حکومت گرانے کے لیے مولانا اسداللہ کھوڑو (جھل دب) کو اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ


مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے اعلان کے بعد ایک طرف تو حزب اختلاف کی جماعتیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر خان صاحب کی حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف عمل نظر آ رہی ہیں ساتھ ہی ساتھ ڈیلی ویجز ملازمین، معذور افراد، ڈاکٹرز، کلرکس، تاجر، مزدرو اور کسان طبقہ سمیت کئی افراد خان صاحب کے حکومتی تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں۔ مہنگائی کا سونامی، ڈینگی کا بخار، بے روزگاری، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور گیس بحران جیسے کئی بحران پر تولتے نظر آ رہے ہیں۔

نہ تو پولیس ریفارمز ہو سکیں نہ ہی اچھے طرز حکومت کا قیام ممکن ہو پایا اور نہ ہی شوکت خانم جیسے اور ہسپتال بن پائے۔ فی الحال احساس سیلانی لنگر کا افتتاح خان صاحب نے اسلام آباد میں کر دیا ہے اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اس لنگر سے مستفید پشتو بولنے والوں کو وزیر اعظم کا پیغام خصوصی طور پر پشتو زبان میں پڑھ کر سنایا کہ کھانے کی برکت سے ریاست مدینہ بن کر ہی رہے گی۔

ایک طرف مولانا فضل الرحمان کے بم پروف کنٹینرز کی تصاویر وائرل ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ان کی تنظیمی ٹیم پورے ملک میں ہنگامی دورے کرتی نظر آ رہی ہے تاکہ آزادی مارچ میں شرکت کے لیے ماحول اور طریقہ کار کو واضح کیا جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مولانا فضل الرحمان کے کرپشن کے ثبوت ڈھونڈنے میں مصروف عمل ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت طاقت کے زور پر مولانا کے آزادی مارچ سے نمٹنے کی تیاریاں کر چکی ہے اور ساتھ ساتھ مدرسہ اصلاحات اور اندرون خانہ سیاسی و مذہبی قوتوں کے ساتھ میل ملاقاتیں بھی جاری ہیں تاکہ مولانا کے مارچ کے اثرات کو زائل کیا جا سکے۔

اس وقت حکومتی وزیر و مشیر یہ باتیں کرتے نظر آ رہے ہیں کہ مولانا مدرسوں کے معصوم بچوں کو مذہب کے نام پر استعمال کریں گے مگر کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بچے کہاں سے آئے تھے اور تحریک انصاف کے متوالے بھی تو ڈی چوک پر جلوہ افروز ہوئے تھے۔ میڈیا والے بھی بڑے بے چین ہو رہے ہیں مولانا کے آزادی مارچ کو دیکھنے کے لیے کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے قیمے والے نان، کھجور اور دودھ پیے بھی ان کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اور ڈی چوک پر تبدیلی کے جلوے دیکھے بھی کافی عرصہ بیت چکا ہے۔

اب تو مولانا صاحب کی باری ہے کچھ نیا دکھانے کی۔ اطلاعات ہیں کہ صوبہ سندھ کے مشہور و معروف مولانا اسد اللہ کھوڑو ( جھل دب) کو ڈی چوک کنٹینر پر کھڑا کیا جائے گا تاکہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا سکے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی اپنے جلسوں میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو کئی کئی القابات سے نواز چکے ہیں جیسا کہ مولانا ڈیزل وغیرہ۔

جلسوں کو کامیاب بنانے کے لیے نت نئے طریقے آزمائے جاتے ہیں جن میں مذہب، مسئلہ کشمیر، کرپشن، روزگار، غربت کے خاتمے سمیت ترقی کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں مگر ساتھ ساتھ ٹی وی دیکھنے اور جلسے میں شریک افراد کی تفریح کا بھی خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں وہ بوریت کا شکار نہ ہو جائیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے جہادی ترانے ہوں یا پھر پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی کے (جب آئے گا عمران) جیسے نغمے ہوں یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے بلوچی (دلاں تیر بجا) جیسے نغمے ہوں یا پھر پاکستان مسلم لیگ ن کے (ہمارے سب کے دلوں کی دھڑکن نواز شریف) جیسا نغمہ ہو سب نے اپنی اپنی دھوم مچائی۔ جلسوں میں گانا بجانا، ڈانس، سیلفیز کا تو اب عام رواج ہے اور بڑے بڑے سیاسی رہنما تو لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ذو معنی جملے بھی کستے نظر آتے ہیں۔

کئی لوگ تو پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں کی کامیابی کی ضمانت ڈی جے بٹ کو مانتے تھے اس لیے پی ٹی آئی کی مخالف پارٹیوں نے بھی ڈی جے بٹ کو آزمایا مگر وہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے جے یو آئی مولانا اسد اللہ کھوڑو کو میدان میں اتار رہی ہے۔ چاہے اس کی تقریر سے حکومت جائے نہ جائے مگر تفریح کا جو ماحول وہ مہیا کریں گے تو یقیناً لوگ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے تفریحی جلسوں کو ضرور بھول جائیں گے اور مولانا کی تقاریر آگ کی طرح پورے ملک میں پھیلتی نظر آئیں گی۔

یاد رہے کہ مولانا اسد اللہ کھوڑو کو لوگ شادی سمیت اہم تقاریب میں بلواتے ہیں اور مولانا کی حس مزاح کی بدولت ان کی دینی اور دنیاوی باتوں کو سن کر لوٹ پوٹ ہوتے نظر آتے ہیں مسلمان تو مسلمان ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بڑے ذوق و شوق سے ان کا وعظ سننے دور دور سے آتے ہیں۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمان کے کارکن اونٹوں پر سوار ہو کر اسلام آباد کا رخ کرتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا پاکستان تحریک انصاف کی لگائی ہوئی آگ پر سردیوں میں ہاتھ سینکتے نظر آ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ موالانا فضل الرحمان ملک کی وہ واحد شخصیت ہیں جو آسمان کو دیکھ کر موسم کا حال بتا سکتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جب جنگجو خدائی خدمتگاروں کے کنٹرول سے باہر ہوتے تھے تب یہی مولانا فضل الرحمان تھے جو ان کو اطاعت پر راضی کیا کرتے تھے۔ اگر مولانا کے آزادی مارچ کو طاقت کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی تو پھر انتشار کے پھیلنے کو کوئی بھی نہیں روک پائے گا اور اگر ان کو اسلام آباد میں آنے دیا گیا تو پھر اس جیسے ایک دو دھرنوں کے بعد حکومت ڈولتی نظر آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).