ڈبے کا سفر


پچھلے دس بیس سال میں اگر غور کریں تو کتنا کچھ بدل چکا ہے۔ ٹیلی فون، خط، عید کارڈ، ٹیلی گرام سب سمٹ کر موبائل میں آ گیا ہے۔ خبر، اخبار سے سفر کرتی ہوئی، پہلے ٹی وی اور پھر سوشل میڈیا پر پہنچ گئی۔ ٹیکسی، رکشہ بدل کر اُوبر اور کریم ہو گیا۔ انسائیکلوپیڈیا گیا گوگل آ گیا۔ ٹی وی جا رہا ہے اب یو ٹیوب کا دور دورہ ہے۔ ڈرامے اب چینلز سے زیادہ سٹریمنگ سروس پر نشر ہو رہے ہیں۔ مگر ایک چیز جو پچھلے 20 کیا 57 سال سے ٹس سے مس نہیں ہوئی وہ کراچی میں 1963 ماڈل کی بریڈ فورڈ بسیں ہیں جن کو ہم اپنے زمانہ طالب علمی میں ”ڈبے“ کے نام سے پُکارا کرتے تھے۔

کہانی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ میری گاڑی پچھلے دو ہفتے سے میکینک کے پاس صاحبِ فراش ہے۔ ویسے تو وہ پچھلے دو تین ماہ سے ہی خرابی کی علامت ظاہر کر رہی تھی۔ مگر ہم پرانی گاڑیوں کی خرابیوں کے ساتھ بالکل ویسے ہی جینا سیکھ جاتے ہیں جیسے عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بوڑھے لوگ اپنی بیماریوں کے عادی ہو جاتے ہیں اور اسے معمول کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جیسے بزرگ اپنی بیماریوں کو ٹالتے رہتے ہیں جب تک کہ سیدھا ایمرجنسی وارڈ جانے کی نوبت نہ آجائے، بالکل ویسے ہی دو ہفتے قبل میں گاڑی کو اپنے تئیں ایمرجنسی سے پہلے میکینک کے پاس لے کر جا رہا تھا۔

اس دن ایک دو کام اور بھی تھے۔ وہ مکمل کر کے جب بالآخر میں میکینک کی جانب ہی رواں دواں تھا کہ گاڑی راستے میں ہی ہانپ کانپ کے بند ہو گئی اور اسے لامحالہ جائے وقوعہ کے نزدیک ترین رہنے والے دوست کے مشورے پر ایک نئے میکینک کے حوالے کرنا پڑا۔ اس تعطل میں شاید میری ازلی سستی کے علاوہ ہمارے سات سال پرانے میکینک کی بددلی بھی شامل تھی، جو شاید روز روز ایک ہی گاڑی کو ٹھیک کرنے سے اُکتا سا گیا ہے اور من چاہے معاوضے کے باوجود اب ٹال مٹول کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے روز روز کے مریض سے ڈاکٹر بھی اُکتا جاتے ہیں مگر صاف الفاظ میں یہ کہہ نہیں پاتے کہ بھائی اب غم ہستی کی طرح یہ مرض نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت ہے اور شمع کو اسی رنگ میں جلنا ہے سحر ہونے تک۔

خیر قصہ مختصر شروع کے دو تین پرامید دن بے سود چکر لگانے اور ہر چکر پر 1000، 1200 روپے کریم پر تباہ کرنے کے بعد میں نے نقصان سے بچنے کے یہ سبیل نکالی کہ فون پر ہی حالات معلوم کرنے لگا۔ اس میں میرے پیسے تو بچ رہے تھے مگر بہتری کی رفتار بہت سست تھی۔ اس لیے تنگ آ کر آج چٹھی کے دن میکینک کی طرف خود جانے کی ٹھانی۔ کیونکہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ میرا کام ابھی تک ہوا کچھ بھی نہیں ہے اور اس دورے کا اصل مقصد صرف نفسیاتی دباؤ ڈالنا تھا اس لیے میں نے نقصان سے بچنے اور چُھٹی کی فراغت کو کام میں لانے کے واسطے ڈبے کے ذریعہ جانے کا فیصلہ کیا۔

یہ سفر کیا تھا ایسا لگا کہ کسی نے مجھے ٹائم مشین کے ذریعے ماضی کے سمندر میں غوطہ دے دیا ہو۔ ڈبے میں بیٹھتے ساتھ ہی جو پہلی خوشگوار حیرت ہوئی وہ یہ تھی کہ ڈبے کی بیرونی اور اندرونی حالات بالکل وہی تھے جیسا کہ آج سے 15 یا 20 سال پہلے میرے زمانہ طالبعلمی میں ہوا کرتے تھے۔ ساتھ ہی اس کی رفتار میں بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ انتظار کا وقت بھی اتنا ہی تھا۔ ڈبہ آج بھی وقت کی رفتار سے قطع نظرسڑک پر خرامہ خرامہ اُسی انداز اور رفتار سے چلتا ہے جیسے مغل دور میں شاہی سواری کے ہاتھی چلا کرتے تھے۔

جس طرح بادشاہ کو ہاتھی پر بیٹھ کر ساری رعایا کم تر اور زیرِ نگیں معلوم ہوتی تھی اسی طرح ڈبّے میں بیٹھ کر ایک عام آدمی بھی اپنے آپ کو سڑک پر چلنے والی باقی ساری مخلوق سے بلند تر اور افضل محسوس کر تا ہے۔ چاہے وہ دائیں بائیں چلنے والی جدید مہنگی اے سی گاڑیاں ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ نہ جانتے ہوئے بھی ڈبّے کے ڈرائیور کا مزاج اور احساس ضرور اسی لذت سے ہمکنار ہوتا ہوگا جو کسی زمانے میں صرف شاہی ہاتھی کے مہار کا خاصہ ہوتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سواریاں چاہے جتنا بھی شور شرابہ یا منّت کریں، ڈرائیور استاد سب سے لا تعلق صرف اپنی مرضی اور رفتار سے ہی چلتے ہیں۔

سفر کرتے ہوئے مجھے آج بہت عرصے کے بعد اُن ہی جانے پہچانے راستوں کے مناظر بہت مختلف نظر آئے جن پر میں پچھلے کئی برس سے گزرتا رہا ہوں۔ اس کی وجہ شاید دنیا کو دیکھنے کا وہ ونٹیج پوائنٹ یا مقام افضل نقطہ ہے جو صرف اس طرح کی بلندی پر سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

شاید اسی بلندی کا فیضان ہے کہ آپ اکثر ڈبّے میں سفر کرتے لوگوں کو بلا تامل اجنبی لوگوں کے ساتھ ملکی اور علمی مسائل، مذہب، فلسفہ اور سائنس پر بصیرت بھری گفتگو کرتے ہوئے پائیں گے۔ دنیا اور رعایا کو بلندی سے دیکھنے کی اسی چاٹ میں صاحبِ اقتدار لوگ ویگو، سرف اور لینڈ کروزر کی طرح کی اونچی گاڑیاں اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ پھر وہ بھی اختیار و اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر اسی قماش کی گفتگو کر نے لگتے ہیں جو ڈبے کے مسافروں کا وتیرہ ہے۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ عام لوگوں اور طالب علموں کوافضلیت کا یہ مقام ڈبّے کی سواری کے طفیل بن مانگے روکن میں میسر ہے۔

میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں، جب کہ ڈبہ کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا، اس میں مسافروں کو انتہائی فلسفیانہ اور مدلّل انداز میں بہت بنیادی استحقاق، یعنی کرسی کے حصول کے لیے لڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کرسی کا حصول ایک آفاقی آرزو ہو جو کہ بلندی نظر کے ساتھ ساتھ انسان کے دل میں کروٹ لیتی ہے اور اس کو سکون اور آرام کے نت نئے خواب دیکھا تی ہے۔

تو میں یہ کہ رہا تھا کہ سفر کی دوران راستہ نیا نیا سا لگنے کی وجہ ایک تو بلندی نظر بھی ہو سکتی ہے اور دوسرا یہ کہ خود ڈرائیو کرتے ہوئے انسان کی توجہ راستے کی طرف زیادہ اور منظر کی طرف کم ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ سب کچھ جو ہمارے منظر کا تو حصہ ہے مگر ہمارے راستے میں نہیں آ رہا ہم اس پر توجہ نہیں دیتے۔ مثلاً میں نے راستے میں کچرا کنڈی پر گائے کے ایک ریوڑ کو چرتے ہوئے دیکھا۔ اب کراچی کے کینوس پر یہ منظر ایک عام سی حقیقت ہے مگر آج شاید ڈبّے کے طفیل ہی یہ خیال آیا کہ کچرا کنڈی پر کون سا سبزہ اور چارہ اُگتا ہے جو یہ جانور اتنے انہماک سے کھا رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے کسی زمانے میں یہاں گلے سڑے پھل سبزی بھی ہوتی ہوگی مگر آج مہنگائی کہ اس دور میں آپ یہ توقع نہیں کرسکتے۔ بالفرض اگر کچرے کے اس ڈ ہیر سے وہ کچھ کھانے لائق ڈھونڈھ بھی لیتی ہیں تو وہ سب کھا کر کیا یہ جانور جراثیم سے پاک دودھ دے سکیں گے؟ آخر یہ کشٹ ان کے حصے میں ہی کیوں آیا ہے کہ وہ تو در در بھٹک کر اپنا رزق تلاش کریں اور ان ہی کی خالہ زاد نسل یعنی بھینس آرام سے باڑے میں ہی بنا ہوا چارہ پائیں؟

اتنے میں کنڈیکٹر میرے پاس آیا۔ میں نے اسے احتیاطاً 50 کا نوٹ دیا اور اس نے 25 روپے کاٹ کر باقی پیسے واپس کر دیے۔ خیال رہے کہ رکشے یا کریم والا اتنے راستے کہ 300 سے کم ہر گز نہیں لے سکتا۔ اس لحاظ سے یہ سفر کا ایک انتہائی کم خرچ آپشن ہے۔ تاہم جو بچت آپ پیسوں میں کر رہے ہیں اس کی کسر وقت کی صورت میں پوری ہو جاتی ہے۔ میرا خیال ہے دنیا کی ساری ترقی اور ایجادات کا مقصد صرف انسان کا وقت بچانا ہے۔ کیونکہ انسان کے پاس وقت دراصل محدود ہے اور اصل میں وقت ہی انسان کی واحد دولت اور پونجی ہے۔ انسان اپنی اس سرمایہ کاری کو جب کام میں لگاتا ہے تو پیسہ کماتا ہے اور پھر اس پیسے سے دیگر آسائشیں خریدتا ہے۔ جب انسان اپنے وقت کو دوسرے انسانوں میں انویسٹ کرتا ہے تو رشتے اور تعلق کماتا ہے اور اس تعلق سے محبت حاصل کرتا ہے۔

ڈبّے میں بیٹھ کر وہ بہت سارے منظر جو میں کب کا بھلا چکا تھا، واپس آ گئے۔ جیسا کہ وہ ایک چلتا پھرتا دکاندار جو اپنی انگلیوں میں ہی پورا جمعہ بازار لگائے پھر تا ہے۔ اس کے پاس کراچی کے دھوئیں کا علاج یعنی پیپرمنٹ کی گولیاں، شناختی کارڈ کے کور، اور رومال سے لے کر چابیوں کے چھلے سب 10 روپے میں دستیاب تھے۔ پھر وہ فقیر جو قابل رحم حد تک کمزور ہے مگر روز درجنوں بسوں میں تیزی سے چڑھتا اترتا رہتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ میں 50 یا 75 پیسے دے کر پورے شہر کا سفر کر لیتا تھا۔

ڈبّے کا سفر جو ماضی میں غوطہ کھاتا ہے تو وہ صرف سب کچھ خوبصورت ہی نہیں ڈھونڈ کر لایا، بلکہ کچھ پرانے خوف بھی ساتھ ہی یاد آ گئے۔ اس سے جڑ ی پرانی تکلیف دہ یادوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نیم خالی ڈبّے، بس لوٹنے والوں کے لیے بہترین آپشن ہوتے تھے۔ صرف مسافر ہی اس ہوادار سواری کو گٹھی گٹھی سی منی بسوں پر ترجیح نہیں دیتے تھے بلکہ بس لوٹنے والے بھی اس کو پسند کرتے تھے۔ اس واسطے کہ ڈبّے میں ان کے لیے تیزی سے اپنا چھیننے جھپٹنے کا کام نمٹانے کے ساتھ ساتھ اپنے اور مسافروں کے درمیان ایک باوقار فاصلھ رکھنا بھی نسبتاً آسان تھا۔

فاصلے سے ہی یاد آیا کہ لڑکپن کے زمانے میں ڈبّے کے سفر کے دوران سب سے زیادہ خوف صدر کے علاقے سے گزرنے کے دوران اس وقت آیا کرتا تھا جب کوئی اس عمر کا آدمی کہ جس عمر کا اب میں خود ہوں، خالی بس چھوڑ کر میرے ساتھ والی سیٹ پر آ کر بیٹھ جائے۔ اس طرح کے لوگ کبھی خاموشی سے اپنی ٹانگ آپ کے ساتھ مس کرنے لگتے تھے یا پھر اپنا ہاتھ انتہائی بے تکلفی سے آپ کی ران پر رکھ دیتے تھے۔ اس صورت میں حل صرف یہ تھا کہ آپ سختی سے اُن کو جھٹک دیں جس کے بعد وہ فوراً اٹھ کر بس سے ہی اتر جاتے تھے۔

خیر انہی سوچوں کے درمیان میری منزل آ گئی اور میں لڑکپن کی طرح سٹاپ سے پہلے ہی دروازے میں جا کھڑا ہوا اور پھر دروازے پر ایک دف دیا۔ جیسے ہی رفتار کم ہوئی میں بس رکنے کا انتظار کیے بغیر چھوٹی سی چھلانگ لگا کر دوڑتا ہوا اُتر گیا۔ یہ سب کر کے مجھے اپنا آپ پھر سے 20 سال پہلے والا لگا اور ایک لمحے کے لیے میں نے اپنے آپ کو واپس لڑکپن میں محسوس کیا۔

شہزاد احمد، ملیر
Latest posts by شہزاد احمد، ملیر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).