میڈیا مالکان کارکن کا دکھ کیا جانیں؟


پاکستان میں پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا سے کارکنوں کی مستقل بنیادوں پر چھانٹیاں بتارہی ہیں کہ ملک کی میڈیا انڈسٹری اب بیٹھنے والی ہے۔

میڈیا مالکان اوران اداروں میں لاکھوں روپے سیلری لینے والے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسران تو اپنی عاقبت بھی سنوار چلے اوراپنی کمائی ہوئی اچھی خاصی رقم بھی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی بزنس میں لگا کر لاکھوں روپے ماہانہ کمائی کا ذریعہ بھی بناچکے اورہرآنیوالی حکومت میں اپنا اثررسوخ اور اتنے تعلقات بھی مضبوط کرچکے کہ ان کی تو پانچوں انگلیاں ہی گھی میں رہنے لگیں، ان کو اور ان کے خاندانوں کو تو میڈیا کے بحرانوں کی ہوا تک نہیں لگ پاتی۔

یہاں رونا ان کارکنوں کا ہے جو تھوڑی سی تنخواہ میں انتہائی ایمانداری اور پوری ذمہ داری سے ان اداروں میں اپنے جیون کے قیمتی دن و رات اس امید پر لٹاتے رہے ہیں کہ اس کے بدلے میں ان کو اوران کے خاندان کو دو وقت کی روٹی نصیب رہے گی لیکن اس ملک اور اس کے اداروں کو ایسے افراد کی شاید ضرورت ہی نہیں۔ یہاں ایمانداری اور سچائی سے کام کرنا تو جیسے سب سے بڑا گناہ بن جاتا ہے۔

دوسرے اداروں کا تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں ڈیسک پر کام کرنے والے کارکن ہمیشہ ہی کام کی زیادتی اور افسران بالا کے عتاب کا شکار رہے ہیں۔

ان اداروں میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے جب بھی کوئی قیامت ٹوٹتی ہے تو سب سے پہلا شکار ڈیسک کا ادنیٰ سا کارکن ہی بن جاتا ہے۔

وہی کارکن جو جی جان لگا کر اس ادارے کی بہتری کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتا ہے، جو ان اداروں کو اپنا ادارہ سمجھ کر اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کے ساتھ گزارنے والا وقت بھی یہیں صرف کردیتا ہے۔

وہی ادنیٰ سا کارکن جس کی عیدیں، آزادی، محرم اور گرمیوں سردیوں کی صبحیں، شامیں اور راتیں انہیں اداروں میں گزرتی ہیں، جس کے لئے چھٹی جیسا لفظ کوئی معنی نہیں رکھتا، بارش ہو، ہڑتال ہو یا شہر لاک ڈاون ہو، ہر صورت میں اسے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے آفیس پہنچنا لازمی ہوتا ہے، ایسے پرخطر مراحل طئے کرکے آفیس پہنچنے والے کارکن کی اہمیت یہ ہوتی ہے کہ برائے نام بحران کی صورتحال میں یہی ادنیٰ سا کارکن ان اداروں کے مالکان اور بالا افسران پر سب سے بھاری پڑتا ہے۔

ان اداروں کے مالکان اوربالا افسران کو لگتا ہے کہ ڈیسک پر کام کرنے والے ان دوچار بندوں میں سے کسی کو فارغ کرنے سے ان کے تمام ترحالات سدھر جائیں گے اور ادارہ ان دوچار کارکنوں کی گنتی کی تنخواہ بچانے سے خوشحال ہوجائے گا۔

بظاہر دکھنے والے ان اداروں کے مالی بحران دراصل سرمایہ کاروں کی ایک بہت بڑی چال ہوتی ہے جو وہ اپنے خفیہ فائدوں اور مقاصد حاصل کرنے کے لئے چلتے ہیں اور انہیں اس کا تھوڑا سا بھی احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اس چال میں جن کارکنوں کی روزی پر لات مارنے جارہے ہیں اس سے ان کے خاندانوں کا کیا حال ہوگا؟

ان کے بچوں کی تعلیم کیسے پوری ہوسکے گی، ان کے بوڑھے ماں باپ کی دوائیں کیسے آئیں گی، ان کے گھروں کا کرایہ کیسے ادا ہوگا؟

ان کارکنوں میں اکثریت بھی ان ہی کی ہوتی ہے جو کرائے کے مکانوں میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، ہر مہینے گھر کا راشن، بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کرکے بڑی مشکل سے تیس دن پورے کرنے میں لگے رہتے ہیں لیکن بحران کے نام پر جب بھی مالکان کی نیت خراب ہوتی ہے تو نزلہ اسی کارکن پر تنخواہیں لیٹ ملنے کی صورت میں گرتا ہے اور اکثر یہ دیری دو سے تین مہینوں تک بھی چلی جاتی ہے۔

ایسی صورتحال میں بھی یہ کارکن مانگ تانگ کے، بار بار، ہر بار ادھار لے کر بھی انہی اداروں میں اس امید پر پڑے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی روز تو ادارے کی صورتحال صحیح ہوگی اور ان کا نصیب بھی بدلے گا لیکن تاحال نہ ان اداروں کی صورتحال تبدیل ہوئی اور نہ ہی ان کارکنوں کا نصیب بدلا۔

اب تو ہر آنے والے دن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اداروں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی صورت میں کارکنوں کی برطرفیاں یہ بتارہی ہیں کہ آنے والا وقت ان کے لئے اور بھی کٹھن ہوگا۔

اب جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا ہے تو ہی انہیں سمجھ میں آیا ہے کہ اپنی عمر کے قیمتی دن، ہفتے، مہینے اور سال جو ان اداروں کے لئے وقف کیے تھے۔ بیس بیس تیس تیس سال جو ان اداروں کو دیے تھے اس سے انہوں نے کیا پایا ہے؟ ۔ اب پتہ چلا ہے کہ پایا تو کچھ بھی نہیں بس صرف کھویا ہی کھویا ہے۔ اپنے قیمتی دن و رات، اپنی صبح اور شامیں، اپنے پیارے دوست احباب، رشتیدار، پڑوسی، اپنی آزادی اور بیش قیمت ماضی۔

یہ میڈیا مالکان اور بالا افسران مل کر بھی چاہیں تو وہ ان کے بیش بہا ماضی کو نہیں لوٹا سکتے، وہ ادارے سے ان کی دلی وابستگی کی تھوڑی سی بھی قیمت ادا نہیں کرسکتے، وہ ان کے اس وقت کا نعم البدل کبھی نہیں دے سکتے جو انہوں نے اس ادارے کو بنانے میں لگایا تھا۔ ایسے اداروں کے مالکان صرف پیسا ہی بنانا جانتے ہیں وہ کسی کارکن کا دکھ کیا جانیں؟!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).