سرد جنگ میں روسی جاسوسی کا داستانوی کردار: روڈلف ایبل


روس کی تاریخ میں بیسویں صدی مد و جزر، بربادی اور بنیادی سماجی تبدیلیوں سے عبارت رہی تھی۔ ایسے عہد میں ممکن نہیں تھا کہ بہت زیادہ نمایاں افراد پیدا نہ ہوتے جن میں سرکاری و سماجی شخصیات، ثقافت سے وابستہ لوگ اور دیگر عظیم لوگ شامل تھے۔ ان کی زندگیوں سے وابستہ عروج و زوال۔ خوش بختی پر مبنی لمحات اور ذاتی سانحات، دوستیوں اور غداریوں سے متعلق ہی ہم آپ کو اس سلسلہ وار پروگرام ”تاریخ روس: بیسویں صدی“ میں بتاتے ہیں۔

نیویارک کے بروکلین برج سے تھوڑی ہی دور 252 فولٹن سٹریٹ میں 1953 کی سردیوں میں ایک چھوٹا سا سٹوڈیو کھلا تھا۔ معمولی کمروں والے اس سٹوڈیو کا مالک مصوّر ایمیل گولڈفوس تھا۔ وہ لگ بھک پچاس سال کی عمر کا تنہا شخص تھا۔ وہ دیکھنے میں کوئی اتنا غیر معمولی نہیں تھا۔ پوری طرح گنجا، کرخت سے چہرے والا شخص تھا۔ اس کو دیکھ کر ایک سرمئی آنکھوں والے شخص کی یاد آتی تھی جو اپنے ہم کلام شخص کو دبیز شیشوں والی عینک کے پیچھے سے جھانک کر دیکھ رہا ہو۔

گولڈ فوس خاموش اور سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ بظاہر اس کا کام کوئی اتنا اچھا نہیں چلا تھا، جس کی گواہی اس کے سٹوڈیو کی حالت ہی نہیں بلکہ اس کا لباس بھی دیتا تھا۔ اس کے کام کے کمرے کی دیواروں کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والی بہت زیادہ تصویریں نیویارک کے غریب علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگیوں کی عکّاس تھیں۔ ایمیل البتہ مطمئن دکھائی دیتا تھا، جب اس کی مصوری اس کا پیٹ بھرنے سے قاصر رہتی تھی تو وہ تصویریں اتارنے کا کام کرنے لگ جاتا تھا۔ یوں وہ قرض میں نہیں ڈوبا تھا اور اپنے سٹوڈیو، جہاں اس کی رہائش بھی تھی کا کرایہ بروقت ادا کر دیا کرتا تھا۔ خاموش طبعی، خوش مزاجی اور تھوڑی بہت خدمت کی خاطر مستقل مستعدی کی وجہ سے سنکی گولڈ فوس کے ہمسائے اور اس کا مالک مکان اس کی عزت کرتے تھے۔

کبھی کبھار ایمیل کچھ روز کے لیے غائب ہو جایا کرتا تھا۔ ہمسائے اس کی غیر موجودگی پر توجہ نہیں دیتے تھے کہ کہیں پھر سے نکل کھڑا ہوا ہوگا۔ لیکن جب گولڈ فوس فولٹن سٹریٹ سے نیویارک کے دوسرے حصے مین ہٹن میں ایک عام سے ہوٹل ”لیٹ ایم“ پہنچتا تھا تو اصل میں اس سے حیران کن حد تک ملتا جلتا شخص مسٹر مارٹن کولنز وہاں پہنچ جایا کرتا تھا جو 29 ڈالر فی ہفتہ کے حساب سے ایک معمولی سا کمرہ کرائے پر لے لیتا تھا۔ وہ اس میں رہتا کم ہی تھا بس شب بسری کے لیے آیا کرتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کام کیا کرتا ہے۔ ہوٹل والے کولنز کو چھوٹا موٹا تاجر خیال کیا کرتے تھے جو اپنے کسی کام سے نیویارک آتا تھا۔

جون 1957 کی ایک صبح سویر دروازے پہ دستک ہوئی تھی۔ غالباً کولنز نے تالے میں چابی گھمائی تھی کہ دروازہ دھکے سے کھلا تھا اور تین اشخاص دراتے ہوئے اندر داخل ہوئے تھے۔

ایف بی آئی، انہوں نے خود کو متعارف کراتے ہوئے کہا تھا، کرنل ہمیں پکی اطلاع ملی ہے کہ آپ سوویت جاسوسی میں ملوث ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ اگر انکار کریں گے تو اس کمرے سے نکلنے سے پہلے ہی حراست میں لے لیے جائیں گے۔

تفتیش چار روز جاری رہی تھی۔ شروع میں زیر حراست شخص نے تفتیش کاروں کے سوالوں کا جواب دینے سے یکسر انکار کر دیا تھا۔ البتہ 25 جون کو بتایا تھا کہ اس کا نام روڈلف ابییل (ہابیل) ہے۔ وہ سوویت شہری ہے۔ اسے جنگ سے تباہ حال ایک گھر سے بڑی رقم ہاتھ لگی تھی، جس سے اس نے امریکہ کا جعلی پاسپورٹ خریدا تھا اور 1948 میں وہ کینیڈا سے امریکہ پہنچا تھا۔ ابیل نے اعتراف کیا تھا کہ وہ نو سال سے غیر قانونونی طور پر ایک جعلی نام سے امریکہ میں مقیم ہے۔ امیگریشن حکام نے اس کہانی پر اعتبار کر لیا تھا۔ ماسکو میں جاسوسی سے وابستہ سوویت حکام کو جب اس کی گرفتاری کے بارے میں علم ہوا تھا تو ان کا پہلا ردعمل حیرت کا تھا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا رفیق کار روڈلف ابییل کئی سال پہلے انتقال کر چکا تھا۔

”فرینک“، ”مارک“، ایمیل گولڈفوس، مارٹن کولنز اور بالآخر روڈلف ابییل۔ ان ناموں سے وہ سالہا سال تک جنگ عظیم دوم کے دوران ہٹلر کی فوجوں کی جاسوسی کرتا رہا تھا، پھر امریکہ میں یہی کام سرانجام دے رہا تھا۔ ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے کے بعد اس نے امریکی قانون کا بہادری سے مقابلہ کیا تھا اور کئی سال امریکہ کی جیل میں بتائے تھے۔ سی آئی ائے کا نامور سربراہ ایلن ڈیلیس اس شخص کے بارے میں کہتا ہے : ”کاش ماسکو میں میرے ایسے چند لوگ ہوتے“۔ اور اسے سردجنگ ختم ہونے کی بعد ہی معلوم ہو سکا تھا کہ اس نابغہ روزگار جاسوس کا اصل نام کیا تھا۔

اس کا اصلی نام ولیم فشر تھا۔ وہ گیارہ جولائی 1903 کو برطانیہ کے ایک پرسکون قصبے نیو کاسلز آن ٹان میں پیدا ہوا تھا، جہاں اس کے والدین کو قسمت نے سلطنت روس سے لا پھینکا تھا، وہ مستند انقلابی تھے جن کی ملاقات زار کی عقوبت گاہ میں ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے کو بچپن سے ہی سازشوں کی تربیت ملنی شروع ہو گئی تھی۔ باپ روسی نژاد جرمن تھا جو روس میں غیر قانونی طریقوں سے ہتھیار بھجوانے کے کام میں بھرپور حصہ لیتا تھا اور ماں اپنے شوہر کی زندگی کے تمام مصائب میں جوانمردی سے شریک تھی۔

ننھے ولیم کو کہیں پہلے حصول علم سے وابستہ کر دیا گیا تھا اور خاص طور پر دشوار علوم سیکھنے سے۔ تارکین وطن کی زندگیوں کی سختیوں نے بچے کو اتھل پتھل کر دیا تھا۔ اسے سکول چھوڑ کر محنت کی کشاکش سے ملحق ہونا پڑا تھا۔ اس سب نے اس کی تعلیم میں رکاوٹ نہیں ڈالی تھی اور باصلاحیت طور پر اس نے سکول ختم کر لیا تھا۔ سولہ برس کی عمر میں لندن یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا اور ساتھ ہی برطانوی نژاد ہونے کی حیثیت بھی۔

جب 1921 میں ولیم فشر اپنے والدین کے ہمراہ سوویت روس لوٹا تھا تو اسے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی انتظامی کمیٹی کے بین الاقوامی روابط کے شعبے میں بطور مترجم کام پہ رکھ لیا گیا تھا۔ ساتھ ہی ولیم نے ماسکو کے انسٹیٹیوٹ برائے شرق شناسی کے ہندوستان سے متعلق شعبے میں داخلہ بھی لے لیا تھا۔ تعلیم البتہ زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکی تھی۔ ولیم کو فوج نے طلب کر لیا تھا جہاں اس نے ریڈیو آپریٹر کا پیشہ اختیار کیا تھا۔

جاسوسی کے ساتھ فشر کی وابستگی 1927 میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ بعد میں اس کے دوستوں نے بتایا تھا کہ پراعتماد شخصیت، بچپن سے ہی سازشی تربیت، غیر معمولی صلاحیت، انگریزی زبان پہ دسترس، جرمن اور فرانسیسی زبانوں سے آگاہی، اس نو آموز میں وہ تمام ”مواد“ موجود تھا جو کسی شخص کو ایک بہترین جاسوس میں ڈھال سکتا ہے۔ اس کا کیریر کوئی اتنا ہموار نہیں رہا تھا۔ سٹالن کے زمانے میں فوج اور طاقت سے وابستہ دوسرے اداروں میں اکھاڑ پچھاڑ کے عمل کے دوران ولیم کو بے وجہ وضاحت کیے بغیر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ البتہ اچھی بات یہ تھی کہ گولی نہیں ماری گئی تھی، اس کے بہت سے رفقائے کار کے مقدر میں گولی کھانا آیا تھا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے اوائل میں ولیم جاسوسی کے میدان میں لوٹ آیا تھا۔

فشر۔ ابییل کی زندگی کے ساتھ داستانیں اور کام سے متعلق کہانیاں زیادہ مشہور ہیں۔ کچھ ہی دستاویزات کے مطابق جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد عام کی گئی ہیں اور جو اب تک ”انتہائی خفیہ“ گردانی جاتی رہی تھیں، ولیم کے کچھ فرائض آشکار ہو سکے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ جنگ عظیم دوم کے دوران فشر کا کام، ہٹلر کے زیر قبضہ علاقوں میں مقیم لوگوں کے ساتھ ریڈیائی رابطہ رکھنا تھا۔ ریڈیو کے ذریعے، ہٹلر کی کمان کے ساتھ فشر جو کھیل کھیلا کرتا تھا اس میں وہ جرمن ریڈیو آپریٹر بھی شریک تھے جنہیں ورغلا کر ساتھ ملا لیا گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2