں ڈال کر بھول جاتے ہیں اور اس کے بعد ہی ان کے خلاف تفتیش کی جاتی ہے یا ثبوت تلاش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان اساتذہ کی عزت نفس تو ہوتی نہیں، نہ ہی وہ حساس ہوتے ہیں، اس لئے قید کے دوران ان میں سے جو دل کے دورے سے مرتے ہیں وہ حساسیت یا عزت نفس کو چوٹ لگنے کے سبب نہیں مرتے۔ بس ویسے ہی مر جاتے ہیں۔ ان کا وقت جو پورا ہو گیا ہوتا ہے۔

نیب ایک ایسے طبقے کو بھی تفتیش مکمل ہونے یا حتمی ثبوت ملنے سے پہلے پکڑتی ہے جس کی نہ عزت نفس ہوتی ہے اور نہ ہی وہ حساس ہوتا ہے۔ یہ طبقہ سیاست دانوں کا ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض تو وزیر اعظم اور صدر مملکت بھی رہ چکے ہوتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ کسی سابق وزیر اعظم یا صدر کو عزت دے کر کیا کرنا ہے؟ انہیں تاحیات دیگر مراعات دے دی گئی ہیں، وہی ان کے لئے بہت ہیں۔ وہ مزید کیا چاہتے ہیں؟

لیکن ایک چیز کچھ کنفیوز کر رہی ہے۔ بہت سے سیاست دان کاروبار بھی کرتے ہیں۔ کچھ کی سیاست میں آنے سے پہلے ہی بہت بڑی انڈسٹریل ایمپائر ہوتی ہے اور کچھ تو ائیرلائنز کے مالک بھی ہوتے ہیں۔ کیا انہیں سیٹھ قرار دے کر انہیں حساس اور عزت نفس کا حامل سمجھا جائے اور تفتیش مکمل ہونے یا حتمی ثبوت ملنے سے پہلے انہیں نہ پکڑا جائے، یا پھر انہیں سیاست دان سمجھ کر ننگ انسانیت سمجھا جائے اور نیب انہیں ویسے ہی پکڑ لے جیسے علاقے کا تھانیدار کوئی بھی واردات ہوتے ہی بستہ ب کے بدمعاش پکڑ لیتا ہے اور بعد میں علاقے میں ہونے والے تمام جرائم کا پرچہ ان کے خلاف کاٹ دیا جائے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar