مدارس مالکان جان بخشیں تو کہوں


(مالک اشتر)

\"malike-ashter\"تبلیغی اجتماعات، مدارس کے ذمہ داران کی پریس ریلیزوں، دستار بندی کے جلسوں اور علمائے کرام کے مضامین میں ایک جملہ آپ نے یقیناً پڑھا سنا ہوگا۔ یہ جملہ ہے کہ ’’مدارس اسلام کے قلعے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے اس جملے کا اصل مطلب وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو اس جملے کو تواتر کے ساتھ دہراتے ہیں لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ ادا کرنے والے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اسلام بچا ہوا ہے تو یہ مدارس ہی کی بدولت ہے اور اگر اسلام کے گرد حصار نام کی کوئی شے ہے تو وہ یہی مدارس ہیں۔ مدارس ذمہ داران کا موقف سر آنکھوں پر، لیکن موجودہ دور کے مدارس بالخصوص برصغیر میں بھارت و پاکستان کے مدارس کی صورت حال کو دیکھیں تو کوئی بہت حوصلہ افزا حالات نہیں ہیں۔ مدارس کا پورا نظام اس وقت جس کیفیت سے دو چار ہے اس میں فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔ مجھے معلوم ہے ان سطور کو پڑھتے ہی ’مدارس کے ذمہ داران‘ کی ایک جماعت مجھ پر چڑھ دوڑنے کی کوشش کرے گی، بعض احباب ان سطور میں ’یورپ اور امریکہ کی سازش‘ کے سراغ تلاش کریں گے تو کچھ اس میں ’لادینیت‘ کی بو سونگھنے کی کوشش کریں گے۔

مدارس کے نطام میں جو امور اصلاح طلب ہیں ان میں سب سے پہلا مسئلہ تو بیشتر مدارس میں جمہوریت نام کی شے کا فقدان ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بیشتر مدارس ذاتی جاگیروں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جس نے مدرسہ بنوایا پھر اس ’مدرسے کا مہتمم‘ بننا اسی کی نسل کی میراث قرار پاتا ہے۔ قدم قدم پر آپ کو مدارس کی شکل میں پھیلی جاگیریں مل جائیں گی۔ عموماً مدرسے کے ذمہ داران اپنے بعد اپنا مدرسہ، گاڑی گھوڑے اور زمین و زیور کی طرح میراث میں چھوڑتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر مدارس کی مجلس شوریٰ ہوتی ہے لیکن اس کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ ’امیرِ مدرسہ‘ کی سنے اور اطاعت کرے۔ بات صرف مدرسوں کی ذاتی امارت میں بدلنے کی ہی نہیں ہے، بلکہ مدرسے کے مالیات سے متعلق امور میں بھی وہی ایک شخص ’سب کچھ‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھلے ہی مدرسے لوگوں سے ملنے والی رقوماتِ شرعیہ سے چلتے ہوں لیکن مدرسے کے ’ذمہ دار‘ کے پاس پہنچتے ہی وہ فنڈ ’احتساب سے مستثنیٰ‘ ہو جاتا ہے۔ ایسے بہت سے مدارس ہیں جن میں کوئی باہر والا تو کیا مدارس کے اساتذہ اور منیجمنٹ کے اراکین بھی ’امیرِ مدرسہ‘ سے حساب کتاب مانگنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ مالی شفافیت کی بات پوری دنیا میں ہورہی ہے اور سوشل آڈٹ جیسی کوششیں ہورہی ہیں آپ ان مدارس سے کم از کم آج کے دن تو توقع نہیں کرسکتے کہ یہ ’حساب‘ دیں گے۔

مدارس میں جمہوری اصلاحات کے ساتھ ساتھ نصابی سطح پر بھی اصلاحات کی بہت گنجائش ہے۔ آج منطق اور فلسفے کی بحثیں بہت دور نکل چکی ہیں لیکن چونکہ مدارس کی ’نصابی کتابیں‘ آج سے بہت پہلے لکھی جا چکی ہیں اور نئی کتابیں شاملِ نصاب نہیں ہوئیں، اس لئے طلبہ منطق و فلسفہ پڑھ کر بھی دورِ قدیم میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں جب کہ بڑی بڑی دانش گاہیں پابندی سے ’نصابی کمیٹی‘ کی میٹنگ کرتی ہیں اور نصاب میں ضروری ردوبدل ہوتا رہتا ہے، تو کیوں نہ ہمارے مدارس بھی اس روش کو اپنائیں تاکہ مدارس کے طلبہ کو فائدہ حاصل ہوسکے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم کی بات زیادہ ہوتی ہے تو ’صاحبان مدارس‘ یہ کہہ کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کرلیتے ہیں کہ ’’ہمارے یہاں کمپیوٹر کی تعلیم کا معقول انتظام ہے‘‘۔ میرے خیال میں یہ جملہ بجائے خود غلط اور کنفیوز کرنے والا ہے۔ ہمارے صاحبانِ مدارس یہ بات کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ محض کمپیوٹر کو آن آف کرنا سیکھ لینا یا سیکھا دینا کمپیوٹر کی تعلیم ہر گز نہیں ہے۔ کئی مدارس کے نصاب میں ایک ’آف دی ریکارڈ مضمون‘ بھی ہوتا ہے جسے مناظرہ کہتے ہیں۔ کہیں تو اس کی باقاعدہ جماعتیں لگتی ہیں لیکن زیادہ تر جگہوں پر اس کی تربیت ’غیر نصابی سرگرمی‘ کی طرح ہوتی ہے۔ آپ اگر برصغیر میں مسلکی اختلافات کی آگ میں گھی ڈالنے والے چند ’بڑے ناموں‘ کی ایک فہرست تیار کریں تو بلاشبہ اس میں اکثریت ’اہلِ مدارس‘ کی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جو اسلام پُرامن بقائے باہمی، اتحاد اور ’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘ جیسے پیغامات دیتا ہے، اسی اسلام کے قلعے میں پلے بڑھے افراد تفرقہ بازی اور اتحادِ امت کو پارہ پارہ کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتےہیں؟ کیوں کفر کے فتوے باٹنے کی ذمہ داری جن حضرات نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے، ان میں زیادہ تر بلکہ تقریباً سب کے سب مدارس کی پیداوار ہیں؟ ذرا غور کیجئے کہ یونیورسٹیوں میں تقابلِ ادیان کے مطالعے کا شعبہ ہوتا ہے لیکن ہمارے مدارس میں اتنی رواداری بھی نہیں ہے کہ وہ دوسری فقہ تک پڑھا دیں یا کم ازکم اپنے کتب خانے میں کسی دوسرے مکتبِ فکر کی کتابیں ہی رکھ لیں۔

مناظرے بازی سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہمارے مدارس ایسے سنجیدہ فکر علماء پیدا کریں جو دین اسلام کی صحیح تفہیم کرسکیں۔ اگر مدارس سے یہ امید رکھنا زیادتی ہے کہ وہ پہلے کی طرح جدید علوم کے ماہرین پیدا کریں تو کم از کم یہ امید رکھنا تو زیادتی نہیں ہے کہ مدارس اچھے عالم پیدا کریں۔ ایسے علماء جو کسی کی اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہوں اور جن کے جذبات سے کھیلنا آسان نہ ہو۔ یہ گزارش اسے لئے بھی معقول ہے کیونکہ جذباتی نعرے بازی کرنے والے پرچوں اور صحافیوں کی مقبولیت خوب دیکھی گئی ہے۔ کیا ہم اپنے مدارس کے ذمہ داروں سے یہ امید بھی نہ رکھیں کہ وہ طلباء کی تربیت اس ڈھب سے انجام دیں کہ انہیں جذباتی نعروں کے فریب کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے۔ یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس پورے مضمون میں ہمارا روئے سخن تمام مدارس کی طرف نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی تعداد میں ایسے مخلص افراد ہیں جو مدارس کو خلوصِ نیت کے ساتھ چلا رہے ہیں اور ہر ممکن طور پر شفافیت برتنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اکثریت انہیں مدارس کی ہے جن کے ذمہ داران کا رویہ فوری اصلاح کا متقاضی ہے۔


مالک اشتر بھارت کے سرکاری نشریاتی ادارے دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے صحافت اور ماس کمیونی کیشن کی تعلیم کی تکمیل کی، کئی روزناموں، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی اور دیگر صحافتی اداروں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور لکھنے کا شوق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments