بنی آدم اعضای یک دیگرند


مین ہیٹن نیو یارک میں مشرقی دریا کے کنارے یہ بیالیس منزلہ عمارت اقوامِ متحدہ کی ہے جہاں ُدنیا کے پانچ بڑے ممالک کم از کم تھیوری کی حد تک باقی ماندہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں جاری ظلم کو روکنے کے لئے یہاں سے کوئی نتیجہ خیز اور فوری قدم اُٹھایا گیا ہو۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ طاقتور ممالک خود بالواسطہ یا بلاواسطہ اس جنگ میں شامل ہوتے ہیں یا پھر یو این ہیڈ کوراٹرز کہ جگہ کا وہ منحوس نام کہ دریا کی اس کھاڑی کوٹرٹل بے اور ڈچ نائف کہتے ہیں چنانچہ ہم آسانی سے توہم پرستی کاشکار ہو کر یہ کہہ سکتے ہیں اقوام کے مسائل جو زیادہ تر ان کے قتلِ عام، بھوک اور بیماری سے متعلق ہوتے ہیں ان پر یہاں کچھوے کی سی سست رفتاری سے بات آغاز ہوتی ہے جب تک ہزاروں لاکھوں انسانوں کے جسم میں اجل کا چاقو پیوست ہو جاتا ہے۔ اور ویٹو کے قصاب کے بُغدے سے قرارداد قتل ہو جاتی ہے

اُدھر یو این کی بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ ایک دیوار پر سعدی شیرازی کے یاد گارِ عالم اشعار کنندہ ہیں

بنی آدم اعضای یک دیگرند
کھ در آفرینش ز یک گوھرند
چو عضوی بھ درد آورد روزگار
دگر عضوھا را نماند قرار
تو کز محنتِ دیگران بی غمی
نشاید کھ نامت نھند آدمی

یعنی سچ یہ ہے کہ تمام انسان ایک جسم کے اعضاء کے مانند ہیں، جن کی تخلیق ایک ہی روح سے ہوئی۔ جب وقت کی آفات سے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے اعضاء قرار سے کیسے رہ سکتے ہیں۔ اگر تجھے دوسرے کے درد کا احساس نہیں تو تُو آدمی کہلانے کے لائق نہیں۔

2019 میں اس فورم سے بہت شور اُٹھا جس کی گرد ہنوز نہیں تھمی۔ مہاتیرمحمد، طیب اردوان اور عمران خان نے بہت شاندار نکات اُٹھائے جنرل اسمبلی کا ہال بہت دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ انہوں نے دنیا کے موجودہ مرتے ہوئے لوگوں کا قصہ سنایا۔ یمن، مصر، فلسطین، روہنگیا اور کشمیر۔ ان سب کے مارنے والوں کے خلاف کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن تالیوں سے تقریر کی داد ضرور دی۔ فورا ہی کالم نگار، اینکر، صحافی بُری طرح مصروف ہوگئے وہ اپنے اپنے ملکوں میں ان تقاریر کے حق میں یا خلاف مسلسل بول رہے تھے ان کے بیچ ہیرو یا زیرو فاتح یا ناکام واپس لوٹنے پر مباحث برپا تھے۔ لوٹنے والے صدر و وزرائے اعظم کابینہ سے کئی دن تک مبارکباد وصول کر رہے تھے اور اپنی دعاگو خواتینِ اوّل کا شکریہ ادا کر رہے تھے

یہ سن 2020 ہے وہی دن ہیں اقوامِ متحدہ کا وہی پلیٹ فارم ہے، کُرہ ارض کے لوگ متوجہ ہیں۔ اجلاس سے پہلے کوئی شور و غوغا نہیں ہوا پاکستانی وزیر اعظم کے گزشتہ سال کے واشنگٹن ڈی سی کے عوامی جلسے کے جواب میں ہندوستانی وزیر اعظم نے ٹیکساس میں کوئی جلسہ نہیں کیا اور اس شو پر خرچ ہونے والی کئی ملین کی رقم سے ہندوستان میں مزید ٹوائلٹس بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ پھر نہ ہی انہوں اب کے امریکی صدر کا تقریباً ہاتھ کھینچتے ہوئے سٹیڈیم کا فاتحانہ چکر لگایا۔ دنیا اس مرتبہ وہ منظر بھی دوبارہ دیکھنے سے محروم رہی جس میں مودی صدر ٹرمپ کو بھینچ بھینچ گلے لگانے کی تگ و دو کررہے ہیں اور اپنا بایاں ہاتھ چٹاخ سے ان کے دائیں ہاتھ پر مار کر اپنے نروس ہونے اور امریکہ سے گہری دوستی باور کروانے کی حرکت کرتے رہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی صدر ٹرمپ سے رسان سے گفتگو کی اور اب کی بار نہ اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھی اور نہ اپنی سیلیبریٹی سندرم کی نرگسیت کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا اس مرتبہ ان کے نارمل انداز سے قطعی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ دنیا کی تقریباً ہر بات جانتے ہیں۔ اور تو اور صدر ٹرمپ نے اس بار یو این کے ہال میں بیٹھ کر تمام تقاریر ُسنیں اور اپنی باری پر اپنے ملک کی ترقی کے ُگن نہیں گائے بلکہ پوری دنیا کے ملکوں کی ترقی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کی۔ اُنہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کیوں اُن کے ملک نے گزشتہ ادوار میں ہزاروں میل دور جا کر جنگیں لڑیں جس کا نتیجہ فقط تباہی نکلا۔

وزیر اعظم مودی نے بھی اپنی مختصر ترین تقریر میں یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ وہ وطن واپس جاتے ہی باقی ماندہ کشمیریوں پر سے کرفیو اور فوج ہٹادیں گے، آرٹیکل 370 بحال کردیں گے اور اب تک کشمیر پر ہونے والے ظلم کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ کسی وجہ سے انہوں نے اس بار پھر پاکستان اور عمران خان کا ذکر نہیں کیا۔

وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے سب لوگ شدت سے منتظر تھے۔ کوٹ پتلون میں بغیر ٹائی کے وہ سادگی سے ڈائس پر آئے، ہاتھ میں تسبیح نہیں تھی البتہ آنے سے پہلے انہوں نے ہال کے ساتھ بنے ہوئے کمروں میں سے ایک میں اکیلے ہی چُپکے سے نماز پڑھی اور اُن کے ابتدائی جملے ہی سے جنرل اسمبلی کے ہال کی چھت جیسے پھٹ گئی۔ اُنہوں نے نہائت نرم آواز میں کہا کہ میں نو ایٹمی ممالک سے مخاطب ہوں، ”آئیے دنیا کا عرصہ ء دراز سے چھنا ہوا امن اسے واپس لوٹانے کے لئے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کی طرف پیش قدمی کریں آئیے اس کے ساتھ ہی ساتھ تخفیف اسلحہ کے لئے ایک قابلِ عمل پروگرام تشکیل دیتے ہیں۔

تمام دہشت گرد تنظیمیں ہمارے ہاں اب اسلحہ پھینک کر معاشرے کے بنیادی دھارے میں صاف و شفاف ہو کر شریک ہیں۔ تمام مدرسے ہائی سکول کی سطح کی تعلیم دے رہے ہیں، چائلڈ لیبر ختم کر دی گئی ہے۔ ہم اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ وہ روابط استوار کر رہے ہیں جو امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں یا سعودی عرب اور یو اے ای میں ہیں۔

ہمارے ہاں تمام سیاسی قیدی آزاد ہیں اور اقلیتوں پر اب کوئی ظلم نہیں توڑ سکے گا اور یہی توقع ہم سرحد پار سے رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم کی آواز تالیوں کے شور میں مشکل سے سنائی دیتی اور وہ بلاتکان اور بلا کم و کاست وہ تمام انہونی باتیں اور عزائم بتاتے چلے جا رہے تھے جو اس سے پہلے کبھی نہ سُنے گئے اور نہ کہے گئے۔ وہ کہہ رہ تھے کہ بڑی اقوام اور بالخصوص جیسا کہ قیاس ہے امریکہ کے انفلوئینس سے اس مقدس ادارے کو مکمل آزاد کرنے کے لئے آئندہ اجلاس نیروبی میں منعقد کیا جائے اور قرارداد پہ ووٹنگ کی بجائے ہر معاملہ انسانی بنیادوں پر نپٹایا جائے۔ ان کی تقریر کا وقت اگلے روز تک بڑھا دیا گیا تھا

اقوام مُتحدہ کی تاریخ میں ایسا اجلاس پہلے کبھی نہیں ہوا۔ لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ کچھوے اور ڈچ نائف کی کہانی سچ ہے اور بقول منیر کہ

”منیر اس ( جگہ) پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے“ جہاں آنسو بہانے اور نوحے سُنانے کے بعد وہ قرارداد ویٹو کے چاقو سے قتل ہو کر فائلوں کے انبار میں دفن ہو جاتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی یہ عمارت یہاں مین ہیٹن کے پُر ہجوم ہونے کی وجہ سے تعمیر نہیں ہونا تھی اسے فلشنگ میڈو کوئینز میں بننا تھا جہاں یو ایس اوپن ٹینس کے مقابلے ہوتے ہیں لیکن آخری لمحوں میں راک فیلر خاندان نے اس جگہ کئی ایکڑ عطیہ کر دیے۔ یہ جگہ ایک مذبح خانہ تھی۔ وہ مذبح خانہ آج تک بند نہیں ہوا۔ غریب بنی آدم کے اعضاء جانوروں کی طرح کٹتے چلے جاتے ہیں اور جسم کے باقی اعضاء کو کچھ خبر ہی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).