چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی پریس کانفرنس: میں جو نباہتا ہوں، میرا ہی حوصلہ ہے  


احتساب بیورو کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اس تاثر کو سختی سے مسترد کیا ہے کہ نیب ملک کے تاجروں کے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ نیب قانون کے تحت کام کرتا ہے اور وہ بڑے سرمایہ داروں یا تاجروں کے مسائل میں اضافہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

اس پریس کانفرنس کے دوران نیب کے چئیر مین نے خاص طور سے گزشتہ ہفتہ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان سے تاجروں کے مختلف وفود کی ملاقات کا حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں نیب کی شکایات کرنے والے ایک بڑے سیٹھ نے چند روز پہلے ہی نیب کو توصیفی خط لکھا تھا جس میں نیب کی کارکردگی کی تعریف کی گئی تھی۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا دعویٰ تھا کہ نیب کو ایسا ایک نہیں بلکہ تین توصیفی خطوط موصول ہوئے ہیں۔ ان خطوں میں ملک کے بڑے سیٹھوں نے نیب کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہی سیٹھ آرمی چیف سے بے بنیاد شکایات کرنے پہنچ گئے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ضرورت پڑنے پر نیب ان خطوط کو جاری کرسکتی ہے۔ تاہم چونکہ کسی کی عزت نفس مجروح کرنا مقصود نہیں ہے ، اس لئے کسی کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔

چئیر مین نیب کی یہ پریس کانفرنس کئی لحاظ سے ملک میں احتساب کے نظام اور اسے نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے سے نئے اور گنجلک سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آئین کے تحت احتساب بیورو کو ایک خاص کام سونپا گیا ہے اور اس کے سربراہ کا کام اس ادارے کی نگرانی کےعلاوہ اس کی کارکردگی کو قانون اور آئین کے تحت سرانجام دینا ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نیب کے پبلک ریلیشنز آفیسر کی خدمات سرانجام دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر پریس کانفرنس کے ذریعے سیاسی  نوعیت کے بیان جاری کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے کہ وہ سیاست دان نہیں ہیں۔ نیب کے سربراہ کو یہ اندازہ کرنا چاہئے کہ جب وہ غیر سیاسی فرد ہوتے ہوئے ، ایک آئینی ادارے کے چئیر مین کے طور پر سیاسی باتیں کریں گے تو اس سے ان کی کارکردگی اور نیک نیتی کے بارے میں سوالات جنم لیں گے۔

احتساب بیورو کی خراب کارکردگی کے بارے میں تو اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات نیب سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران اکثر و بیشتر ناراضی اور مایوسی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال خود سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں ، اس لئے انہیں بخوبی احساس ہونا چاہئے کہ کس قسم کی بے اعتدالی، غیر قانونی اقدامات اور اختیارات سے تجاوز کے کون سے معاملات ملکی قانون اور طریقہ کار کی زد میں آتے ہیں۔ اپوزیشن کے سیاست دان نیب کو ایک ایسا ادارہ قرار دیتے ہیں جو حکومت وقت انتقامی کارروائیوں کے لئے استعمال کررہی ہے۔

 اس کا عملی مظاہرہ نیب نے اپوزیشن کے تمام اہم لیڈروں کو مختلف الزامات میں گرفتار کرتے ہوئے، ان کا ریمانڈ حاصل کرکے کیا ہے۔ طویل عرصہ ریمانڈ کے باوجود نیب ان سیاست دانوں کے خلاف ریفرنس عدالتوں میں پیش کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ احتساب عدالتوں میں ’انصاف‘ اور قانون پسندی کا بھانڈا تو ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل میں ہی پھوٹ چکا ہے ۔ اس جج کو سپریم کورٹ ملک بھر کے ججوں کے لئے باعث شرم قرار دے چکی ہے۔ اور اب ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ انضباطی کارروائی کررہی ہے۔ اس کے باوجود نیب کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے اور اپنا طریقہ کار بدلنے کا اشارہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ اس کے چئیر مین ہر تھوڑے عرصے کے بعد ملک کے میڈیا کے سامنے یوں بیانات جاری کرتے ہیں جیسے ملک کے نظام کی اصلاح اور بدعنوانی کا خاتمہ ان کا ذاتی ایجنڈا ہے اور وہ کسی قانون یا طریقہ کار کے پابند نہیں ہیں۔ اگر وہ اس عہدے کی ذمہ داری قبول کرنے کے قابل ہوتے تو وہ دعوے کرنے، اپنے منہ میاں مٹھو بننے اور کرپشن کے خاتمہ کے عمل کو سیاسی بنانے کی بجائے، اپنے ادارے کی کارکردگی کو شفاف اور بہتر بنانے میں ساری صلاحیتیں صرف کرتے۔

آج کی پریس کانفرنس میں انہوں نے آرمی چیف کے پاس بعض تاجروں کی طرف سے نیب کی شکایت کے معاملہ پر بات کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی تنقید کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے، اس لئے انہوں نے پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھا۔ حالانکہ پہلے انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ کہ انہیں کس ذریعے سے یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران تاجروں نے آرمی چیف سے نیب کی شکایت کرنے کے لئے ملاقات کی تھی۔

 اس ملاقات کے بارے میں آئی ایس پی آر نے جو پریس ریلیز جاری کی تھی ، اس میں تو اس قسم کی شکائیتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ آرمی چیف نے حکومت کی اقتصادی ٹیم اور تاجروں کے ساتھ ’معیشت اور سیکورٹی‘ کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کی تھی جس میں پاک فوج کے سربراہ نے بھی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس پریس ریلیز میں جو اس ملاقات کے بارے میں واحد سرکاری بیان ہے، نیب یا تاجروں کی شکایات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس ملاقات یا سیمینار کے بارے میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے پہلے اور بعد میں سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر مختلف چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ نیب کیےسربراہ جیسے ذمہ دار عہدے پر فائز شخص اگر ان اخباری قیاس آرائیوں کی بنیاد پر اپنی ’پوزیشن‘ واضح کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو یہ اس عہدہ کے وقار اور اس ادارے کی بنیادی اخلاقیات کے منافی اقدام سمجھا جانا چاہئے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کا یہ استدلال بھی سطحی اور ناقابل قبول ہے کہ جو لوگ نیب کے بارے میں شکایت کرتے ہیں، وہ نیب کو توصیفی خطوط بھی لکھتے ہیں۔ یہ دلیل تو خود نیب کی کارکردگی اور بطور ادارہ اس کی نوعیت و حیثیت پر سوالیہ نشان لگانے کا سبب بنے گی کہ نیب کیوں یہ توقع کرتا ہے کہ تاجر یا دیگر نمایاں لوگ نیب کو توصیفی خطوط ارسال کریں۔ چئیر مین سمیت نیب کے سب افسر اور اہلکار سرکاری خزانہ سے تنخواہیں لیتے ہیں اس طرح انہیں پبلک سرونٹ کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس معاوضہ کے بدلے قانون کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں۔ چئیرمین نیب کوتوصیفی خطوط جاری کرنے کی ڈھکی چھپی دھمکی دینے کی بجائے یہ جواب دینا چاہئے کہ لوگ کیوں نیب کو خط لکھ کر تعریف کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے شکایات ہیں۔ وہ کون سی مجبوری ہے جو ان لوگوں کو اصل صورت حال کے برعکس نیب کی تعریف کرنے پر مجبور کرتی ہے؟

ملک میں اس وقت احتساب بیورو کی کارکردگی اور اس کا طریقہ کار وجہ نزاع بنا ہؤا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے موجودہ سربراہ کا ذاتی کردار اور غیر جانبداری بھی مشکوک ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے خود پر جنسی ہراس کے ل الزامات کا مناسب جواب دینے یا اس حوالے سے خود کو ملکی قانون کے حوالے کرنے کا حوصلہ نہیں کیا تھا۔ نہ ہی انہوں نے آج تک اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی ان سے ملاقات کرنا کیوں ضروری سمجھا۔ کیا یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ نیب کرپشن کے خلاف عمران خان کے سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کے لئے کام کرے گا؟ ملک کے وزیر اعظم کو یوں اپنی خدمات پیش کرنے والا کوئی شخص کیوں کر غیرجانبدار اور بدعنوانی کے معاملات میں قابل بھروسہ امپائر کا کرداد ادا کرسکتا ہے؟

اسلام آباد میں ہونے والی پریس کانفرنس میں جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایک چار رکنی کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا ہے جو تاجروں کے خلاف معاملات پر نیب کو مشورہ دے گی کہ ان پر نیب کارروائی کرے یا وہ معاملات کسی دوسرے ادارے کو منتقل کردیے جائیں۔ اول تو قانون دان کے طور پر جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بتانا چاہئے کہ انہوں نے نیب کے کس مینڈیٹ اور ضابطے کے تحت یہ اقدام کیا ہے؟ کمیٹی قائم کرنے کا یہ اعلان وزیر اعظم عمران خان کے اس وعدے کے عین مطابق ہے جو انہوں نے گزشتہ ہفتہ کے دوران نیب کے معاملہ پر شکایات دور کرنے کے لئے کیا تھا۔ تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے یہ وعدہ کیا تھا۔ اب نیب کے چئیر مین اس دعوے کی تکمیل کا اعلان کررہے ہیں۔

کیا یہ نیب کی خود مختاری کو سر عام نیلام کرنے کا اعتراف نہیں ہے؟ جب ایک خود مختار آئین ادارہ ملک کے انتظامی سربراہ کے وعدوں کی تکمیل کا سبب بنے گا تو اس کی خود مختاری پر اٹھنے والے کسی سوال کا جواب دینا ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس سے تو یہ تاثر قوی ہوگا کہ نیب کو حکومت کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali