کشمیر کو شناخت کے ساتھ معاشی بحران میں مبتلا کرنے کی سازش


بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کرفیوا ور لاک ڈاؤن سے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جمہوری آزادیوں پر پابندیاں عروج پر ہیں وہیں کشمیریوں کو معاشی طور پرغیرمستحکم کیے جانے کی سازش بھی کی گئی۔ موجودہ صورتحال میں تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث کشمیری معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہونے لگے۔ آرٹیکل 370 میں ترمیم ایسے وقت میں کی گئی جب کشمیر میں معاشی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔

اس وقت سیاحت کے عروج کے ساتھ ساتھ مختلف انواع کے پھلوں کے تیار ہونے کا موسم بھی ہے اور سردیوں سے قبل ہاتھ سے بنی گرم شالوں کے ایکسپورٹ کا کاروبار بھی انہی دنوں عروج پر ہوتا ہے۔ باغبانی اور دستکاری کی صنعتیں کشمیر کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان صنعتوں سے کشمیر کے آٹھ لاکھ سے زائد خاندانوں کے تقریبا 43 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے اور یہ تنتالیس لاکھ افراد اس موسم میں محنت کرتے ہیں تب سال بھر ان کا چولھا جلتا رہتا ہے۔

جب کشمیر میں لاک ڈاؤن ہے اور نقل و حرکت پر پابندی ہے تو یہ کام نہیں ہو سکتا اور باغبانی سے پیدا ہونے والے لاکھوں ٹن تازہ پھل اور خشک میوہ جات کے تباہ ہونے لگے ہیں۔ سیب، ناشپتی اور تازہ پھلوں کے بیوپیاریوں میں تشویش ہے کہ فصل پک گئی لیکن منڈی تک نہیں لے جا سکتے اور ایک سال تک ان پر بدحالی رہے گی یہاں تک کہ ان کے گھر کا چولھا جلنا تک مشکل ہو جائے گا۔ بھارت کے حالیہ اقدام دراصل کشمیریوں کو معاشی طور پر بد حال کر کے بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کی سازش معلوم ہوتے ہیں تاکہ کشمیری معاشی طور پر بد حال ہوں اور روزگار کے لئے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔

بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق 2018 میں اس صنعت سے 1,956,331 میٹرک ٹن تازہ پھلوں کی پیداوار ہوئی اس کے علاوہ 205,405 ٹن خشک میوہ جات کی پیداوار الگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس صنعت سے تقریبا 6000 کروڑ روپے کا زرمبادلہ ریاست جموں کشمیر کو آتا ہے جس سے آٹھ لاکھ خاندانوں کے چولھے جلتے رہتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق 2018 میں سیب 1851723 میٹرک ٹن، ناشپتی 61191 میٹرک ٹن، خوبانی 16156 میٹرک ٹن، آڑو 2714 میٹرک ٹن، آلوچہ 7710 میٹرک ٹن، چیری 11789 میٹرک ٹن، انگور 790 میٹرک ٹن، Quince 3710 میٹرک ٹن کے علاوہ کئی دوسرے پھل پیدا ہوئے۔

خشک میوہ جات میں اخروٹ 195066 میٹرک ٹن کے علاوہ بادام اور دیگر میوہ جات باغبانی کی بڑی پیداوار رہیں۔ سری نگر کے اخبار رائزنگ کشمیر کے مطابق بھارت میں سیبوں کی کل پیداوار 27.5 لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے 18.5 میٹرک ٹن صرف کشمیر میں ہوئی، یعنی کل پیداوار کا ستر فیصد کشمیر میں ہوتا ہے۔ کشمیری سیب نہ صرف اندرون ملک بلکہ ساری دنیا کی مارکیٹ میں بھی پسندیدگی کا مقام رکھتے ہیں۔

اس کے ساتھ دستکاری کی صنعت سے تقریبا تین لاکھ چالیس ہزار لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ جموں و کشمیر کی دستکاری دنیا میں قالین بنائی، ریشم، شال، باسکری، مٹی کے برتن، تانبے اور چاندی کے برتن، پیپر مچھ اور اخروٹ کی لکڑی جیسے چھوٹے پیمانے پر اور کاٹیج صنعتوں کے لئے مشہور ہے۔ جموں و کشمیر کی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے دوران ریاست میں 132 میگا ٹن خام ریشم کی تیاری کی گئی تھی جس سے تقریبا 150,000 میٹر ریشمی کپڑا تیار کیا گیا تھا اور ریاست سے کاٹیج ہینڈکرافٹس انڈسٹری کی کل برآمدات 178.26 ملین امریکی ڈالر رہیں تھیں۔

اس صورتحال میں یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ جہاں ان صنعتوں کی بندش کے باعث جموں کشمیر کی بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو گا وہیں کشمیر کے پھلوں اور میوہ جات منڈی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے بھارت میں پھلوں اور خشک میوہ جات کی کس قدر قلت پائی جائے گی۔

اسی طرح سیاحت سے لاکھوں کشمیریوں کا روزگار وابستہ ہے۔ 2017 میں صرف وادی کشمیر میں 11 لاکھ سیاح آئے جبکہ 2018 میں حالات کی خرابی کے باعث 8.5 لاکھ سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا اسی طرح جموں میں لاکھوں سیاح جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ڈل جھیل کے شکارے سمیت پورا جموں و کشمیر ویران ہو چکا ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہوٹل بند پڑے ہیں۔ جو ریاست کی سیاحت اور ریاست کے باسیوں کے کے لئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔ اہل جموں کشمیر کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے، لوگوں کا کاروبار نہیں رہا۔

کشمیر میں ممکنہ معاشی بدحالی اور بھارت کا کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دور رکھنے کا ہتھکنڈہ

ایک طرف بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کو معاشی بدحالی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت کی جانب سے کشمیریوں کو لالی پاپ دینے کے لئے 50 ہزار نوکریوں کا اعلان سامنے آیا ہے۔ 2018 کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کی کل تعدادتقریبا 4.5 لاکھ ہے جس میں ایک لاکھ سے زائد ڈیلی ویجز والے ملازمین شامل ہیں ان کے علاوہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد پنشن حاصل کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا ہے کہ اگلے تین مہینوں میں ریاست میں 50 ہزار نوکریاں دستیاب ہوں گی جو جموں و کشمیر میں بحالی کی سب سے بڑی مہم ہوگی۔

معیشت کی تباہی کے بعد 50 ہزار نوکریوں کئی سکیموں کے اعلان ایک پیغام ہے کہ اب خود کفالت کے بجائے بھارت کے سہارے پر زندہ رہنا ہو گا۔ کیونکہ اگر یہ نوکریاں مہیا بھی کی جاتی ہیں توباروزگار افراد کی تعداد پانچ لاکھ ہو جائے گی۔ تاہم اس موسم میں کشمیر سے پھل اور خشک میوہ جات کی ایکسپورٹ سے جو سال کی جمع پونچی اکٹھی ہوتی تھی اب کی بار وہ نہیں ہو سکے گی اور باغبانی اورکاٹیج ہینڈکرافٹس انڈسٹری پر انحصار کرنے والے تقریبا 43 لاکھ لوگوں کے روزگار کا کوئی متبادل نہیں ہو گا جو تشویشناک ہے۔

بھارت کی اس سازش کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کشمیری اپنے محنت سے سال بھر کا سامان کرنے کے بعدا پنی توجہ تحریک آزادی پر مرکوزرکھتے تھے، اب کی بارا ن کو اس تحریک سے دور رکھنے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ تاکہ وہ پیٹ کے ہاتھوں مجبور رہیں اور بھارت سے روزگار کی بھیک لینے پر مجبور ہو سکیں۔ ایسے میں بھارت روزگار کے بہانے ان کو دوسرے شہروں میں منتقل ہونے کی صلاح دے گا اور روزگار کے لئے مصروف کرنے اور تحریک آزادی سے دور رکھنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اپنانے کی کوشش کرے گا۔

ان سب اعلانات کے باوجود ہندوستان کی معیشت اس قابل نظر نہیں آتی جو کشمیریوں کو کوئی بڑا لالی پاپ دے سکے۔ بی بی سی کامطابق سی ایم آئی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ملازمین کی تعداد 45 کروڑ تھی جو کم ہو کر 41 کروڑ رہ گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ چار کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چھن گئی ہیں یا وہ بے روزگار ہو گئے ہیں ا س کے ساتھ ریزرو بنک آف انڈیا (آر بی آئی ) سے 24 بلین ڈالر لینے کے اقدام نے مودی حکومت کی اقتصادی حال کا پول کھول دیا ہے۔ اس صورتحال میں کشمیریوں کے لئے 50 ہزار نوکریوں کا اعلان لولی پاپ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کشمیر میں شدید اقتصادی اور معاشی بحران پیدا ہونے کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).