سرد جنگ میں روسی جاسوسی کا داستانوی کردار: روڈلف ایبل


کارروائی کا آغاز تب ہوا تھا جب سوویت جاسوس جرمنوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ سوویت فوج کے عقب میں جرمن تخریب کاروں کا ایک گروہ تشکیل دیا جا چکا ہے۔ ہٹلر کے مرغوب ”اوّل نمبر تخریب کار“ اوٹو سکوتسینی کو اس داستان پر یقین ہو گیا تو اس نے اس گروہ کی مدد کے لیے بیس سے زیادہ جاسوسوں کو بھجوا دیا۔ وہ سب کے سب نرغے میں لے لیے گئے تھے۔ جنگ کے اختتام تک جرمن فوج کو معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ انہیں کس نے نکیل ڈال کر کھینچا تھا۔ ہٹلر کی فوجوں کی جانب سے آخری پیغام مئی 1945 میں یہ گیا تھا: ”کوئی مدد نہیں کر سکتے، رضائے الٰہی پہ تکیہ کرو“۔

خارج از امکان نہیں کہ فشر نے تن تنہا جرمنوں کے عقب میں ہونے کا کھیل کھیلا ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس بارے میں بڑی کہانیاں ہیں۔ معروف روسی جاسوس کونن مالادوئے یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے : جیسے ہی اسے محاذ جنگ پہ پھینکا گیا، اسے جرمنوں نے فورآ ہی پکڑ لیا اور تفتیش کے لیے صد جاسوسی ادارے کے پاس بھجوا دیا

تھا۔ اس سے پوچھ گچھ کرنے والے افسر کونون مولودوئے نے ولیم کو پہچان لیا تھا۔ بڑوں نے اس سے پوچھ گچھ کی تھی لیکن جن کی تلاش تھی ان کے ملتے ہی اس کو ”احمق“ قرار دے کر لات مار کر دروازے سے باہر کر دیا تھا۔ ایسا تھا یا نہیں تھا؟ لیکن مولودوئے کی معاملات کو پراسرار بنا دینے کی عادت سے واقف ہوتے ہوئے، ایک بات تو ذہن میں آتی ہے کہ کچھ تو بہرطور ضرور تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد فشر کو خصوصی محفوظ افسروں میں شامل کر لیا گیا تھا اور اسے بتدریج طویل المدتی سرگرمیوں کے لیے تربیت دیا جانا شروع کر دیا گیا ہے۔ وہ اب تینتالیس برس کا تھا اور اسے بہت زیادہ تجربہ بھی ہوچکا تھا۔ ولیم ریڈیو سے وابستہ آلات سے اچھی طرح نمٹ سکتا تھا، کیمیا اور طبیعیات سے خاطر خواہ طور پر آگاہ تھا۔ بجلی سے وابستہ معاملات کا ماہر تھا۔ پیشہ ورانہ طور پر مصوری کر سکتا تھا۔ چھ غیر ملکی زبانیں جانتا تھا، گٹار زبردست بجا لیتا تھا۔ مضامین و انشائیے لکھ لیتا تھا۔ اپنے پیشے سے متعلق وہ کہا کرتا تھا، ”جاسوسی کرنا ایک اعلٰی درجے کا فن ہے۔ یہ تخلیق کاری، صلاحیت اور قلبی طمانیت ہے“۔

14 نومبر 1948 کو کینیڈا کے شہر کیوبک میں بحری جہاز ”سکیفیا“ پہنچا تھا۔ اس کے مسافروں میں لتھونیائی امریکی بھی تھا، جس کو دو روز بعد امریکہ میں ایک ”آزاد روش مصور“ کے طور پر ایمل گولڈفوس کے نام سے قانونی ہونا تھا۔

اس دوران فشر نے ”مارک“ کے جعلی نام کے ساتتھ پورے امریکہ میں سوویت جاسوسی کا ڈھانچہ تشکیل دینے کا بہت بڑا کام کیا تھا۔ اس نے مخبروں کے دو جال بچھائے تھے، ایک کیلیفورنیا کا، دوسرے میں میکسیکو، برازیل، ارجنٹائن اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پورے مشرقی ساحلی علاقے میں پہلے سے موجود جاسوس شامل تھے۔ اتنا کچھ کرنا ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شخص کا ہی کام تھا۔

فشر نے ہی پنٹاگان کے اعلٰی عہدیداروں کے توسط سے سوویت یونین کے ساتھ جنگ کی سورت میں یورپ میں امریکی برٰ فوج اتارے جانے کا منصوبہ فاش کیا تھا۔ اس نے اس حکمنامے کی نقل بھی حاصل کر لی تھی جس میں صدر ٹرومین نے خفیہ طور پر سی آئی اے اور قومی سلامتی کونسل بنائے جانے کی اجازت دی تھی۔ فشر نے ماسکو کو ان تفصیلی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا تھا جو سی آئی اے کے ذمہ لگائی گئئی تھیں اور اس منصوبے کے بارے میں بھی مطلع کیا تھا کہ کس طرح ایف بی آئی کو آبدوزیں، جیٹ طیاروں اور دوسرے خفیہ ہتھیار بنائے جانے کی حفاظت کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

البتہ فشر کے پیش نظر اہم ترین کام جوہری بم بنائے جانے کی شہادت حاصل کرنا تھا۔ اس جاسوس نے جوہری ہتھیاروں کی توزیع سے متعلق انتہائی گراں قدر معلومات فراہم کی تھیں۔ مارک کے ساتھ ”ایٹم بم“ سے متعلق سوویت یونین کے ذمہ دار ترین مخبروں کا رابطہ تھا۔ وہ امریکی تھے لیکن سمجھتے تھے کہ کرہ ارض کے مستقبل کے لیے جوہری مدمقابل پیدا کیا جانا بہت ضروری ہے۔ جلد ہی سوویت سائنسدانوں نے جاسوسوں کی مدد لیے بغیر ہی جوہری بم تیار کر لیا تھا۔ تاہم جو معلومات ملی تھیں ان سے متعلقہ کام بہت سریع ضرور ہو گیا تھا۔ زیادہ تجربات نہیں کرنے پڑے تھے، وقت، محنت اور رقم بچے تھے جو جنگ سے برباد ملک کے لیے بہت زیادہ ضروری تھا۔

فشر کو ایف بی آئی کے چنگل میں اس کے معاون ریڈیو کے ماہر ہیہانین نے پھنسایا تھا۔ وہ نفسیاتی طور پر متلون مزاج شخص تھا۔ شراب پیا کرتا تھا اور جلد ہار مان لیتا تھا۔ جب اعلٰی حکام نے اسے واپس ماسکو بلانے کا فیصلہ کیا تو ہیہانین نے امریکی حکام کو اپنی غیر قانونی جاسوسانہ سرگرمیوں سے آگاہ کرکے ولیم کو پھنسا دیا تھا۔ جب وہ گرفتار ہوا تو ولیم کا نام روڈولف ایبیل تھا۔

روڈلف اور ولیم 1930 کی دہائی میں چین میں شناسا ہوئے تھے۔ وہ ایک ہی زنجیر کی کڑیاں تھے۔ ان دنوں ریڈیائی لہریں زیادہ قوی نہیں ہوتی تھیں اس لیے غیروں کی سرزمین سے سوویت یونین تک ریڈیو کے ذریعے اطلاعات ایک زنجیر کی کڑیوں کی صورت پہنچائی جاتی تھیں۔ ایبیل کینٹن (گوانچو) سے معلومات دیا کرتا تھا جنہیں پیکنگ میں فشر وصول کیا کرتا تھا۔ بعد میں جب وہ دونوں ماسکو لوٹے تھے تو ایک دوسرے کے فیملی فرینڈز بن گئے تھے۔ ایبیل 1955 میں فوت ہو گیا تھا اور کبھی نہیں جان سکا تھا کہ ولیم کی وجہ سے اس کا نام جاسوسی کی تاریخ کا حصہ بن گیا تھا۔

فشر۔ ایبیل نے امریکی قید خانے میں پانچ سال بتائے تھے۔ وہ نہ صرف ثابت قدم رہا تھا بلکہ اس نے تفتیش کنندگان، وکیلوں اور تاحتٰی امریکی عدالت کو بھی اپنی تعظیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اپنی قید کے دوران سوویت ایجنٹ نے تیل سے مصوری کی ایک پوری گیلری تیار کر لی تھی۔ کچھ اطلاعات کے مطابق صدر جان کینیڈی نے اس مجموعے سے اپنا پورٹریٹ لے کر اوول ہال میں آویزاں کر دیا تھا۔

1962 میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیاں قیدیوں کے تبادلے کا سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ سوویت یونین ”روڈولف ایبیل“ کے بدلے میں دو سال پیشتر سوویت سرزمین پر مار گرائے گئے امریکی جاسوس طیارے کے پائلٹ فراینسس پیئرس کو دینے پر رضامند ہو گیا تھا۔

امریکہ سے لوٹ آنے کے بعد ایبیل۔ فشر کا اصلی خاندانی نام صرف اس کے رشتے داروں اور قریبی لوگوں کو ہی معلوم تھا اقی سبھوں کے لیے جنہیں وہ لیکچر دیتا تھا بلکہ جو اس کے بارے میں فلمیں بھی بناتے تھے، وہ روڈولف ایبیل ہی تھا۔ تاحتٰی 1971 میں ایک مرکزی اخبار میں جو مختصر رحلت نامہ چھپا تھا، وہ بھی روڈولف ایبیل کے بارے میں تھا۔ اس کو دفن بھی ایبیل کے طور پر کیا گیا تھا۔ ان کی بیوہ اور بیٹی کو بہت زیادہ دقتیں اٹھانی پڑی تھیں تاکہ اس داستانی طور پر معروف جاسوس کو بعد از رحلت اس کا اصل خاندانی نام مل جائے۔ پھر کہیں بہت سال گزرنے کے بعد ہی ان کی لوح قبر پر فیمیلی نیم ایبیل کے ساتھ لکھا گیا تھا: ”ولیم فشر“۔

مترجم : ڈاکٹر مجاہد مرزا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2