عمران خان کے خلاف کھڑا ہوتا ہوا متحدہ مذہبی محاذ


مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر 2019 کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے مولانا فضل الرحمان کو مسلسل اپنا مارچ کم از کم نومبر تک مؤخر کرنے کا مشورہ دیا لیکن مولانا نے تمام مشورے رد کردیئے اور اکتوبر میں ہی اپنا مارچ شروع کرنے پر اصرار کیا۔ اپنی پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ مارچ کی تاریخ کا اعلان اپوزیشن پارٹیوں کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون گومگو کی کیفیت کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔

نواز شریف صاحب کے پیغامات مولانا فضل الرحمان کو کیپٹن (ر) محمد صفدر پہنچاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے بقول نواز شریف صاحب نے مولانا فضل الرحمان کو پیغام دیا ہے کہ وہ آزادی مارچ شروع کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کیپٹن (ر) صفدر ناموس رسالت اور ختم نبوت کے پرجوش داعیہیں اور اس سلسلے میں گذشتہ حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں کی جانے والی کچھ ترامیم کے خلاف قومی اسمبلی میں پرجوش تقاریر بھی کر چکے ہیں۔ دیگر امور کے علاوہ یہی نعرے لے کر مولانا فضل الرحمان بھی میدان میں اتر رہے ہیں۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کیپٹن (ر) صفدر سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔ اگر سچ بول رہے ہیں تو کیا نواز شریف اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ جیل سے نکلنے کے لیے اب مولانا فضل الرحمان کے مذہبی نعروں کا سہارا لینا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف شہباز شریف صاحب خرابی صحت کی وجہ سے سائیڈ پر ہو گئے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے شہباز شریف صاحب کی صحت کے لیے دعا کرتے ہوئے احسن اقبال صاحب کو پارٹی معاملات (کم از کم اپوزیشن کی تحریک اور آزادی مارچ کی حد تک) چلانے کی ہدایت کر دی ہے۔ یہ ایک اہم خبر ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ (جس کا ایک اہم نعرہ تحفظ ناموس رسالت ہے ) کے تناظر میں یہ تبدیلی معنی خیز ہے۔

احسن اقبال صاحب کا ناموس رسالت/توہین رسالت قوانین کے حوالے سے ایک پس منظر ہے۔ اس کے ڈانڈے 1985 کی قومی اسمبلی میں منظور کی جانے والی آٹھویں ترمیم سے جا کر ملتے ہیں۔ یہی تعرہ مولانا فضل الرحمان لے کر میدان میں اتر رہے ہیں۔ تو کیا احسن اقبال صاحب کو پارٹی معاملات سپرد کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب مسلم لیگ نون مولانا فضل الرحمان کے ناموس رسالت کے مذہبی بیانیے کے ساتھ کھڑی دکھائی دے گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر مسلم لیگ نون کچھ حلقوں میں اپنی حمایت کھو بھی سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی ابھی تک تو کوئی واضح فیصلہ نہیں کر سکی۔ بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مولانا کے آزادی مارچ کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی آزادی مارچ میں شرکت کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو صورت حال دلچسپ ہو جائے گی۔ مولانا فضل الرحمان کھلم کھلا وزیر اعظم عمران خان کو للکار رہے ہیں۔ وہ ان پر مذہب کے حوالے سے بھی حملہ آور ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی آزادی مارچ میں شمولیت کیا اس بیانیے کی حوصلہ افزائی سمجھی جائے گی؟ اگر ایسا ہوا تو یہ اس ملک کے لیے ایک المیہ ہو گا۔

وزیر اعظم عمران خان حال ہی میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے واپس لوٹے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر کے حوالے سے ملک کے ہر طبقے میں بحث جاری ہے۔ جہاں وزیر اعظم کی تقریر کو سراہا جا رہا ہے وہیں اس تقریر پر مختلف حوالوں سے تنقید کا بازار بھی گرم ہے۔

اقوام متحدہ میں عمران خان اسلاموفوبیا پر بات کر کے پاکستان کے بیشتر مذہبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسے میں ان کے خلاف مذہبی بیانیے کو لے کر مہم چلانا اپوزیشن کے لیے آسان ہرگز نہ ہوگا۔ لیکن اگر اپوزیشن جماعتیں مذہبی بیانیے پر اتفاق کر کے میدان میں اتر آتی ہیں تو بین الاقوامی حالات کے تناظر میں یہ مہم خود اپوزیشن کے حق میں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون منجھی ہوئی سیاسی جماعتیں ہیں اور یقیناً اس بات کو مدنظر رکھے ہوئے ہوں گی۔ لیکن مولانا فضل الرحمان ان کی سیاسی مصلحتوں سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھے گا کہ 2014 میں عمران خان کے دھرنے کے وقت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، جمیعت علماء اسلام (ف) سمیت تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے استحکام کے لیے پارلیمنٹ میں متحد ہو گئی تھیں اور عمران خان کے مارچ اور دھرنے کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کے خلاف سازش قرار دے دیا تھا۔ اب اگر یہ جماعتیں مارچ اور دھرنے کی راہ لیتی ہیں تو ان کو اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ جو بات 2014 میں غلط تھی وہ اب 2019 میں کیسے درست ہو گئی ہے۔

اس صورت حال میں زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ اپوزیشن کا یہ مارچ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور اپوزیشن کے احتساب کی زد میں آئے ہوئے راہنماؤں کو اپنے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا پڑے گا جو آزادی مارچ کی ناکامی کے بعد کوئی آسان کام ہرگز نہ ہوگا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad