مفتی محمود سے فضل الرحمن تک۔۔ اذانوں کی سیاست


اسلام آباد کا موسم کروٹ بدل رہا ہے گرم موسم رخصت ہو رہا ہے اور جاڑا انگڑائیاں لے رہا ہے۔ جاڑے کے اس موسم میں سیاسی موسم گرم ہونے کو ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کا اعلان کر دیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اس مارچ میں رقص کی محفل نہیں ہو گی بلکہ مارچ کے شرکاء آذانیں دیتے آگے بڑھیں گے۔ اذانوں کے لفظ سے میرا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں حالات ہمیں آج سے چار دہائیاں پیچھے کی طرف تو نہیں لے جا رہے۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ ترمذی اپنی کتاب ”حساس ادارے“ میں لکھتے ہیں کہ دسمبر 1976 ء میں بھٹو نے ملک میں اگلے سال یعنی 77 ء میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ بھٹو کا اعلان کرنا تھا کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں متحدہ جمہوری محاذ کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئی۔ جنوری 77 ء میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا گیا اور سات مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی، اپوزیشن لیڈر سر جوڑ کر بیٹھ گئے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر بھٹو دشنمی میں ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ ایک نیا اتحاد بنایا گیا جس کا نام پاکستان قومی اتحاد رکھا گیا۔ اس اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان کے والد گرامی مفتی محمود مرحوم بنائے گئے۔ نوابزادہ نصراللہ کو نائب صدر بنایا گیا۔

مقررہ وقت پر انتخابات ہوئے بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے ملک گیر کامیابی حاصل کی۔ انتخابی نتائج کے بعد اپوزیشن نے انھیں جعلی انتخابات کہہ کر ملک گیر احتجاج کی کال دی۔ بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ جمعیت علمائے پاکستان نے ”بھٹو ہٹاو“ تحریک کو نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعرے کے حوالے سے ہائی جیک کر لیا اور جو تحریک حکومت کی انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور دوبارہ انتخابات کرانے کے مطالبے سے شروع ہوئی وہ نفاذ نظام مصطفیٰ کے مطالبے کی تحریک بن گئی۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول ہوا کہ قومی اتحاد کے بیشتر حامی اسے اپنا ایمان کا حصہ بنا بیٹھے اب ان کے نزدیک اس نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ذوالفقار بھٹو تھے۔ بھٹو کی شخصیت اس تحریک کا سب سے بڑا نشانہ بن گئی اور بظاہر صرف ایک مقصد تھا کہ ہر قیمت پر بھٹو سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

ترمذی آگے لکھتے ہیں کہ تحریک کو موثر بنانے کے لیے ایک عجیب و غریب طریقہ کار اختیار کیا گیا نظام مصطفیٰ کے حق میں نکالے جانے والے جلوسوں میں دینی مدارس کے نوجوان طلباء جوق در جوق شریک ہو رہے تھے انھوں نے کرفیوکے اوقات اور نماز عشاء کے بعد تسلسل سے مساجد اور گھروں کی چھتوں پر وقت بے وقت اذانیں دینے کا سلسلہ شروع کیا ”معزز موذنوں“ کو 15 روپے فی آذان کے حساب سے ادائیگی کی جا رہی تھی۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہماری تحریک جعلی حکومت کے گھر جانے تک رہے گی۔ 27 اکتوبر کو ہمارے قافلے اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہوں گے ہمارے قافلے اذانیں دیتے جائیں گے۔ بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والوں کا خیال تھا کہ فوج کی نگرانی میں صاف شفاف انتخابات دوبارہ کراوئیں جائیں مگر یہ بات بھٹو نے نہیں مانی۔ عمران خان سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ فوری استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کا اعلان کریں۔ تحریک انصاف کی حکومت بنے ابھی بمشکل ایک سال سے زائد عرصہ ہوا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے لوگوں سے تحفظ ناموس رسالت کے نام پر لوگوں سے چندا اکٹھا کیا ہے۔ لوگوں کے جذبات سے مذہب کے نام پر کھیلا جا رہا ہے۔ بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا کو کہاں سے اشارہ ملا کہ اُنھوں نے آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔ اگر انھیں مقتدر قوتوں سے اشارہ ملا ہے تو پھر انھیں عمران کے ساتھ چلنے میں مسئلہ کیا ہے؟ عمران خان تو مقتدرہ کی پسندیدہ ترین شخصیت ہیں۔

بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں مذہب کارڈ کو خوبصورتی سے کھیلا گیا اور اطلاعات ہیں کہ یہ تحریک بھی شروع میں عمران ہٹاؤ کے نام سے ہو گی اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے تحفظ ناموس رسالت کا نام دیا جائے گا۔ بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کو مولانا مفتی محمود قیادت کر رہے تھے اور اب اُن کا بیٹا مولانا فضل الرحمان اس تحریک کے روح رواں ہیں۔

مولانا کے مارچ کو لے کر ن لیگ اور پیپلزپارٹی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں ضیاء اور مشرف کے مارشل لاء سے ڈسی ہوئی ہیں۔ ابھی تک وہ مارشل لاء کے لگے زخموں کو سہلا رہی ہیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی مارچ میں مذہب کارڈ کے استعمال کے بھی خلاف ہیں۔ اگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہ کیا تو کہیں ہم چار دہائیاں پیچھے نہ چلے جائیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui