پراگ کی گلیوں میں ہوا نہیں چلتی، تاریخ سرسراتی ہے


پراگ میں پہلی صبح ، روشن روپہلی اور حسین!

لیکن کیا کوئی صبح ایسی بھی ہوتی ہے جو روشن اور حسین نہ ہو، خوشی اور ولولے کی کرنیں بانٹتی ہوئی مشرق کے بطن سے نمودار نہ ہو۔ ہمارے خیال میں تو ہر صبح پیام امید بہار ہے، ہر نئى صبح، نئی زندگی!

اس صبح پہلا کام فون کی سم خریدنا تھا کہ اکیلے گھومتے ہوئے کھو نہ جائیں۔ ویسے اب ہمیں یاد نہیں آتا کہ سمارٹ فون اور گوگل میپس کے زمانوں سے پہلے ہم کیسے زندگی گزارتے تھے۔ ہمارے بچے ہمارے اکلوتے نشے یعنی فون کا شدید مذاق اڑاتے پائے جاتے ہیں۔

چھوٹی سی دوکان پہ کھڑی چینی لڑکی، وہ انگریزی سے نابلد ہم چینی سے۔ سم کارڈ تک تو بات پہنچ گئی، لیکن اٹکے کہاں ہم دونوں، یورو کے لین دین پہ۔ وہ یورو کو ہاتھ سے پرے دھکیلے اور ہم کہیں، بی بی یورپ کی کرنسی یہی تو ہے۔ خیر جب وہ نہ مان کے دی تو ہم نے کریڈٹ کارڈ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور قصہ تمام کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چیک ریپبلک کی کرنسی کرونے کہلاتی ہے اور ایک یورو میں دس کرونے ملتے ہیں۔ اب حساب کتاب میں ہماری گتھی بڑی پیچیدہ ہے۔ پلے بڑھے روپوں میں ہیں، بعد میں کچھ ریال کی سمجھ آئی ہے، بچوں کے ساتھ ڈالرز کا معاملہ ہے، ہالینڈ میں پڑھ چکے ہیں تو یورو کی شدبد ہے اور اب یہ کرونے۔ نہیں بھئی ہم سے یہ لین دین نہیں ہو گا، ہم تو مٹھی بڑھائیں گے، جتنے چاہے اٹھا لیجیے گا۔

پراگ سے ہماری محبت کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ کتابیں، فلمیں اور تاریخ کے سلسلے کسی جگہ یا انسان سے آشنائی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

محبت اور الفت کے سروں سے جنم لیتا ہوا پراگ، وہ شہر جہاں کافکا نے جنم لیا،عظیم ناول نگار جو کہتا ہے

” وہ لوگ جو خوبصورتی دیکھ کے دل میں بسانا جانتے ہیں وقت ان کے لئے گزرتے ماہ وسال کا حساب رکھنا بھول جاتا ہے”

milan-kundera

وہ شہر جس کے پس منظر میں میلان کنڈیرا نے اپنا مشہور عالم ناول “وجود کی ناقابل برداشت لطافت” لکھا۔ وہ شہر جس کی پتھروں سے بنی اونچی نیچی گلیوں میں تاریخ آج بھی سانس لیتی ہے۔ وہ شہر جہاں بہترین فلمیں بنائی گئیں، وہ شہر جو مجسموں، آرکیٹییچر، پینٹنگز، رنگوں اور خوشبوؤں سے بنا ہے۔ وہ شہر جس کا پہلا صدر مملکت بھی مصنف اور ڈرامہ نگار، ویکلاف ہیول!

کہاں کی منظر کشی کریں آپ کے لئے، میوزیم، قلعہ، شہر کے بیچوں بیچ بہتا دریا، گوتھک چرچ, خوب صورت رنگ برنگے گھر، پارکوں میں ایک دوسرے میں گم محبت کے متوالے، شیشے اور کرسٹل سے بنی جیولری، آرٹ گیلریز ، ریسٹورنٹ ، اولڈ سکوئر، ایسٹرونومیکل کلاک اور چارلس برج!،

چلیے آپ کو اپنی پسندیدہ جگہ لے کے چلتی ہوں۔ پرانے شہر کی پتھریلی پرپیچ گلیاں، ایک دوسرے میں الجھی ہوئی، ایک دوسرے میں گم ہوتی ہوئیں، سرگوشیاں کر تی ہوئی، ماضی کی چاپ لئے موڑ در موڑ ، اور ہر موڑ کے بعد ایک نیا منظر، پتھریلا فرش، دو رویہ دوکانیں، ہر دوسری دوکان پہ آرٹ کی سحر انگیزیاں!

اور مجھے لاہور یاد آ گیا، پرانا لاہور!

شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

اندرون شہر کے شہ نشینوں اور بالکنی سے سجی تنگ گلیاں جہاں بقول یوسفی، مرد وزن صرف نکاح کی صورت میں اکھٹے گزر سکتے ہیں۔ ان گلیوں میں بھی تاریخ بستی ہے اور پراگ کی گلیوں میں بھی تاریخ کا سفر دکھائی دیتا ہے اور ان گلیوں کو چاہنے والے کچھ دیواںے ہی ہوا کرتے ہیں۔

ہم نے آج کے پراگ سے پیدل چلنے کی شروعات کی اور پھر ان پتھریلی گلیوں تک جا پہنچے۔ ہر پتھر کی اپنی کہانی اور ہر موڑ کی اپنی داستان۔ یہ تاریخ میں چہل قدمی تھی اور ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی۔

سب راستے گڈمڈ تھے، سیاحوں کا ہجوم تھا لیکن گم ہونے کی فکر کس کو تھی۔ کبھی کبھی تو راستوں میں کھو جانا بھی دل کو بھا جایا کرتا ہے۔ محسوس ہوتا تھا کہ کسی بھی گلی میں مڑ جائیں، منزل اولڈ سکوئر ہی ہو گا۔ کئی آرٹ گیلریوں نظر آئیں، کچھ کے اندر جھانکا، کچھ کو باہر سے ہی دیکھا۔ ایک گیلری نے ہماری آتش شوق یوں بھڑکائی اور ہم مجبور ہوئے کہ ہم داخل ہوں اور باہر نکلنے کا رستہ بھول جائیں۔

چیک ریپبلک کے شہر بوہیمیا کی زمین سے نکلنے والا اعلیٰ پائے کا شیشہ اور کرسٹل دنیا بھر میں نہ صرف پینٹنگز میں استعمال کیا جاتا ہے بلکہ مشہور ترین جیولری سوارسکی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اس گیلری میں ایک سویڈش آرٹسٹ کی شیشے پہ بنائی گئی مسحور کن پینٹنگز تھیں اور ہماری جیب ان کو اپنانے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ کریدنے پہ معلوم ہوا کہ عرب شہزادے اور بزنس کمپنیوں کے مالک یہ شوق فرمایا کرتے ہیں۔ گیلری کے بیچوں بیچ ایک شو کیس تھا، جس پر لکھا تھا، لیمٹڈ ایڈیشن۔ کشاں کشاں اس طرف چلے۔ معلوم ہوا اسی سالہ آرٹسٹ نے کچھ محدود کام گلاس اور سلور کو ملا کے کیا ہے، تھیم ہے عورت۔ اور اس کا بنیادی آئیڈیا پکاسو سے لیا گیا ہے۔ اب یہ تو ناممکن تھا کہ ہم کچھ وقت اس مقفل الماری کے پاس نہ گزاریں۔ یہ منی ایچر پینٹنگز کمال فن کا مظہر تھیں اور ان کو اعلیٰ ذوق خواتین کے لئے گلے میں پہننے والے پینڈنٹ کا روپ دے دیا گیا تھا۔ ہم ان پینڈینٹس کے سحر میں گرفتار جن نظروں سے انہیں دیکھتے تھے، وہ سیلز مین خوب جانتے تھے لیکن قیمت کا بھاری پتھر تھا جو بالآخر دل پہ رکھا جاتا تھا۔

ہم اولڈ سکوئر پہنچنے کو تھے۔ جہاں پندرہویں صدی سے نصب ہوا ایسٹرونومیکل کلاک اپنی دھن بکھیر کے صدیوں کا آنکھوں دیکھا سفر بیان کر رہا تھا۔ شوقینوں کا ہجوم تھا، ہلا گلا تھا، ریسٹورنٹ تھے، میوزک سر بکھر رہا تھا، بے فکرے چہروں سے ہنسی پھوٹتی تھی۔

ایک دور دیس سے آنے والی سیاح پرمسرت چہرے کے ساتھ اکیلے گھومتے ہوئے تصویریں بناتی تھی۔ ان خوبصورت مجسموں کی جو نہ معلوم کتنے برسوں سے زندگی کی رنگینیاں اپنے گرد اپنی مندی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنی خوبصورتی ان سیاحوں کی آنکھوں اور کیمروں میں محفوظ ہوتے دیکھ کے محظوظ ہوتے ہیں۔

شام ہونے کو تھی اور ہم ڈوبتے سورج کا نظارا چارلس برج پہ دیکھنا چاہتے تھے۔ سو پھر انہی پتھریلی گلیوں سے ہوتے ہوئے پل کی طرف چلے یہ برج شہر کو پراگ قلعے سے ملاتا ہے اور یہ چودہویں صدی میں بادشاہ جارج نے تعمیر کروایا۔ پانچ صدیاں گزر چکیں، چارلس برج آج بھی قابل دید ہے۔

ڈوبتا سورج، دریا میں پھیلتا نارنجی سایہ، بیک گراؤنڈ میں رنگ برنگے گھر، گوتھک آرکیٹیکچر والے چرچ، آرٹسٹس کے سٹال، موسیقی بجاتے فنکار اور بلند قامت مجسمے، یہ ہے چارلس برج!

پل کیا ہے؟ ایک دل گرما دینے والا آرٹ کا نمونہ جہاں ہر آنے والا خوبصورتی، حسن اور تخلیق کا جادو دیکھ کے پگھلنے لگتا ہے۔ یہ ایک اور ہی دنیا ہے، زمینی تخلیق کاروں کی دنیا جنہوں نے اپنے بے مثال جادو، اپنے فن کو پل کے دونوں طرف مجسموں کو نصب کرکے امر کر دیا ہے۔

اور وہ تیس مجسمے، صناعی کے بےبدل شاہکار، دیکھنے والے کی سانس روکنے پہ قادر، ان تخلیق کاروں کا نام زندہ رکھنے کے اہل جو نہ معلوم کب سے مٹی ہو چکے۔ ہر مجسمہ ایک کہانی ہے، محبت کی، تخلیق کی، تعلق کی اور احساس کی۔. ہر مجسمہ ہر سیاح کو تکتا ہے اور سوچتا ہے کون اس کے سحر میں گرفتار ہو کے پہروں تکتا رہے گا؟ کون اپنے دل کی کچھ دھڑکنیں وہیں چھوڑ کے واپس دیس کو لوٹ جائے گا؟ دو ہزار فٹ لمبے چارلس برج پہ واک ایک پل کو پار کرنا ہی نہیں، یہ ایک سفر ہے گزرے لمحوں کو محسوس کرنے کا سفر، خوبصورتی کو جامد شکل میں دیکھنے کا سفر، سرخوشی کا سفر، ہوا کی سرگوشیوں کا سفر۔

سورج ڈوب چکا تھا۔ مسافر کا دامن یادوں سے بھر چکا تھا۔ زندگی کا ایک اور دن، ایک اور خوبصورت دن ماضی بننے کو تھا۔ ہم خود ہی خود مسکراتے تھے، گنگناتے تھے اور ہوٹل کی طرف لوٹتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).