شہرِِ کراچی ؛ مفلوک الحال کفیل


روشنیوں کا وہ دیا جس سے ہر گھر روشن تھا اب آندھیوں اور طوفان خیز جھکڑوں کی زد میں ہے اور اس دیے پر یہ تباہی برپا کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود کے محافظ اور نگران ہیں۔ کراچی ایک شہر جو انتہائی شفیق باپ کی طرح اپنے اندر ہر ایک کو سمیٹ کر اس کی کفالت کرتا رہا ہے، آج خود مفلوک الحال اور کسمپرسی کی حالت کا شکار ہے۔ محافظ اس روشن دیے کی حفاظت کا نام لے کر آپس میں دست و گریباں ہیں اور نقصان اس دیے سے فیض یاب ہونے والے اٹھا رہے ہیں۔ اہلِ کراچی کن مسائل اور پریشانیوں میں گھرے ہیں، ان کی کسی کو پروا نہیں تاہم کراچی پر حکمرانی کا شوق ہر ایک پال رہا ہے۔

ہم کراچی والوں نے ماضی کے چند سالوں میں ٹارگٹ کلنگز، خود کش حملوں، بوری بند لاشوں، ماورائے عدالت قتل، جعلی پولیس مقابلوں میں قتل اور کسی ’خود بخود‘ آگ لگ جانے کی وجہ سے زندوں سے مردہ ہوتے ہوئے لاش، اور اس جیسے کئی اندوہ ناک واقعات ’جمہوریت‘ کی موجودگی میں سہیں، اس سے ہی ہماری بے بسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم جب اس غندہ گردی کے گرد شکنجہ کسا گیا تو اہلِ کراچی نے سکھ کا سانس لیا کہ اب شاید ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔

مگر نہ بھئی ہم اگر سکون میں رہ گئے تو منتخب نمائندوں کو بیان بازی اور ایک دوسرے پر جملے کسنے کا موقع کیسے ملے گا کیونکہ کراچی میں سکون کا مطلب ہے پاکستانی کی آبادی کی ایک بڑا حصہ سکون اور امن میں ہیں۔ ہم کراچی والوں کی پشت پر بے درپے وار جاری ہے اور ہم پتا نہیں کیوں اتنے سخت جان اور ڈھیٹ ہیں کہ ہم پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔

پچھلے ایک سال سے کراچی میں تجاوزات کا آپریشن جاری ہے، تاہم اس آپریشن کے نتیجے میں بے روز گار وہ مزدور طبقہ ہورہا ہے جو تین سے چار دہائیوں سے اپنے پیشے سے منسلک ہوکر اپنے گھر والوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست بمشکل کرتا ہے۔ خیر سے یہ مزدور جو اپنی روزی روٹی کو برقرار مقامی پولیس اور سرکاری بھتہ خوروں کو روزانہ کی بنیاد پر بھتہ دے کر رکھ رہے تھے، ان سرکاری ملازموں کا بال بھی بیکا نہ کیا گیا، نہ کوئی تحقیق کی گئی کہ کیسے ان تجاوزات میں اضافہ ہوا اور نہ سرکاری بھتہ خوروں کو کٹہرے میں لایا گیا، ہاں زبانی کلامی یہ کہہ دیا گیا کہ ان مزدوروں کو متبادل فراہم ’کیا جائے! ۔ یعنی بے روزگاری میں اضافہ کے لئے‘ عملی اقدامات ’اور انہی اقدامات سے بے روزگاری کے اضافے میں کمی کے لئے محض‘ خوش کلامی ’۔ مسئلے کے حل کا یہ پہلو یہ ظاہر کرتا ہے سرکاری ملازمین کسی مسئلے کو حل کرنے اس قدر‘ ذہانت ’برتتے ہیں کہ وہ کسی اور مسئلے کا نقطہء آغاز بن جاتا ہے۔

پچھلے سال وزیراعظم نے جب کراچی کا دورہ کیا تو جہاں کراچی کے دیگر مسائل پر بات کی وہیں دو اہم باتیں کیں، ایک تو کراچی کے لئے 162 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا اور دوسرا کراچی میں موجود بنگالی مہاجرین اور افغان پنا ہ گزین کے شہریت کی بات کی اور ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجراء کے بارے میں بات کی۔ کراچی جہاں پاکستا ن کے دیگر شہروں سے آنے والے باشندوں کی کفالت کررہا ہے بالکل اسی طرح مہاجرین و پناہ گزین کے ایک کثیر تعداد کو اپنے سایہ ء شفقت میں لئے ہوئے ہیں۔

قطع نظر اس بحث سے کہ مہاجرین و پناہ گزین آخر کتنے سالوں بعد مقامی شہری کہلانے کے قابل ہوں گے اور یہ کہ ہمارا آئین اس سلسلے میں کس قدر لچک دار ہے، پاکستان کے قومی عصبیت پرست جماعتوں نے شہریت دینے کے اس اعلان کی مخالفت کی۔ اس چیز سے بے خبر اور جان بوجھ کر انجان ہو کر کہ ایک ’شہریت‘ کے کاغذ کا ٹکڑے کی موجودگی یا غیر موجودگی کس طرح اس طبقے کی تقدیر لکھ رہا ہے اور ان کے نسلوں کی ہر پشت نہ کیے ہوئے جرم کی چکی میں پس رہے ہیں ؛ یہ وہ بد نصیب لو گ ہیں جنہیں شودر ذات کی مانند قرار دیتے ہوئے تاحیات جہالت و غریبی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے، اور وزیراعظم صاحب جو انہیں حقوق دلانے نکلے تھے، حسبِ طبیعت اپنے اتحادیوں کی دباؤں کا شکار ہو کر اسے ایک بحث کا آغاز کہہ کر یوٹرن لے لیا۔ دوسری طرف کراچی کے لئے جس پیکج کا اعلان ہوا، وہ آج تک وفاقی حکومت کی طرف سے ادا نہیں کیا گیا، ہوسکتا ہے وزیراعظم صاحب یہ معاملہ ’بھول‘ گئے ہوں۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد جب سے تعلیم صوبائی حکومت کے تحت کردی گئی ہے، کراچی کے تعلیمی نظام پر قل خوانی پڑھنے کا تو گویا آغاز کردیا گیا۔ اعلیٰ تدریسی اداروں اور جامعات میں زیرِ تعلیم طلباء اور ان اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ اس سلسلے میں مسلسل پریشانی اور ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کررہے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے ہی کراچی کے مختلف جامعات میں اساتذہ کو ان کے متعلقہ جامعات کی طرف سے تنخواہ اور دیگر مراعات کی ادائیگی نہ کرنے وجہ سے، اساتذہ نے کلاسز کا طویل الوقت بائیکاٹ کیا۔

جہاں ان اساتذہ نے اپنی مالی پریشانیوں کے پیشِ نظر کلاسز کا بائیکاٹ کا جس کے نتیجے میں طلباء کی پڑھائی متاثر ہوئی اور ان کے تعلیمی اوقات کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ پچھلے ہفتے بھی سندھ بھر کی تمام جامعات کے اساتذہ نے کلاسز کا ایک روزہ بائیکاٹ کیا۔ جبکہ سندھ جامعات کے اساتذہ تنظیم ”فپواسا“ نے اس ہفتے 25 اور 26 ستمبر کو اساتذہ کا کلاسز کا بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ اور ان دو دنوں کے بائیکاٹ کے باوجود مطالبات نہ ماننے کی صورت میں غیر معینہ مدت تک کلاسز کے بائیکاٹ پر جانے کی خبردی ہے۔

جامعات اساتذہ کے وسائل نہ پورا کرنے کی وجہ تعلیمی مد میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے فنڈز کی نافراہمی بتا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے طلباء دوہرے مسائل کا شکار ہورہے ہیں، ایک تو کلاسز کے بائیکاٹ کی وجہ سے ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہے اور دوسری طرف حکومتی فنڈ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جامعات کی طرف سے فیس میں اضافے کی خبر طلباء پر ایک پریشانی کا اضافہ کررہی ہے۔

اس پررونق اور دریا دل شہر کو جس طرح سیاسی گدھ نوچ رہے ہیں، وہ ایک الگ لمحہ ء فکریہ ہے۔ حکمران جماعت جہاں کراچی کے حوالے خوش کلامیاں ہی سے نمٹ رہی ہے اور حال ہی میں کراچی کو وفاقی علاقہ بنانے کا جو شوشہ چھوڑا گیا اس سے حکومت کی کراچی سے سنجیدگی خوب واضح ہوتی ہے۔ تاہم اس شوشے پر سندھ کی آمر حکمران جماعت کے چئیرمین کی جو نفرت انگیزی عوام کے سامنے امڈ آئی ہے وہ ان بیانات کی یاد تازہ کرتی ہے جو 1970 ء کے انتخابات کے بعد ان کے سیاسی مائی باپ بھٹو نے دیے تھے اور مشرقی بازو میں علیحدگی پسند تحریک کو مزید جلا بخشی۔

اب حالت اس ڈگر پر ہے کہ نہ وفاقی حکومت کوئی سنجیدگی پر مبنی قدم اٹھا رہی ہے اور صوبائی حکومت نے کراچی کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ سندھ کے آثارِ قدیمہ میں موہن جو دڑو، ہڑپہ کے بعد کراچی جیسے ’تاریخی شہر‘ کا بھی اضافہ ہوجائے۔

وائے افسوس کراچی! تیری مفلوک الحالی پر،

تجھ شہرِ بے مثال کا کوئی کفیل نہ رہا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).