ججوں جرنیلوں کے بعد تاجروں کا بھی نہیں تو پھر احتسابی ڈرامہ کیوں؟


کچھ دن پہلے ملک کے سرکردہ کاروباری حضرات صنعتکاروں کے ایک وفد نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور انہیں کاروبار کی دگرگوں صورتحال، غیر ضروری ٹیکسز میں ہوشربا اضافوں اور نیب کی جانب سے ہراساں کرنے اور زیادتیوں کی شکایت سے آگاہ کیا۔ کاروباری حضرات جن میں ملک کے نام چین صنعتکار، ریئل اسٹیٹ کے بڑے بڑے ٹائیکون، صحافت کو دھندہ بنانے والے ارب پتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا مالکان شامل تھے نے مل کر چیئرمین نیب اور ان کے ادارے کی بدمستیوں اور ناجائزیوں کی داستانِ غم چیف صاحب کے آگے بیان کی، حالانکہ ان بزنس ٹائیکونز نے حکومت کے خلاف بھی شکایتوں کے انبار لگائے، انتہائی سرعت سے کھڈے لائن لگتے کاروباری معاملات پر بھی آہ و بکا کی مگر گفتگو کا زیادہ تر حصہ چیئرمین نیب اور ان کے ادارے کے خلاف ہی تھا۔

تاجروں کا استدلال تھا کہ نیب ان کو ٹیکس اور ٹیکس ریفنڈز کے معاملات میں نہ صرف پریشان کرتا ہے بلکہ ان کے اہلکار انہیں بلیک میل کرنے کی حد تک ہراساں بھی کرتے اور موٹی موٹی رقمیں اینٹھتے ہیں۔ چیف صاحب نے بڑی ہمدردی سے ان کے مسائل اور مشکلات کو سنا اور ان کے حل کی نہ صرف یقین دہانیاں کروائیں بلکہ انہیں مکمل تحفظ اور کاروباری استحکام کے لئے اقدامات کا بھی یقین دلایا، ساتھ ساتھ انہیں یہ عرض کیا کہ برائے مہربانی آپ بھی سرکار کا ساتھ دو اور حکومتی مخالفین سے فاصلہ رکھو، اپوزیشن کے ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ بن کر کسی بھی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے سے اجتناب کرو۔

اب یہ مشورہ تھا یا دھمکی مگر ایک حقیقت یہاں بالکل کھل کر واضح ہوگئی کہ سرکار، آرمی چیف اور عدلیہ کو بھی اپنے اور کاروباری برادری کے مفادات کا تو خیال ہے مگر یہ جو نیب گردی نے پورے ملک کو اضطرابی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے اس کی انہیں کوئی زیادہ فکر دکھائی نہیں دیتی۔ سیاسی قیادت و کارکنان سے لے کر بیوروکریسی سرکاری ملازمین نیب گردی کا آئے دن شکار رہتے ہیں، خود اکثر مختلف مواقع پہ مختلف چیف جسٹس صاحبان نیب کی انتہائی ناقص کارکردگی ان کی جانب داری اور ان کے نامناسب، غیرانسانی اور غیراخلاقی رویوں، مختلف طبقات جن میں سیاسی، سرکاری، غیرسرکاری شخصیات شامل ہیں سے روا رکھے جانے والے انتہائی ناروا ہتک آمیز سلوک کی نہ صرف سختی سے سرزنش کرتے رہے ہیں بلکہ نیب کے ادارے کو ناکارہ اور عوام پہ بوجھ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔

کاروباری حضرات نے وزیراعظم صاحب سے بھی ملاقات کی وہی شکایات، وہی شخصیات وہی ادارہ جواب بھی وہی کہ ان کے تحفظات دور کیے جائیں گے اور حکومت مخالفین سے دور رہیں، ساتھ ساتھ وزیراعظم صاحب نے اس ضمن میں کمیٹی بنانے کا کہہ دیا، اب ان کاروباری شخصیات میں جو ایماندار، دیندار، نیک، بروقت اور پورا ٹیکس دینے والے قومی امانتدار شخصیات شامل تھیں وہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے، ان میں صدارتی ایوارڈ یافتہ نیکوکاروں کے سردار عقیل کریم ڈھیڈی صاحب، انتہائی ایماندار اور امانتدار میاں محمد منشاء صاحب، پاکستان کو یورپ کی طرز پہ لائف اسٹائل فراہم کرنے اور اپنے کاموں کے سلسلے میں فائلوں کو پہیے لگانے والے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون جناب ملک ریاض صاحب، عارف حبیب صاحب، حسین داؤد صاحب جن کو نیب طلبی کا نوٹس ملا ہوا ہے اعجاز گوہر صاحب اور ان جیسے درجنوں گوہر نایاب کاروباری شخصیات شامل تھیں۔

دوسرے ہی دن جنابِ چیئرمین نیب نے پریس کانفرنس کر کے ایک تو کاروباری شخصیات کو ہراساں کرنے کی تردید کردی مگر ساتھ ساتھ جناب وزیراعظم سے کرپشن کی روک تھام کے لئے سعودی ماڈل کی فرمائش بھی کرڈالی اور یہ بھی فرمایا کہ سعودی عرب والے چار ہفتوں میں ریکوری نہ کرسکے وہ تین ہفتوں میں کرکے دکھائیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ بغیر کسی ثبوت کے بغیر کوئی ایف آئی آر درج کیے، بغیر کوئی تحقیقات کیے وہ لوگوں کو اغوا کرکے پھر نیب کورٹ سے نوے دن کے لئے جب اپنی جسمانی تحویل میں لیتے ہیں تو اتنے وقت میں ریکوری کیوں نہیں کرتے، کیا اتنا عرصہ جسمانی ریمانڈ میں لوگوں کو یوگا کی مشقیں کرواتے ہیں یا ان کی فٹنس کے مسائل حل کرواتے ہیں۔

نوے دن کا ریمانڈ پورا ہونے کے بعد بھی کئی کئی مہینے بنا کوئی کیس بنائے، بنا کسی ثبوت شھادت کے لوگوں کو جیل میں عقوبت خانوں رکھ کر بھی پیٹ نہیں بھرتا تو اب سعودی ماڈل کی فرمائش کر ڈالی اور مزے کی بات یہ کہ دوسرے ہی دن اس کی تردید بھی کردی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ صاحب، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب وزیراعظم صاحب سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ پہلے جج اور جرنیل ہر قسم کے احتساب سے بالاتر تھے حالانکہ سرکاری تنخواہ لینے والا، عوامی عہدہ رکھنے اور ذمے داریاں نبھانے والا ہر شخص قابلِ احتساب ہونا چاہیے اسی طرح جس طرح سیاسی لوگ اور ججوں جرنیلوں کو چھوڑ کر دیگر سرکاری ملازمین ہیں کیونکہ روز محشر اللہ ربّ العزّت کے سامنے ہر شخص احتساب بلکہ انتہائی کڑے احتساب سے گزرے گا، اللہ میاں، یہ ثاقب نثار ہے یہ افتخار چودھری ہے یہ راحیل شریف، پرویز کیانی، پرویز مشرف یا باجوہ صاحب ہیں کو ہرگز ہرگز نہیں چھوڑے گا، تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں قرآن اور اللہ کے احکامات کے مطابق قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے وہاں کیوں یہ طبقات کلام اللہ کے قانون سے مستثنیٰ ہیں اور اب بڑے بڑے کاروباری شخصیات صنعتکاروں کو بھی استثناء دیا جا رہا ہے جو اربوں روپے کی ٹیکس چوریوں، ٹیکس ریفنڈز کے فراڈز اور نجانے کتنے دیگر بے ایمانیوں بد دیانتیوں میں ملوث ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے، چاہے وہ جج ہو جرنیل ہو نیب کا چیف ہو یا کتنا ہی بڑا با اثر فرد کیوں نہ ہو کسی کو بھی عام پاکستانیوں، سیاستدانوں کے مقابلے میں استثناء حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ نیب چیئرمین کے کارنامے طشت از بام ہونے کے بعد ان کے خلاف کڑا احتساب ضروری تھا مگر کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگی، نیب اہلکاروں کی بدمستیوں لوٹ مار کے قصے قصیدے زبان زدِ عام ہیں مگر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا، نیب اور دیگر اینٹی کرپشن، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و اہلکاروں کی کروڑوں اربوں کی جائدادیں کسی احتساب کے زمرے میں نہیں آتیں آخر کیوں؟ اللہ ربّ العزّت نے ماسوائے تقویٰ اور پرہیز گاری کے کسی کو بھی کسی دوسرے پہ فوقیت نہیں دی تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا کیوں ہے؟

خاک سے ہو تم، اور خاک سے ہیں ہم
پھر کیوں خاص ہوئے تم، اور خاک ہوئے ہم

یہ انتہائی سنجیدہ اور غور طلب معاملہ ہے۔ ضرور غور کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).