الیکشن اخراجات۔ کرپشن کی بنیاد


پاکستان کی تاریخ میں بار الیکشن ایک تجارت کا درجہ رکھتا ہے۔ پیسے کے بل بوتے پر تاجر (وکلاء) حضرات اپنے امیدوار بناتے ہیں اور اسی پیسے کے بل بوتے پر جب یہ امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عہدے دار بن جاتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد تجارت کا عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے اور عہدے دار یہ سوچنے میں دن رات ایک کرتے ہیں کہ وہ پیسہ جو الیکشن لڑنے پر استعمال ہوا اسے واپس کیسے اکٹھا کیا جائے۔ الیکشن جیتنے کے بعد خرچ کیا ہوا پیسہ واپس حاصل کرنا زندگی کا واحد مقصد بن جاتا ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ناجائز کام یہ تاجر اپنا حق سمجھ کرکرتے ہیں چاہے وہ سفارش ہو، رشوت ہو یا سینہ زوری ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کامیاب تاجر (وکلاء) امارات کی کئی منازل طے کرجاتے ہیں اور ایک کامیاب وکیل کہلانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ترقی کا یہ سفر ابتدا سے لے کر انتہا تک صرف اور صرف کرپشن ہے۔ بار کے بل بوتے پر عہدے کے گھمنڈ میں جب عہدے دار کسی کلائنٹ کا کیس لے کر معزز جج صاحبان کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو مجبورا جج صاحبان کو بار عہدے دار کی بات ماننا پڑتی ہے جس نہ صرف انصاف کا خون ہوتا ہے بلکہ نا اہل عہدے داروں کی قلعی بھی کھل کر سامنے آتی ہے لیکن افسوس کہ وہ کسی کو نظر نہیں آتی۔

کرپٹ مافیا کا اثرو رسوخ عدلیہ کو مسحور و محصور کرکے مطلوبہ نتائج برآمد کرلاتا ہے جس کی وجہ سے کلائنٹ پروفیشنل وکلاء کو چھوڑ کر ان کرپٹ عہدے داروں کا رُخ کرتے ہیں جن کا مقصد صرف الیکشن پر خرچ کیے ہوئے اخراجات کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان مٹھی بھر کرپٹ عناصر نے متوسط طبقہ کے وکلاء سے بار کی نمائندگی کا حق بھی چھین رکھا ہے کیونکہ ان کے پاس لاکھوں روپوں کا کھانا کھلانے، جلسہ کرنے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے۔ لیکن افسوس کہ ایک وقت کے کھانے کے چکر میں اپنے ضمیر کو بیچنے والے تاجر (وکلاء) اپنے ہی حق پر خود ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ جیتنے والے ممبران بار کے فنڈز کی بندر بانٹ بھی ایسے کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

ایسے میں امید کا ایک دیا ہاتھ میں لیے بار ایسوسی ایشن فیروزوالا کے ممبر اور وکیل لاہور ہائیکورٹ ”ایاز صفدر سندھو“ نے اپنے گھر یعنی فیروزوالا بار سے ایک تحریک کا آغاز کیا جس کا نام SAY NO TO ELECTION EXPENSES رکھا گیا۔ ایک ایسی تحریک جس کا خیال آج تک نہ کسی کو آیا اور نہ آگے کسی کو آسکے گا۔ الیکشن اخراجات، جیتنے کے بعد اجارہ داری، وکلاء کی عزت کو داؤ پر لگانے، پروفیشنلزم کے خاتمے اور کرپشن جیسے ناسور سے نپٹنے کے لیے ان کی اس تحریک کا جتنا خیر مقدم کیا جائے کم ہے۔

سے نو ٹُو الیکشن ایکسپنسز تحریک کے ذریعے وکلاء برادی اور خاص طور پر فیروزوالا بار میں یہ آگاہی پیدا کی جارہی ہے کہ الیکشن پر کسی قسم کے اخراجات نہ کیے جائیں، جو امیدوار اخراجات کرے گا اسے نا اہل قرار دیا جائے اور وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ اس تحریک کے اثرات یہ ہوں گے کہ ایک متوسط طبقے کا وکیل جو وافر مقدار میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بار الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا وہ بلاخوف و تردید الیکشن میں حصہ لے گا اور پروفیشنلزم کو فروغ دے گا۔

مجھے یہاں ایک بات یاد آئی، سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اسلام میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک فنکشن میں خطاب کررہے تھے اور انہوں نے بار کے صدر اور دیگر عہدے داروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”آج یہاں اس جگہ پر تمام بار عہدے دار مجھ سے وعدہ کریں کہ جب تک وہ بار کے عہدے دار ہیں ان کا وکالت نامہ کسی کیس میں کسی جج کے سامنے نہیں جائے گا اور ججز کو آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے دیں گے اور آپ جس مقصد کے لیے بار کے عہدے دار بنے ہیں اس کام کو احسن طریقے سے نبھائیے“۔ ان کی بات سے ہی بظاہر یہ لگتا تھا کہ بلکہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ کس حد تک بار ایسوسی ایشن کے عہدے دار فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ایسے میں ایاز صفدر سندھو کی تحریک وہ چنگاری ہے جسے ایک ایسی ہوا کی ضرورت ہے جو اسے فیروزوالا بار سے لے کر پاکستان کے چاروں صوبوں اور سپریم کورٹ تک پہنچائے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب وکلاء برادری اس کو سنجیدگی سے سمجھیں گے اور اپنے حقوق کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے پامال نہیں ہونے دیں گے۔ صرف بار کے الیکشنز ہی نہیں پاکستان میں دوسرے الیکشنز میں بھی یہی فارمولا اپلائی ہونا چاہیے۔ ان فیکٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ قانون بنانا چاہیے کہ جو شخص الیکشن پر اخراجات کرے گا وہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہوگا۔ اس سے نسل در نسل سیاسی اجارہ داری کو ختم کرنے کا موقعہ ملے گا۔ ایک غریب شخص پارلیمنٹ تک پہنچ سکے گا اور معاشرے میں موجود برائیوں کا احسن طریقے سے تدارک کرپائے گا۔ ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا عمل تو صدیوں سے چل رہا ہے اور اگر نہ سنبھلے تو آگے بھی چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).