صرف تعلیمی بجٹ پر توجہ کیوں؟


جب بھی کوئی معاملہ طرح طرح کے مسائل اور پیچیدگیوں کا شکار ہو جائے تو اس کی روح یا اس کا بنیادی مقصد پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ یہی حال ہمارے ہاں تعلیم کا ہے۔ آج کل تعلیمی بجٹ میں بے تحاشا کمی ایک بڑے مسئلے کے طور پر زیر بحث ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے اور یکساں نصاب تعلیم کا ذکر کیا ہے۔ یہ معاملہ ہمیشہ تحریک انصاف کے ایجنڈے میں سر فہرست رہا ہے۔ بنیادی طور پر ایک صوبائی موضوع ہونے کے با وجود، اس ضمن میں ان کے زیر حکومت صوبے، خیبر پختون خوا میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔

ایڈورڈ کالج آج بھی وہی پڑھا رہا ہے جو وہ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے پڑھا رہا تھا اور دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک آج بھی اسی نصاب پر کار بند ہے جس پر پی۔ ٹی۔ آئی کی حکومت سے پہلے عمل پیرا تھا۔ وزیر اعظم کا تازہ اعلان بھی اعلانات کے ڈھیر میں گم ہو جائے گا اور طبقاتی تعلیم اسی طرح پانچ چھ متوازی بلکہ متصادم دھاروں میں بہتی رہے گی۔

میں مسائل کے اس انبار میں، بجٹ کے سنگین مسئلے سے پہلے، اس موضوع کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جسے بالکل ہی فراموش کر دیا گیا ہے اور وہ ہے نئی نسل کی تعمیر کردار یا کردار سازی۔ دنیا بھر میں تعلیم کا اہم ترین مقصد چند مہارتیں سکھا دینے، چند معلومات فراہم کر دینے، چند آموختے ازبر کرا دینے تک محدود نہیں رہتا۔ ہر ریاست کے سامنے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو کس طرح کی سوچ، کس طرح کے کردار، کس طرح کی شخصیت اور کس طرح کے انسان کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ ہمارا دین، تعلیم کے اس پہلو کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ وہ جو کسی شاعر کا کہنا ہے۔ شیخ مکتب ہے اک عمارت گر۔ جس کی صنعت ہے نوع انسانی۔

یعنی استاد ایک معمار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا اصل ہنر یہ ہے کہ وہ نوع انسانی کی تعمیر کرئے۔ اسلامی تاریخ کے پہلے عظیم معلم، پیارے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا مرکز اور محور سیرت و کردار کی تعمیر تھا۔ آپ ﷺ رسمی علم سے آراستہ نہ تھے اور ”اُمی۔ “ تھے۔ لیکن ان کی پوری حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ انسان سازی کے عمل میں مصروف رہا۔ بعد میں آنے والے تمام اسلامی مفکرین نے تعلیم کے عمل کو پڑھنے لکھنے اور مہارتوں سے آگے بڑھ کر کردار سازی اور اخلاقیات کو سب سے بڑی ترجیح قرار دیا۔

بد قسمتی سے آج کل یہ ترجیح، ہماری فہرست ترجیحات سے خارج ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کی معراج صرف یہ ہے کہ طالب علم اپنے نصابی کورس پر بھرپور دسترس حاصل کر لے، امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہو جائے، اس کے ہاتھ میں ایک ڈگری آ جائے جسے وہ نوکری کا پروانہ سمجھ کر عملی زندگی کے میدان میں داخل ہو جائے۔ اسلامی مدارس کے نصاب میں آج بھی کردار سازی اور اخلاقیات کا پہلو غالب ہے اور استاد کو بلند مقام حاصل ہے لیکن ہمارے عمومی مدارس اور جامعات میں یہ پہلو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔

یہی وجہ ہے کہ نصابی تعلیم میں اچھی کارکردگی کے با وجود ہماری نئی نسل ان اعلی اخلاقی معیارات پر پورا نہیں اترتی جو اسلامی جمہوری ریاست کے لئے ضروری ہیں۔ نوجوانوں میں پائی جانے والی بے یقینی، بے سمتی، اضطراب، بے چینی، اشتعال، عدم برداشت، انتہا پسندی اور غیر جمہوری رویے اس بات کی دلیل ہیں کہ تعلیم، اخلاق و کردار کی تعمیر میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ ہمارے ہاں تعلیم و تدریس سے تعلق رکھنے والے افراد اور ادارے نصاب، فنڈز، ریسرچ، سہولیات، مراعات، تنخواہوں، الاونسز اور ایسے ہی دیگر معاملات پر تو مشاورت کرتے رہتے ہیں لیکن کبھی سننے میں نہیں آیا کہ اخلاق و کردار کے حوالے سے بھی کوئی سرگرمی دکھائی گئی ہو۔

تاہم اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تعلیمی بجٹ کا معاملہ غیر اہم ہے۔ بلا شبہ تعلیمی عمل کے لئے مناسب مالی وسائل کی فراہمی بھی انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ آج کل بجا طور پر یہ معاملہ زیر بحث ہے کیوں کہ عمومی علوم و فنون کی تعلیم ہو یا اخلاق و کردار کی تعمیر، سب کا بنیادی تعلق تعلیمی عمل کو دستیاب وسائل سے ہے۔ اگر ہم استاد سے توقع کرتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی میں حصہ ڈالے، انہیں معاشرے کا ذمہ دار شہری بنائے، تو ہمیں استاد کو مناسب سہو لیات دینا ہوں گی۔

استاد بھی اس مادی سماج کا حصہ ہے۔ مالی طور پر غیر مطمین اور نا آسودہ استاد، اپنے شاگرد وں کی تربیت اورروحانی تسکین کا فریضہ کیونکر ادا کر سکتا ہے۔ قابل افسوس امر ہے کہ گزشتہ ایک برس سے اعلیٰ تعلیم کا شعبہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔ مگر اس صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ رفتہ رفتہ وفاقی اور صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمشنوں نے کئی تعلیمی اور تحقیقی پروگرام بند کر دیے۔ جامعات کے اساتذہ کو بیرون

ملک سفر کے لئے دی جانے والی سفری گرانٹس بھی معطل ہو گئیں۔ گزشتہ حکومتوں میں اساتذہ کو تنخواہوں پر ٹیکس چھوٹ حاصل تھی۔ اس مرتبہ بجٹ میں وہ چھوٹ بھی ختم کر دی گئی۔ یہی وجہ سے اس سال اساتذہ کی تنخواہیں بڑھنے کے بجائے مزید کم ہو گئی ہیں اعلی تعلیم کا شعبہ اب اس مقام تک آن پہنچا ہے کہ ملک بھر کی سرکاری جامعات کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور دیگر ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے فنڈز موجود نہیں ہیں۔

کچھ جامعات نے بنکوں سے رجوع کیا مگر بنکوں نے انہیں قرض دینے سے انکار کر دیا۔ حالت یہ ہے بہت سی سرکاری یونیورسٹیاں دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ ان حالات میں سرکاری یونیورسٹیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ فیسوں میں اضافہ کر دیں، میرٹ کو ایک طرف رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ طالب علموں کو داخلہ دیں، استاد پر کام کا مزید بوجھ ڈال دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان اقدامات سے نظام تعلیم پر نہایت مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔

فیسوں میں اضافے کامطلب یہ ہے کہ زیریں اور متوسط طبقے کے نوجوانوں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے مزید بند کر دیے جائیں۔ اندھا دھند داخلوں کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری یونیورسٹیاں میرٹ کو ایک طرف رکھ دیں اور ڈگری بیچنے والے کارخانے بن جائیں۔ استاد پر کام کا مزید بوجھ لادنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کوہلو کا بیل بنا ڈالا جائے۔ اورکولہو کے بیل سے معیار تعلیم، نوجوانوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔

آج کل تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ ملک زبردست معاشی بحران کا شکار ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں مختلف وزارتوں کے لئے بجٹ میں کٹوتی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن دنیا بھر کے ممالک کا دستور یہ ہے کہ اس طرح کے حالات میں بھی کم از کم تعلیم کے شعبے پر منفی اثرات نہیں پڑنے دیے جاتے۔ ایک سڑک کا تعمیر نہ ہونا، ایک پل کا نہ بننا، ایک فیکٹری کا نہ لگنا، یہ سب باتیں بھی یقینا اہمیت رکھتی ہیں لیکن اگر تعلیمی اداروں اور جامعات کو مالی بحران میں مبتلا کر دیا جائے تو زیر تعلیم نئی نسل پر اس کے براہ راست اثرات پڑتے ہیں۔ ایسے اثرات جن کی تلافی کبھی نہیں ہو سکتی۔ اس وقت حکومت کو چاہیے کہ وہ کٹوتیوں کا سونامی تعلیمی اداروں کی طرف آنے سے روکے۔ ایک طرف تو ہم اپنے طلبہ کی سیرت و کردار کی تعمیر سے غافل ہیں دوسری طرف عام رسمی تعلیم بھی مشکل بنا دی گئی تو ہم وقت سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).