اجی سنتے ہو؟ تمہاری اولاد مرنے کو ہے!


کچھ ماہ قبل ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی ویب سائیٹ پر ایک خاتون ماہر نفسیات کی رپورٹ نشر ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا کس طرح سے شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوا اور پھر اس نے خود سوزی کرلی۔ رپورٹ کے نیچے کمنٹس کرنے والے یہ کہتے رہے کہ کیسی ماں ہیں آپ جو ماہر نفسیات تھیں اور نہ جان سکیں کہ بیٹا کس اذیت سے گزر رہا ہے۔ شاید وہ ماں جانتی ہو لیکن پھر بھی وہ کچھ نہ کر سکی ہوں۔ جیسے بیوٹی بلاگر آمنہ اپنے شوہر اور سسرال کے رویے سے تنگ آکر خود کشی کر بیٹھی جبکہ وہ اپنے مسائل سے گھر والوں کا آگاہ کر چکی تھی۔ دوست بھی واقف تھے لیکن کوئی بھی آمنہ کو نہ بچا سکا۔

لیکن ایک واقعہ جس نے ساری دنیا کو حیران کیا اور اس پر بحث بھی چھڑی اس نے مجھے کسی بھی طور پر نہیں جھنجھوڑا وہ اس نوجوان کا تھا جس نے خانہ کعبہ میں جاکر خود سوزی کی۔ ساری دنیا سمیت یہ بحث میرے گھر کی ڈائننگ ٹیبل پر بھی ہوئی۔ لیکن میں اپنے بڑوں کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہی کہ جب انسان کی ہمت اور امید دم توڑ دیتی ہے تو اسے خدا بھی دکھائی نہیں دیتا۔

جب جب کوئی شخص یہ کہے کہ وہ مرنا چاہتا ہے اور ایسا نہیں کر پاتا یہ عمل بتاتا ہے کہ اسے کہیں نہ کہیں کچھ ٹھیک ہونے کی امید نظر آتی ہے۔ لیکن جس روز وہ یہ عمل کر گزرتا ہے اس روز خود کو مارنے سے قبل وہ ہر طرح سے مر چکا ہو تا ہے کوئی اسے نظر نہیں آتا نہ نتائج، نہ اپنے، نہ ماضی کی کوئی خوشگوار یاد نہ کوئی ایسی امید جو ا سے روشنی دے سکے۔ بہرحال اس حوالے سے ماہر نفسیات بہتر بتاسکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے یہاں تو ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات کا اعتراف کر لے کہ اسے کوئی ذہنی دباؤ، یا ڈپریشن ہے تو اسے فوراً پاگل قرار دے کر مزید جینے کی راہ دشوار کردی جاتی ہے۔

وہ شخص پہلے ہی کہیں خود کو اکیلا سمجھ رہا ہوتا ہے رہی سہی کسر یہ معاشرہ پوری کردیتا ہے۔ جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی دباؤ کا شکار ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اس سے روز لڑتا ہے اور کوئی لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ اب سہولیات کہیں زیادہ ہیں سوشل نیٹ ورکنگ کے پلیٹ فارم پہلے سے کہیں زیادہ لیکن دوری اتنی ہی بڑھ چکی ہے۔ ایک لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ روز شاپنگ پر جارہی ہے، کنسرٹ میں جاتی ہے اس سے فرمائشیں بھی کرتی ہے لیکن ماسوائے اس شوہر کے سارا شہر اور دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے گھر خوش نہیں کیونکہ وہ یہ بات شوہر کو نہیں کہہ رہی بلکہ سوشل میڈیا پر بتارہی ہے۔

یہ ایک مثال ہے دوسری مثال اس نوجوان کی ہے جو اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین نوکری بھی کر رہا ہے، شادی شدہ بھی ہے لیکن اپنی شریک حیات کو بنیادی ضروریات سے ترسا کر اسے راحت ملتی ہے۔ یہ بات کوئی نہیں جانتا لیکن جب اس کی بیوی اپنے میکے آئے تو اس کے والدین اپنی بیٹی کو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں۔ لیکن کہتے کچھ نہیں محض اس لئے کہ کہیں بیٹی کو حوصلہ مل گیا تو وہ یہاں نہ بیٹھ جائے سو جیسا ہے چلتا رہے، خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔

یہ جو خود ہی ٹھیک ہوجائے گا، سب اچھا ہوجائے گا، تم بہت ہمت والے ہو اس سے گزر جاؤ گے جیسے جملے ہوتے ہیں یہ کبھی بڑا کام کیا کرتے تھے۔ یہ سنتے ہی جسم میں ایک حرارت سی پیدا ہوتی تھی، بجلی سی دوڑ جاتی تھی اور وہ ٹوٹی ہمت والا پھر سے بے رحم رویوں کا مقابلہ کرنے کھڑا ہوجاتا تھا۔ کیونکہ پہلے جب یہ جملے کہے جاتے تھے تو محض جملے نہیں ہوتے تھے۔ آج یہ سرسری اس لئے کہے جاتے ہیں کہ اگلے کو وہیں احتراماً بہت مٹھاس سے شٹ اپ کال دے دی جائے کہ بھائی یہ سب کے ساتھ ہے تو اکیلا نہیں، نہ خود پر طاری کر نہ میرا ٹائم ضائع کر۔

پھر یہ کاپی پیسٹ جملے سن سن کر ایک ایسا وقت آتا ہے جب برانڈڈ کپڑے اورگھڑی پہننے والا چھوکرا پھندا لگا کر لٹک جاتا ہے تو کہیں انسٹا اور اسنیپ چیٹ پر فرینڈز فورایور کا ہیش ٹیگ استعمال کرنے والی حسینہ دل بند ہونے سے مر جاتی ہے۔ لوگ پوچھتے رہ جاتے ہیں کہ ہوا کیا تھا اور ماں باپ کہتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے اچھے سے اچھا کھلایا، پہنایا مہنگی تعلیم دلائی، کسی چیز کی کمی نہ چھوڑی نہ جانے کیا ہوا کس کی نظر کھا گئی؟

اب کون بتائے کہ تمہارا جوان بچہ نہ کالے جادو کی نذر ہوا، نہ کسی کی نظر سے گیا۔ اسے وہ بے اعتباری اور خوف کھا گیا جو اسے اپنے گھر سے مل رہا تھا۔ میں نے کچھ دن پہلے ایک ایسی نوجوان لڑکی کا بنایا ہوا اسکیچ دیکھا جسے سمجھنا تھوڑا دشوار تھا۔ یہ میری کم عملی کہیں لیکن خبروں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے کچھ دل میرا بھی بے رحم سا ہونے لگا تھا پھر سوچا کہ کیوں نہ اب جذبات کے پیچھے بھی بھاگا جائے۔ لوگوں کے رویوں، چہروں کے پیچھے چھپے جذبات کو پڑھا جائے چونکہ آغاز تھا تو اسکیچ سمجھ نہ آیا۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسکیچ میں صرف بندھے ہاتھ اور آلتی پالتی مارے بیٹھا کوئی شخص ہے لیکن نہ اس کا کوئی چہرہ ہے نہ جسم کا کوئی دوسرا حصہ نظر آرہا ہے۔ میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس لڑکی نے ہنس کر کہا کہ یہ ایک empty soul مطلب خالی روح ہے۔ اس لڑکی کی مسکراہٹ اور بنایا ہو اسکیچ اس کے مسائل اور سوچ بیان کرنے کو کافی تھا۔

ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہوئے ہوں گے، کوئی لڑکی محبت کے دھوکے میں بہت کچھ گنوا بیٹھی ہوں گی، کوئی نوجوان بچپن میں کسی مدرسے یا پھر باپ یا خاندان کے بزرگ کے تشدد کا شکار ہوا ہوگا۔ کوئی دفتر میں اپنے ساتھیوں کے سامنے بے عزت ہوا ہوگا تو کسی عورت کو اس کے موٹاپے، رنگ، شادی میں تاخیر، طلاق یا پھر زیادہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے جوابدہ ہونا پڑا ہوگا۔ کوئی ایسا بھی مرد ہوگا جو عورت کی عزت پر آفس میں خوب لیکچر دیتا ہوگا لیکن اپنے گھر میں اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہوگا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar